۱۴جنوری ۱۹۱۴ء کو چار سدہ کے گاؤں اتمان
زئی میں خدائی خدمت گار تحریک کے بانی ریئس الاحرار عبدالغفار خان کے گھر
پیدا ہونے والے غنی خان کے بارے میں کسی کو گمان بھی نہیں تھاکہ وہ بڑا
ہوکر فنونِ لطیفہ میں اسقدر نام پیدا کرے گا ۔ عبدالغفار خان ایک سیاستدان
تھے اس لئے اپنے بچوں غنی خان اور عبدالولی خان کو انہوں نے سیاست کے داؤ
پیچ سکھانے میں اپنا وقت صرف کیا ۔ غنی خان جب پانچ برس کے تھے تو اُن کی
والدہ کا انتقال ہو گیا۔ غنی خان نے آزاد قومی مدرسہ سے میٹرک کی ڈگری لی
اور پھر جامعہ ملیہ دہلی میں داخلہ لے لیا۔ سا تھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی
جاری رہی۔ آپ نے عربی زبان کی صر ف و نحوپر خصوصی توجہ دی اور سات سال صرف
کر کے عربی زبان و ادب پر مہارت حاصل کی۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی
کیا۔۱۹۲۹ء کو آپ لندن روانہ ہوئے مگر۱۹۳۰ء میں والدکی خواہش پر انجینئرنگ
کی تعلیم کیلئے لوئزیانہ سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ چلے گئے جہاں سے آپ نے
کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ ۱۹۳۳ء میں واپس آکر آپ نے تخت بائی شوگر مل
میں بحیثیت انجینئر خدمات سر انجام دیں۔غنی خان کی بیگم روشن ،پارسی خاندان
سے تھیں جو نواب رستم جنگ کی بیٹی تھیں۔ چونکہ غنی خان کو فنونِ لطیفہ سے
از حد لگاؤ تھااس لئے ۱۹۳۴ء میں آپ نے رابندر اناتھ ٹیگوراکیڈمی حالیہ
رابندرا ناتھ ٹیگوریونی ورسٹی واقع شانتی نکتین (Shantiniketan)میں داخلہ
لے لیا۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں آرٹ کی تعلیم کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔
اس درس گاہ میں غنی خان نے ماہر مصوّر وں اور مجسمہ سازوں سے تربیت حاصل کی
اور اپنے شوق کی تکمیل کیلئے سرگرمِ عمل ہو گئے۔پینسل ، چارکول اور پیسٹل
کا استعمال کرتے ہوئے آپ نے شاہکار تصاویر بنائیں۔ ان میں سے کچھ تصاویر آج
بھی غنی خان کے گھر کی دیواروں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور کچھ تصاویر نیشنل
گیلری اسلام آباد میں آویزاں کر دی گئی ہیں۔ آپ نے مٹی ، لکٹری اور پتھروں
کو تراش کر خوبصورت مجسمے بھی تخلیق کیئے۔ ان مجسموں میں انکے دوستوں ،
بیٹے فریدون اور والد عبدالغفار خان کے مجسمے شامل ہیں۔ ان کے تراشیدہ
مجسمے کو لکتہ شانتی نکتین ٹیگور سکول میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو غنی
خان کی فنکارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شاعری سے آپ کو شروع دن سے
شغف تھا۔ نوجوانی میں ہی غنی خان نے پشتو زبان میں شعرگوئی کا آغاز کر دیا
تھا جسے انہوں نے آخری عمر تک نبھایا۔غنی خان کی شاعری میں ہمیں پشتو
روایات اورفطرت سے محبت نمایاں طور پرنظر آتی ہے ۔غنی خان کی ایک نظم
’’محبت اور سوداگر‘‘کا اُردو ترجمہ ملاحظہ ہو۔
’’ا ے سودا گر،تو نے شاید لہو کی یلغار نہیں دیکھی،ننگ و ناموس اور غیرت کا
شملہ جھکے ہوئے سر پر نہیں سجتا۔ ملنگ کی آزادفضا پرتخت شاہی کا ماحول
سوبار قربان، آنکھیں
جھکی ہوئی ہوں تو ان میں سرورومستی خشک ہوجاتی ہے۔تیری شراب میں ایسی زہر ہے
جو دین و ایمان کو غارت کر دیتی ہے۔ تیرے شراب خانے کا ساقی بیسواکی مانند
ہے۔ جو کچی کوڑی پر بھی مہنگی ہے۔اے سودا گر! بس اب دفان ہو جا، ہم محبوب
کے دیوانے اورتو لعل و جوہر کا بھوکا ہے۔ ہم جس حقیقی خمار و مستی کے مرض
میں مبتلا ہیں اس کا مداوانہ تو دوا کر سکتی ہے اور نہ ہی دُعا ۔تجھے اپنے
زوراور طاقت پر گھمنڈ ہے اور ہم، محبت کے متوالے ہیں۔ اے فرعون صفت آ اورہم
ملنگوں کی بے نیازی کے رنگ ڈھنگ دیکھ۔ اس خاک پربڑے بڑے بادشاہوں کے سر
ادھر ادھر پھیلے ہوئے ہیں‘‘
آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’دپنجرے چغار‘‘ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ
’’پلوشے‘‘ کے نام سے ۱۹۶۰ء میں اور تیسرامجموعہ ’’پانوس ‘‘ ۱۹۷۸ء میں
منظرِعام پر آیا۔ ۱۹۸۵ء میں آپ کا تمام کلام ’’دغنی کلیات‘‘ کے نام سے
مرتب کر کے شائع کیا گیا۔ غنی خان بلا کے ادیب تھے اورآپ نے اُردو پشتو اور
انگریزی زبان میں اپنے خیالات کو ضبطِ تحریر میں لایا۔ ۱۹۸۵ء میں آپ کی
انگریزی تصنیف ’’The Pathans‘‘ اور ۱۹۹۵ء میں پشتو میں آپ کی تصنیف ’’دغنی
لٹون‘‘ شائع ہوئی۔آپ نے اردو زبان میں ’’خان صاحب‘‘ جیسی دلچسپ کتاب تحریر
کی جو۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔ جب آپ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا توقید و
بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔۱۹۴۸ء سے لیکر۱۹۵۴ء تک ٓپ پاکستان
کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ آپ کی اسیری کے زمانے میں لکھے گئے خطوط کا
مجموعہ پشتو ادب کیلئے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ غنی خان چونکہ بنیادی طور پر
ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے سیاست میں بھی اپنی
خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے نام کمایا۔ آپ ۱۹۴۵ء میں ہندوستان کی مرکزی
پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور ’’زلمے پختون‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی
بنائی ۔ آپ کو۱۹۸۰ء میں ستارہ امتیاز کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے ۱۵
مارچ ۱۹۹۶ء کو انتقال کیا اور اتمان زئی چارسدہ (خیبرپختون خواہ) میں دفن
ہوئے۔ صوبائی حکومت نے انکی خدمات کے اعتراف میں چارسدہ کے مقام پرآٹھ ایکڑ
زمین پر مشتمل ایک پارک قائم کر کے اسے غنی ڈھیری کے نام سے موسوم کیا ہے
اوراسی پارک میں غنی سنٹر کے نام سے ایک یاد گاربھی قائم کر دی ہے۔ |