گھوڑا اور کتا ایسے جانور ہیں جو قدیم دور سے ہی انسانوں
کے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دونوں ہی انسانوں کے بہت وفادار ہیں۔مسلمانوں
نے گھوڑوں کو اپنے ساتھ رکھا ، جنگ ہو یا امن گھوڑا ان کے ساتھ رہا، جنگ
میں سوار کے ساتھ دادِ شجاعت دیتے ہوئے اور زمانہ امن میں ایک بہترین سواری
کے طور پر گھوڑا ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ فی زمانہ جدید سواریوں کی وجہ سے
گھوڑے کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ البتہ کتا ابھی تک انسانوں کے ساتھ موجود ہے۔
بالخصوص اہل مغرب تو کتے کو اپنا رفیق سمجھتے ہیں ،کتے کو اپنے ساتھ رکھنا
ان کے معاشرے میں عام ہے بلکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مغربی خواتین
نے شوہر پر کتے کو ترجیح دی ہے۔
|
|
اب لندن میں کتوں کے لیے ایک انوکھا کام کیا گیا ہے۔ لندن میں
دنیا کی اپنی نوعیت کی پہلی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے جو صرف کتوں کے نام
پر مخصوص کی گئی ہے ، برطانوی آرٹسٹ ڈومینک ولکاکس نے ایسے بہت سے فن پارے
تخلیق کئے ہیں جن سے کتے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ پلے مور کمپین کے زیر اہتمام
منعقد کی جانے والی اس دو روزہ نمائش کا مقصد لوگوں کو اپنے پالتو جانور کے
ساتھ زیادہ دیر تک کھیلنے کی ترغیب دینا ہے۔
نمائش میں رکھا گیا ہر فن پارہ کتوں کی کسی ایسی سرگرمی کے بارے میں ہے جو
کتوں کو مرغوب ہے،نمائش لگائی گئی تنصیبات میں کتے کیلئے مخصوص ایک بہت بڑا
سا پیالہ ،ایک کار کی کھلی کھڑکی سے مشابہت رکھنے والی شبیہ اور کتوں کے
مرغوب رنگوں سے بنائی ہوئی متعدد پینٹنگز شامل ہیں، یہ نمائش 19 اور 20
اگست کو منعقد کی گئی۔
نمائش کے منتظمین کاکہنا ہے کہ آرٹ سب کیلئے ہے، اگرچہ یہ درست ہے لیکن
عام طور پر ہر ایک کیلئے سے مراد صرف انسان لی جاتی ہے جبکہ پالتو جانور
ہماری زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان
کیلئے بھی آرٹ تخلیق کیا جائے اور اب کتوں کیلئے اپنی نوعیت کی دنیا کی
منفرد نمائش کے انعقاد کے ذریعہ ایسا کردیا گیا ہے۔
نمائش میں کتوں کے بنائے گئے کچھ فن پارے میں فروخت کے لیے رکھے گئے تھے۔
کتوں کے بنائے گئے فن پاروں کے ساتھ اس کے تخلیق کار کتے کی تصویر بھی دی
گئی تھی۔ ایک کینوس پر دھاتی پیالہ رکھا گیا اور اس پیالے کے ساتھ پیسٹل
کلر کو منسلک کردیا گیا۔ کتے اپنی تھوتھنی سے اس پیالے کو کینوس پر دھکیل
کر فن پارے تخلیق کرتے رہے۔
|
|
جانوروں کے لیے اہل مغرب کی محبت اور ان کے لیے ہمدردی قابل قدر ہے لیکن
افسوس کا مقام یہ ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے اہل مغرب
مسلمانوں کے قتل عام پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ کشمیر، فلسطین، برما اور دیگر
خطوں میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام پر ان کی خاموشی لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
جانوروں کی دلجوئی کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے والے انسانوں کے قتل عام پر
چپ رہتے ہیں۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
|