پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت بھی اربوں ڈالر کے قرضے لے چکی ہے جبکہ اس سے قبل کی حکومتیں
بھی اس معاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہر حکومت نے کشکول توڑنے کی بات کی
لیکن کبھی کسی بھی حکومت نے پاکستان کے قرضے اتارنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد
میں کشکول توڑنے کا مختلف حکومتوں کا بیان محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوا
کیونکہ اس کے بعد پھر آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بنک سمیت
مختلف ممالک کے سامنے دست سوال پھیلایا گیا اور امداد حاصل کرنے کی کوشش کی
گئی۔ اس تمام طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اور بھی زیادہ مقروض
ہوتا چلا گیا۔پاکستان پر کتنا قرض ہے اس سلسلے میں سرکاری ماہر معاشیات اور
اپوزیشن کے ماہر معاشیات کی آراء اور اعداد شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے
۔ دونوں اندرونی اور بیرونی قرضوں کے الگ الگ اعداد شمار پیش کرتے ہیں لہذا
کسی بھی ایک فیگر اور کلی طور پر درست تسلیم کرنا درست نہیں ۔کہا جاتا ہے
کہ پاکستان پر جنرل مشرف کے دور میں بیرونی قرضہ 40ارب ڈالر سے بھی کم تھا
جو اب بڑھ کر 70ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے جبکہ اندرونی قرضہ اس کے
علاوہ ہے تاہم اس فیگر کو حتمی سمجھنا بھی درست نہیں ۔پاکستان جس کا سالانہ
بجٹ ہی 40سے 45ارب ڈالر یعنی تقریباً 40 سے 45کھرب روپے کا ہے جس میں ہر
سال 25فیصد سے زائد خصارا ہوتا ہے اور خصارا پورا کرنے کے لئے مزید قرضے
لئے جاتے ہیں ۔ تو کیا ایسی صورت میں پاکستان کبھی اس قابل ہو سکتا ہے کہ
وہ اپنے بیرونی و اندرونی قرضے ادا کر سکے؟ ظاہر ہے کہ جب ملک کا بجٹ ہی
25فیصد خسارے کا ہوتا ہے تو پھر پاکستان صرف قرضوں کا سود ہی ادا کر سکتا
ہے اور وہ بھی قسط کبھی کبھی حالات کی وجہ سے روکنی پڑتی ہے ۔ اب سلسلہ یہ
ہے کہ پاکستان بیرونی اور اندرونی قرضوں کی محض قسطیں ادا کرنے کے لئے یا
کہئے کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مزید
قرضے لیتا ہے۔ حکومتیں باتیں بڑی بڑی کرتی ہے لیکن کسی کے پاس بھی ان قرضوں
سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی فارمولا نہیں۔ میں اپنے اس کالم میں ایک
آئیڈیا پیش کر رہا ہوں ممکن ہے کہ یہ قابل عمل ہو۔ ارباب احتیار و اقتدار
اس پر غور کر لیں ۔ شاید پاکستان کا مسئلہ حل ہو سکے۔ پاکستان کے پاس زمین
کی کوئی کمی نہیں اور ملک بھر میں لاکھوں ایکٹر زمین بنجر اور غیر آباد ہے۔
اگر حکومت پاکستان ملک بھر میں 1لاکھ انڈسٹرئیل زون بنانے کا اعلان کرے اور
ہر انڈسٹرئیل زون میں ہزار ہزار گز کے 10ہزار پلاٹ کی کٹنگ کرے تو ایک لاکھ
انڈسٹرئیل زون میں مجموعی طور پر 10لاکھ پلاٹ دستیاب ہونگے۔ ملک بھر میں
مجوزہ طور پر قائم کئے جانے والے ان انڈسٹرئیل زونز میں ہزار گز کے ایک
پلاٹ کی قیمت 2.5 (ڈھائی) سے 5کروڑ روپے کے درمیان رکھی جائے اور انڈسٹرئیل
زون میں پلاٹ خریدنے والے ہر سرمایہ کار کو مختلف مراعات کی پیشکش کی جائے
۔ مثال کے طور پر پانچ سال تک مفت فضائی اور ٹرین کے ٹکٹ، پلاٹ خریدنے
والوں کو ٹیکس میں چھوٹ، پلاٹ خریدنے والوں کے اہل خانہ کو اچھے اسپتالوں
میں علاج و معالجے کی سہولتیں،اسپیشل پاسپورٹ کا اجراء وغیرہ۔ مراعات اتنی
پرکشش ہوں کہ اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے انڈسٹرئیل زونز میں
پلاٹ خریدنا اعزاز کی بات ہو جائے۔ اسطرح اگرحکومت پاکستان انڈسٹرئیل زون
کے یہ پلاٹ فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے 2.5سے 5 سو کھرب روپے
کی آمدنی ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان پر مجموعی قرضے کا حجم سو سے ڈیرھ سو
کھرب روپے ہے۔ جس سے نہ صرف پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضے ادا کئے جا
سکتے ہیں بلکہ انڈسٹرئیل زون کے لئے بہترین انفرااسٹرکچر بھی تیار کر کے
ملک میں انڈسٹریزکے قیام کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔بظاہر یہ کام بہت سادہ اور
آسان نظر آ رہا ہے لیکن پاکستان کے سیاسی حالات کے پیش نظر راقم الحروف کو
بخوبی اندازہ ہے کہ اس آئیڈیا پر عملدآمد اتنا آسان بھی نہیں ۔ زمینوں کے
معاملے پر صوبوں کی طرف سے تحفظات اور رکاوٹوں کا سامنا ہو گا تاہم ان
تحفظات کو مختلف یقین دھانیوں ، معاہدوں اور گفت و شنید سے دور کیا جاسکتا
ہے تاہم اس کے لئے خلوص ایمانداری اور نیک نیتی کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ
جس کے بغیر اس قسم کے کسی بھی آئیڈیا پر عملدآمد تو کجا اس کے بارے میں
سوچنا بھی محال ہو گا۔ اس پروجیکٹ پر عملدآمد سے نہ صرف پاکستان کے قرضے
ادا ہونگے بلکہ مجوزہ انڈسٹرئیل زونز میں انفرااسٹرکچر کی فراہمی کے بعد
صنعتی زونز میں انڈسٹری لگائے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ملک سے بے
روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ |