حرمت لفظ: پروفیسر سید بشیر حسین
جعفریؒ(مرحوم)
نیلہ بٹ کے 23 اگست 1947 کے اُس جلسہ کا میں ایک گواہ ہوں اور کم از کم 30
مرتبہ یہ آنکھوں دیکھا حال لکھ کر اخبارات اور جرائد میں شائع کراچکا ہوں۔
سردار محمد عبدالقیوم خان اس وقت 23 برس کے تھے اور میں پندرہ برس کا ،
پونچھ شہر کے اسلامیہ ہائی سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا ، جولائی
1947 کی موسمی تعطیلات میں عبداﷲ خان و دیگر مسلم کانفرنس کے تحت جلسہ میں
اپنی گرفتاریاں دے رہے تھے، عید گاہ گراؤنڈ میں جلسہ تھا ، پولیس نے میرے
سامنے عبداﷲ خان کو گرفتار کیا، پھر انہیں پونچھ جیل میں پہنچایا گیا وہاں
سے جموں جیل میں اگلے چھ ماہ میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ یہ تھے اولین لوگ
پھر یہ ہوا کہ چھ ستمبر 1947 کو ہولڑ سیداں کے سید خادم حسین شاہ کو نالہ
ماھل میں گرفتار کر کے اسی روز شام کو CMH باغ کے احاطہ میں شہید کر دیا
گیا۔
پونچھ (ضلع ) میں جون 1947 میں مسٹر بھیم سین وزیر وزارت پونچھ باغ میں جج
مجسٹریٹ موتی رام آف گوراہ ، پلندری اور فوج کی طرف سے میجر کھجور سنگھ،
تحصیل باغ میں تحصیلدار سید محمد صدیق شاہ کو فوج نے اپنے ساتھ بطور سپیشل
مجسٹریٹ بااختیار دفعہ 30 اور راولاکوٹ میں ہیڈ ماسٹر جس کو بعد میں یعنی 4
اکتوبر 1947 کو منگ میں کوڑے ناں نکہ سے(اب شہیدگلہ) راولاکوٹ جاتے ہوئے
نائیک اﷲ دتہ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ معذرت خواہ ہوں نیلہ بٹ سے
منگ جا پہنچا ہوں لیکن میری معلومات ایک فلڈ بن کر دماغ میں اُترتی ہیں۔
جب 14 اگست 1947 ء کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا اس روز ریاست جموں و کشمیر
کے مسلمانوں نے بے حد خوشی منائی رات کو چراغاں کیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد
ہے کہ سوہاوہ شریف اپنے گاؤں میں ہم لڑکوں اور نوجوانوں نے رات کو جلوس
نکالاتھا ۔ اصلی خوشی کا سبب یہ تھا کہ پاکستان بن جائے گا۔ اے کاش کہ ایسا
ہو جاتا۔ نیلہ بٹ کے جلسہ کے انعقاد سے قبل سردار محمد عبدالقیوم خان نے
دھیر کوٹ سے روانہ ہو کر چیڑالہ تک کا دورہ کیا دور نیچے کا ٹھوار چنبہ تک
سے ہو کر سوہاوہ شریف پہنچے۔ یہاں پیر شمشاد حسین شاہ (فقیر منش انسان تھا)
، مولانا سید مظفر حسین ندوی اور پیر صادق حسین شاہ سے ملاقات کی اور 23
اگست کے جلسہ میں شرکت کی دعوت دی۔
23 اگست کو سوہاوہ سے صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ مندرجہ بالا شخصیات کے ہمراہ
کوئی سو لوگوں کا جلوس نکلا ، میں بھی ساتھ تھا، چیڑالہ سے بہت لوگ شامل
ہوئے اسطرح ناڑا کوٹ، دانا، سیسر کے لوگ گھروں سے نکل پڑے مکھیالہ ، ناول ،
نڑول ، بھاگسر ، دھیرکوٹ، کھنتل وغیرہ کے لوگ 12 بجے کے لگ بھگ نیلہ بٹ کی
بلندی پر یہاں بڑی بڑی تراڑیں (Stones) تھیں، کہیں کہیں ساتھ میں کھیت ،
درخت زمین کا صاف ٹکڑا ۔ یعنی کھیت بھی نہ تھا ۔
بہرحال یہاں جلسہ ہوا۔ صدارت مولانا سید مظفر حسین ندوی نے کی، باغیانہ
خطاب مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کا تھا ۔ یہاں دیگر خطاب کرنے
والوں میں سید مظفر حسین ندوی، پیر سید محمد صادق حسین شاہ عادل، غازی محمد
اسماعیل خان، سردار عبدالغفار خان(ان کی عمر 19 برس تھی) صاحب قابل ذکر
ہیں۔ پیر شمشاد حسین سوہاوی مسلم کانفرنس ضلع باغ کے قائم مقائم صدر تھے
کیوں اصل صدر سید حسین شاہ گردیزی ان دنوں پونچھ جیل میں تھے۔
مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان برٹش انڈین آرمی سے 1945ء میں دوسری
جنگ عظیم ختم ہوئی تھی جنگ عظیم دوئم میں مجاہد اول کو فلسطین اور دوسرے
علاقے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ آپ تعلیم یافتہ تھے پھر عالمی سطح کی معلومات
کے ساتھ ساتھ مشاہدات کا ایک جہاں اس پر مستزاج سوچ اور فکر کا سأئبان!
مجاہد اول نے دراصل مہاراجہ ہری سنگھ والئی جموں و کشمیر کو پیغام بذریعہ
وزیر وزارت پونچھ منسٹر بھیم سین بذریعہ سول ملٹری ایڈمنسٹریشن باغ تحصیل
بھجوایا ۔ آپ نے کہا ’’پاکستان بن گیا ہے پوری ریاست جموں وکشمیر کو
پاکستان میں شامل کرنے کے اعلان میں اب کوئی دیر برداشت نہ ہوگی۔ مہاراجہ
ہری سنگھ اسلام لے آئے ریاست کا سربراہ رہ سکتا ہے ، وہ ایسا کب کرے گا اس
نے تو اپنی فوج بھیج رکھی ہے اب ہمیں جنگ آزادی لڑنا ہے اور اس کے لئے ہم
تیار ہیں۔
یاد رہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے بریگیڈئیر کشن سنگھ کی کمان میں پونچھ شہر
میں اپنی فوج بھجوا دی تھی، جموں وکشمیر النفنٹری نمبر 9,8,1 یعنی 3 ہزار
فوج راولاکوٹ ، پلندری ، باغ، مظفرآباد، کوٹلی ، میرپور میں پھیلا رکھی
تھی۔ سب سے بڑا فوجی جمگھٹا چیڑالہ میں اور راولاکوٹ میں تھا۔ راولاکوٹ سے
فوج کا ایک بڑا حصہ تھوراڑ اور منگ میں پہنچا جہاں 4 تا 6 اکتوبر 1947 کو
شدید جنگ ہوئی۔
نیلہ بٹ میں 23اگست کو جلسہ کی پلاننگ کھنتل کے معروف ٹھیکہ دار سردار گل
احمد خان اور ان کے بھائی سردار شہزاد خان کے گھر میں ہوئی۔ باغ اور دھیر
کوٹ کے SHO تھانیدار سردار محمد رزاق خان کھنتل کے سردار گل احمد خان کے
صاحبزادے تھے اس جلسہ کے بعد ان پر بھی بڑی افتاد پڑی تھی۔
نیلہ بٹ کے جلسہ میں مجاہد اول نے اعلان کیا۔’’ آج ہم تمام لوگ اپنا پیغام
پہنچانے کے لئے یہاں سے مارچ کر کے پیدل باغ تحصیل ہیڈ کوارٹر پہنچیں گے۔
میجر کھجور سنگھ ، جج موتی رام اور تحصیلدار سردار سید محمد خان کے ذریعہ
وائرلیس پر بھیم سین کو مطالبات پہنچائیں گے۔ جلسہ گاہ میں پانچ کے لگ بھگ
جو لوگ تھے وہ صرف ایک روز کے لئے اکھٹے تھے مگر باغ تک سفر وہاں کے حالات
اور واپسی کم از کم 5,4 روز کا معاملہ تھا مگر مجاہد اول سے محبت کرنے
والوں نے اس سفر جو چین کے مائے تنگ کی لانگ مارچ کے بعد پہلی منی مارچ
تھی، تاریخ یہی راہنمائی کرتی ہے... لبیک کہا۔ میں بھی اس سفر میں شریک اور
رات کو ارجہ کے نمبردار راجہ سجاول خان کے گھر دیر سے پہنچا ۔ یہاں ایک
ہندو سیٹھ نانک چند کی دکان ایک بڑا سٹور تھا۔ جس کو جلوس والوں نے رات کے
وقت خالی کر دیا۔
24 اگست صبح 9 بجے راقم نے منگ بجری میں اپنے خاص جاننے والے ہدایت اﷲ نامی
شخص کے ہاں ناشتہ کیا بلکہ کھانا کھایا۔ جب 11 بجے ہاڑی گہل پہنچا تو یہاں
پھر سے مجاہد اول کا ایمان افروز خطاب سنا۔ دن 2 بجے کے لگ بھگ ہمارا جلوس
بنی پساری نام کے گاؤں پہنچا ۔ نمبردار محمد یعقوب خان کا یہاں گھر تھا ،
