شادی کے بارے میں دلچسپ موقف سامنے آ رہے
ہیں۔ شیخ رشید کی شادی بھی کئی بار موضوع بحث بنی رہی ہے۔ عمران خان کی
شادی کے چرچے بھی ایسے ہی ہوتے رہتے ہیں۔ اب ایک بار پھر شیخ رشید اور
عمران خان حکومت کے خلاف صف آرا ء ہو رہے ہیں۔ دھرنوں اور مارچوں کے
پروگرام بن رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری بھی میدان میں نکلے آئے ہیں۔ مگر
انھیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ سب جانتے ہیں وہ نعرے مارتے اور الٹی
میٹم دیتے ہوئے یورپ نکل جاتے ہٰیں۔ بے چارے ان کے مرید پھر ایک سال ان کے
دعوؤں کے سہارے گزار دیتے ہیں۔ ان کے دھرنوں میں سوکھی روٹیاں ، چنے اور
پکوڑے کھانے والوں کا کہنا ہے کہ علامہ صاحب سیاحت پر پاکستان آتے ہیں۔ چند
ماہ کی چھٹٰیاں گزارنے کا یہ انداز ہے کہ اپنے مریدوں کو جمع کر کے ان کا
لہو گرم رکھا جائے۔ جیسے عمران خان صاحب کے اے ٹی ایم کا کافی تذکرہ ہوتا
رہا ہے ۔ ایسے علامہ صاحب کا کبھی نہیں ہوا۔ ان کے دنیا بھر میں قائم مدارس
اور دیگر دینی پروگراموں کے لئے سال بھر کروڑوں کا چندہ جمع ہو جاتا ہو گا۔
یوں تو آڈٹ نہ ادھر ہوتا ہے نہ ہے فلاحی کاموں کے لئے جمع رقومات کا۔ یہ
علامہ قادری کا کمال فن ہے کہ وہ سال میں چند ماہ اپنے چاہنے والوں کے لئے
نکال لیتے ہیں۔ فرصت کے ان لمحات کو وہ عوام کے نام کرکے احسان کرتے ہیں۔
لاہور میں لاشیں کس نے گرائی ، اس بارے میں ابھی تک کسی کمیشن کی رپورٹ
منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ لاشوں پر سیاست ہو رہی ہے۔ جو
معصوم لوگ سانحہ لاہور میں مارے گئے۔ ان کا کیا قصور تھا۔ انہیں کس نے اپنے
اقتدار کے لئے استعمال کیا۔ سب جانتے ہیں۔
آج ایک ایسے موقع پر عمران خان، شیخ رشید، علامہ طاہر القادری، چودھری
برادران عوام کو سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں جب ملکی دفاع او سلامتی کو
اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت اور افغانستان ہی نہیں بلکہ
بنگلہ دیش اور ایران سے بھی لال سنگلز مل رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات
انتہائی خراب ہیں۔ قتل عام جاری ہے۔ سخت کرفیو کا 46واں دن ہے۔ بھارت مزید
فوج کشمیر میں داخل کر رہا ہے۔ جنگ بندی لائن پر بھارتی فوج فائرنگ اور
گولہ باری کر رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے یا نیلم جہلم پروجیکٹ
کی وجہ سے آزاد کشمیر کے اس علاقہ کے عوام کا یہ تاثر ہے کہ شاید چین کی
وجہ سے بھارت وادی نیلم میں گولہ باری نہیں کرے گا۔ مگر یہ تاثر بھی ختم ہو
رہا ہے۔
پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر جنگ بندی لائن پر واقع گاؤں بگنہ پائین کے
نوجوان کو سامنے بگنہ بالا میں قائم بنکر سے بھارتی فوج نے گولی مار دی۔
کیل سیکٹر کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہاں بھی بھارت نے گولہ باری کی
ہے۔ یہ صورتحال نیلم کی دو لاکھ سے زیادہ آبادی کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔
یہاں دہائیوں بعد عوامی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔ لوگ گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔
مگر اب ایک بار پھر تناؤ پیداہو رہا ہے۔ لوگ گولہ باری سے بچانے کے لئے
تعمیر کئے گئے بنکرز کی از سر نو مرمت کر رہے ہیں۔ اگر گولہ باری شروع ہوئی
تو جنگ بندی لائن کے کئی علاقوں میں عملی ناکہ بندی ہو جاتی ہے۔
بھارتی فوج نے لگتا ہے کہ سیز فائر کا فائدہ اٹھا کر اپنا دفاع مضبوط کر
لیا ہے۔زمین دوز مورچے تعمیر کئے ہیں۔ سرنگیں کھودی ہیں۔ کرالنگ سرنگیں بھی
تیار کی ہیں۔ مگر آزاد کشمیر کی طرف ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وادی نیلم
کی اکلوتی شاہراہ کو بھارتی گولہ باری سے بچانے کے لئے حفاظتی دیوار تعمیر
کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ کیرن بائی پاس تباہ حال ہے۔ بلکہ یہ
بھی بھارتی گولہ باری کی زد میں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں
پر جنگ بندی لائن پر واقع آبادی کو بھارتی جارحیت سے بچانے کے لئے معقول
تدابیر کرے۔ سڑکوں کا دفاع کیا جائے۔ حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔ بھارت ایسا
لگتا ہے کہ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ کیوں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے
کسی بھی مطالبے جو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کو کبھی بھی
اپنا نہیں سمجھا، ان پر کبھی اعتبار اور اعتماد نہیں کیا۔ ورنہ 46ویں روز
بھی وادی میں سخت کرفیو نافذ نہ رکھا جاتا ، عوام کا قتل عام نہ ہوتا۔ اب
فوجی گھروں میں گھس کر عوام پر تشدد کر رہے ہیں۔ فوجی انخلاء کے بجائے
بھارت مزید فوج اور نیم فوجی کشمیر میں داخل کر رہا ہے۔
پاکستان بھی الرٹ ہے۔ پاک فوج مکمل تیار ہے۔ جنگ بندی لائن پرجدید توپیں
اور انٹی ائر کرافٹ گنیں ، سنائپرز، جدید ترین اسلحہ سے لیس کمانڈوزبھارتی
لڑاکاطیاروں اور چھاتہ برداروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر بھارت نے کوئی
مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو کشمیر بھارتی فورسز کا قبرستان بن جائے گا۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارت مسلہ کشمیر سے راہ فرار اور بات چیت سے بھاگ کر
جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ جنگ بندی لائن پر بسنے والے عوام بھی تیار ہیں۔ یہ
بھی بار بار کی جارحیت سے تنگ ہیں۔ سرحدی عوام بات چیت اور مذاکرات کے حامی
ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے بہت خون خرابہ دیکھا ہے۔ ایک موقع پر انھوں نے مسلح
کارروائیوں کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ مگر بھارت کی جارحیت پھر بھی جاری ہے۔
جس کے مقابلے کے لئے لوگ جنگی ٹریننگ کے لئے بھی آمادہ ہیں۔ اس پر بھی غور
ہونا چاہیئے۔
ان حالات میں عمران خان، شیخ رشید، علامہ طاہرلقادری، چودھری برادران حکومت
کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ شیخ رشید کے بقول پی پی پی کا پنجابی
گروپ بھی سڑکوں پر آئے گا۔ مولانا فضل الرحمان بھی نواز شریف کا ساتھ نہیں
دیں گے۔ یہ اصل میں مفروضے ہیں۔ عوام حالات سے واقف ہیں۔ جب مقبوضہ کشمیر
میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کے عوام سڑکوں پر آ رہے تھے۔ کشمیر کی
آزادی کے لئے لوگ احتجاج کر رہے تھے۔ ان کو بھارت کے بجائے نواز شریف حکومت
کے خلاف سڑکوں پر لانے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ اگر اس بار بھی عمران خان
نے کنٹینر پر ایک اور شادی رچانے کا اعلان کر دیا تو شیخ رشید صاحب کا
ردعمل کیا ہو گا۔ شیخ رشید کا مشورہ ہے کہ عمران خان دھرنے کے بعد تک شادی
ملتوی کر دیں۔ مگر خان صاحب اپنی شادی نجی معاملہ رہنے دینے کا اصرار کرتے
ہیں۔ جو کبھی بھی رچائی جا سکتی ہے۔ پتہ نہیں شیخ صاحب دھرنوں کی ناکامی کا
تعلق شادی سے جوڑنے پر کیوں بضد ہیں۔جب کہ خان صاحب شیخ صاحب کی طرح کنوارہ
یا رنڈوا پن کی زندگی گزارنے پر ہر گز تیار نہیں۔ان کا موقف ہے کہ شادی
شریعت میں جائز ہے تو شیخ رشید کو کیا مسلہ ہے۔وہ بھی شادی کر لیں۔ |