انسان خواہشات کا مجموعہ ہے انسانی زندگی
میں ہر قدم ہرپل خواہشیں پروان چڑھتی رہتی ہیں ان میں ہزارہا وقت کے ساتھ
ساتھ زندگی کے سفرکی دھول میں محو ہو جاتی ہیں اور کچھ نت نئی خواہشات انکی
جگہ لے لیتی ہیں ۔ خواہشات کے اس گورکھ دھندے میں سے ہی کچھ ایسی جنہیں
انسان اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتاہے ان میں ایک قسم ایسی بھی ہے جسے انسان
دانستہ نادانستہ اپنے اندر زندہ رکھتا ہے یا اس سے بھاگ نہیں سکتا ،وہ اسے
محسوس تو کرتا ہے لیکن اسے کوئی نام نہیں دے پاتا اور وہ اس انسان کے ظائری
کردار جس کی وہ تصویر بنا پھرتا ہے حقیقی طور پر قطعی میل نہیں کھاتی اور
وہ لاشعوری طور پر ہی سہی اسے اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے ۔انسان بارہا جذبات
کی رو میں اپنی اسی ان دیکھی خواہش’’ جو اس کی نیچرمیں ہے ‘‘ کا اظہار
کرتاہے اور اس کے حصول کے لئے بے چین نظرآتا ہے ۔انسان کے اس دوہرے میعار
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب وہ عملی زندگی کے لئے اہداف مقرر کرنے کے مراحل
میں ہوتا ہے اسوقت وہ اپنے لئے ایک ایسے راستے کا انتخاب کر لیتا ہے جو اس
کے لئے انتہائی پرکشش ضرور ہوتا ہے لیکن وہ اس کی’’ نیچر‘‘ سے قطعی مطابقت
نہیں رکھتا ،وہ ان اونچی نیچی دشوار و گھاٹیوں کھائیوں سے نابلدان راستوں
کا مسافرہرگزنہیں ہوتا۔
خوبصورت و پرکشش فضا وں و راستوں سے دل موو لینے والی دلفریب صدائیں جو کسی
بھی انسان کو اپنی طرف مائل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن عملاًان
راہوں پر چلنا بڑا پرخطرو دشوار ہوتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی
۔ان کٹھن راہوں کے حقیقی مسافر اپنے ہدف کے سچے عاشق اور دیوانے ہوتے ہیں
انہیں اس آگ میں جلنے سے ہی دلی سکون وزہن کو راحت ملتی ہے وہ عمربھر اپنی
جان ہتھیلی پہ لئے ان راستوں پر چلتے ہیں۔خطروں سے کھیلنا ان کا مشغلہ
رہتاہے اور یونہی وہ تسکین روح کا سامان ممکن بناتے ہیں ۔۔۔لیکن ۔۔۔وہ
جنہوں نے حادثاتی یا لاشعوری طور پر ان راستوں کا رخ کیا ،تپتی راہوں پر
پیروں پر معمولی آنچ پڑھتے ہی چیخ اٹھتے ہیں اور بارہا انفرادی طور پرچند
قدم چلتے اپنی راہ لیتے ہیں اور کبھی عشروں پہ محیط سفربیچ راہ ترک کے کئی
دوسروں کو ساتھ لئے اپنے اصل کی جانب لوٹ جاتے ہیں اور الزام دوسروں پر دھر
دیتے ہیں اور یوں ان کی ساری زندگی اسی نظریاتی اتھل پتھل آوارہ گردی کی
نظر ہو جاتی ہے اور وہ ایک بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود کوئی تاریخ رقم
کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔کبھی خود کو کبھی ارووں کو اور کبھی ان تاریخی
راہوں کو کوہستے رہتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ابتداء سے ہی
شعوری طور پر ان انقلابی راستوں کے حقیقی اتار چڑھاو کو سمجھتے ہوئے ان کا
انتخاب نہیں کیا ہواتھا۔بلکہ محض ظاہری سیاسی ماحول وحالات کے دھارے میں
بہتے ہوئے ایک ایسے نگر میں آ پہنچتے تھے جہاں کچھ بھی ان کی نیچر سے
مطابقت نہیں رکھتا تھا۔اس طبقہ فکر کی ایک بڑی تعداد ریاست جموں کشمیر کی
آزادی کی علمبردار تنظیموں میں موجود ہے ۔
منگلہ قلعہ میں مقید ریاست کے عظیم سپوت شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کے روبرو
بیٹھ کر پاکستان کے مقبول ومنتخب وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ
جناب آپ اس راہ کو ترک کر دیجئے ہم اس کے بدلے میں آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ
سمیت کئی ایک مراعات دیں گے تو اس عظیم انسان کا جواب تھا کہ ہماری جدوجہد