چھوٹی سی مسجد ، آبی خشکی کے کھیت تھے اور باغ تحصیل ہیڈ کوارٹر یہاں سے
نظر آرہا تھا شاید ایک میل کا فاصلہ ہوا ہو۔
باغ تحصیل کی انتظامیہ نے جلوس کو یہاں روکنے کے لئے اپنے نمائندہ کے
طورپرسردار سید محمد خان (بعد میں وہ کمشنر ریٹائرڈ ہوئے) کو بھیجا ۔ میں
نے سید محمد خان کی یہ گفتگو خود سنی تھی۔ اس نے مجاہد اول اور دیگر راہ
نماؤں سے کہا؛-
’’پونچھ کے وزیر وزارت جناب بھیم سین سے وائر لس پر رابطہ کیا گیا ہے، فوج
کے میجر کھجور سنگھ اور جج موتی رام نے مجھے یہاں بھیجا کہ آپ کو بتاؤں کہ
باغ شہر اور قرب وجوار کو آج سے ریڈ ایریاRed Area قرار دیا جا چکا ہے۔ آپ
یہاں سے داخل نہ ہو سکیں گے۔ چنانچہ مجاہد اول نے رفقاء کے مشورہ پر باغ
شہرسے تین سو میٹر آگے ہڈاباڑی نام کے کھیت اور نالہ ماھل کے کنارے جلسہ
گاہ قائم کی۔ یہاں پر علی اصغر شاہ آف سیری پیراں ، سردار گل احمد خان سدھن
گلی، سید خادم حسین شاہ ہولڑ، سردار محمد حسین خان دھڑے، سردار غلام محمد
خان عرف ملاں غلام دھڑے اور کئی لوگ بنی پساری ہی میں جلوس کے ساتھ شامل
تھے۔ 25,24 اگست بنی پساری مرکز بنا رہا۔ تقاریر ہوتی رہیں اور 26 اگست کو
ہڈا باڑی میں جب پیر سید علی اصغر شاہ کی تقریر ہو رہی تھی، ڈوگرہ فوج نے
باغ شہر میں قائم ایک مورچے سے برین گن ، مشین گن سے ہڈا باڑی کی جلسہ گاہ
پر فائرنگ شروع کر دی۔ لوگ مرتے زخمی ہوتے رہے۔ کچھ بھاگ کر نالہ ماھل عبور
کر گئے کچھ بھگرول کی طرف کچھ ہڈا باڑی کے بڑے نالے میں پتھروں کے پیچھے
پناہ لینے لگے، یہاں اس فائرنگ میں جو پانچ چھے لوگ شہید ہوئے ان کے اسماء
ایک سنگ مرمر کے کتبے پر درج ہیں ان میں ایک شہید قابل خان (عباسی) میرے
گاؤں سوہاوہ کارہنے والا تھا یہ قابل خان 25اگست صبح 11 بجے مجھے ہاڑی گہل
میں ملا، جب راولی رات گزارنے کے بعد اگلے روز میں باغ کے لئے سفر پر تھا ۔
قابل خان جنگ عظیم دوئم برٹش انڈین آرمی میں رہ چکا تھا۔ خوبصورت گھنگریالے
بالوں اور ستواں نک والا ، مجھے اس کا چہرہ یاد ہے۔ آج کے نوجوان صحافی اہل
قلم میری اس تحریر کو محفوظ رکھیں، ہمیشہ یہی معلومات دیتے رہیں۔
علاقہ سدھنوتی ، راولاکوٹ وغیرہ کے عوام نیلہ بٹ کے جلسہ یوم نیلہ بٹ کو
تسلیم کرتے ہیں، مسلم کانفرنس کے ٹوٹ جانے کے بعد اور بھی بہت لوگ تسلیم
نہیں کرتے، میں ایک مورخ ہوں اپنے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے ہمیشہ سچ لکھوں
گا۔ جس جلسہ میں جناب محمد نواز شریف نیلہ بٹ گئے اور پاکستان کے ایٹمی
طاقت کی بات کی میں راجہ محمد یٰسین خان کے ساتھ نیلہ بٹ میں موجود تھا ۔
|