منقسم ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی بحالی ہے نہ کہ
مظفرآبادوسرینگر کا اقتدار ،اس لئے اگر آپ کو ہم سے ہمدردی ہے تو آپ ہماری
اس جدوجہد میں ساتھ دیجئے ۔اور دوسری جانب اسی ریاست کی ایک بڑی آزادی پسند
تنظیم جو شہید کشمیر کو جدید کشمیر کی نظریاتی سرحدوں کا بانی اور اپنا
قائد مانتی ہے کے ایک اہم رہنما جو کئی برس تنظیم کے کئی مرکزی عہدوں پر
فائز رہے سے ایک صحافی نے ان کا بیان تحریر کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے نام
کے ساتھ کون سا عہدہ لکھیں تو انہوں بڑی تاکید سے کہا کہ تنظیمی عہدہ نہیں
بلکہ آپ میرے نام کے ساتھ ’’سابق امیدوار قانون ساز اسمبلی لکھنا ‘‘۔۔۔
یہ فرق ہے حقیقی انقلابیوں میں اور انقلاب کا نقاب اوڑھے روائتی لوگوں میں
جو انقلاب کے کھٹے میٹھے راستوں سے نا بلد ہیں ۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ
منقسم ریاست طویل ترین دوہری غلامی سے گزری ہے اور غلام دیسوں کے مسائل
ومحرومیوں کے امبار ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں جب آزادی کا نعرہ مستانہ
گونجتا ہے تو اس کی اپنی ایک منفرد کشش تمام محروم طبقات کو اپنے سحر میں
لے لیتی ہے اور پل بھر میں پورے ملک کا سیاسی ماحول بدل جاتا ہے اسیے حالات
میں ہزارہا لوگ بنا سوچے سمجھے آزادی پسند صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور
بدقسمتی سے ساری عمر اس راہ میں وقف کر کے بھی وہ اس کی حقیقتوں کو سمجھ
نہیں پاتے ، ہر چیز کو اپنے اصل فطرتی روائتی نقطہ نظر سے دیکھتے اور فیصلے
کرتے ہیں،ایسے لوگ اب ہر تنظیم میں بڑی تعداد میں موجود ہیں جو زبان سے وطن
کی آزادی وانقلاب کی بات کرتے ہیں جو عظیم و مقدس سوچ کی ترجمان ہے لیکن
لمحہ بھر میں انہی لوگوں کو تنظیم کے نچلی سطح کے عہدوں کی خاطر لڑتے
تنظیموں کو تقسیم کرتے دیکھاگیا ہے ۔وہ جو آزادی وواحدت کی بات کرتے نہیں
تھکتے انہیں علاقائی تعصب ومنافرت پھیلاتے دیکھا گیا ہے ۔وہ جو عشروں قوم
سے کہتے رہے کہ ریاستی عوام کے مسائل کا حل غیر ملکی کالونیل نظام میں نہیں
بلکہ وحدت کی بحالی و اپنے وسائل پر خود کے اختیارات میں مضمر ہے وہی یہ
بھی کہتے نظرآئے کہ لوگوں کے مقامی مسائل کے حل کے لئے موجودہ نظام کا حصہ
بننا چاہے ۔ یہ لوگ بڑے عجیب ہیں جب سٹیج پہ آتے ہیں تو اسٹیٹس قیو کی تمام
قوتوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن دوران الیکشن کہیں دیوار پر لگے ’’امیدوار
برائے قانون ساز اسمبلی حلقہ ایل اے ‘‘ کے پوسٹرکو دیکھ کر منہ میں پانی
بھر آتاہے ۔نام کے ساتھ عہدوں کا ٹائٹل سجانا اور سابق امیدوار قانون ساز
اسمبلی کہلوانا بھی ان کی بڑی خواہشات میں سے ہیں ۔کسی روائتی لیڈر کا
پروٹوکول دیکھ کر دل ہی دل میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور ان نام
نہاد آزادی پسندوں کوروائتی لیڈروں کی ویسٹ کوٹ اور سٹیج پر انگلی اوپر کئے
ہوئے سائیڈپوز تصویر والا پوسٹرتو جان نکال دیتا ہے یہ دوران الیکشن روائتی
سیاسی تنظیموں کے ورکرز سے زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور رات دن تمام حلقہ
ہائے انتخاب پر دوران بحث لڑتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو آزادی پسند
تنظیموں کے لئے زہر قاتل ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیرمیں لاکھوں
انسانی جانوں کی قربانی کے بعد بھی کوئی بین الاقوامی تحاریک کے ہم پلہ
تنظیم وجود نہ پا سکی جس کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی
ہے ’’انقلابی صفوں میں روائتی مائینڈ سیٹ ‘‘ جس نے تحریک آزادی کو بے پناہ
نقصان سے دوچار کیا ہے ۔ |