ُٓپانی قدرت کا عطیہ ہے اس کی قدر کیجئے
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
|
زمین پہ سب سے بڑا عطیہ خدا وندی پانی
ہے،ْقدرت نے اس کرہ ارض کی دو تہائی سطح پانی سے بھر دی ہے، صرف ایک حصہ
خشکی ہے ۔یہ پانی سمندروں، دریاؤں، نہروں،جھیلوں، چشموں اور زیر زمین
ذخیروں پہ مشتمل ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی اور ناقص پلاننگ کی وجہ سے اس وقت
زمین پہ بسنے والے انسانوں نے پانی کے ان قدرتی ذرائع اور ذخائر کو نقصان
پہنچانا شروع کر دیا ہے۔
ماحول اورپانی کی آلودگی اس وقت ایک حساس انسانی مسئلہ کی صورت میں سامنے
آئی ہے۔اس خوبصورت سیارے کو اگر محفوظ بنانا ہے، اور انسانی دنیا کے حال و
مستقبل کو خطرات سے بچانا ہے تو یقیناً اس پہ سنجیدگی سے توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب نے جہاں انسانوں کو ٹیکنالوجی کی
صورت میں آسانیاں فراہم کیں وہاں اس کرہ ارض کے ماحول کو آلودہ کرنے میں
بھی اہم کردار ادا کیا۔دراصل المیہ یہ ہوا کہ صنعتی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے
سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کی استحصالی فکر اور عمل نے انسانوں کی
زندگیوں کے ساتھ ساتھ اس پورے خوبصورت سیارے کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا۔
انڈسٹریز کا جال پھیلایا گیا، لیکن ان سے خارج ہونے والے کیمیکل اور فضلے
کو بے احتیاطی سے بہایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر، دریا جھیلیں، زیر
زمین پانی سب اس کی زد میں آ کر آلودگی سے دوچار ہو رہے ہیں۔
پانی کی آلودگی کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔عام طور پہ یہ کہا
جا تا ہے کہ ایک یا اس سے زیادہ ایسے مرکبات پانی میں اس مقدار پیدا ہو
جائیں کہ وہ انسانوں اورحیوانوں کے لئے ضرر کا باعث بنیں۔مثال کے طور پہ
اگر ہم سیاہی کی دوات کو کسی دریا میں بہا دیں تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں
ہو گا، وہ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے تحلیل ہو جائے گا، لیکن کیمیکل کی
تھوڑی سی مقدار پانی میں رہے گی اور وہ نقصان دہ نہیں ہو گی لیکن ہم گیلن
کے حساب سے ہر سیکنڈ میں یہی سیاہی دریا میں ڈالنا شروع کر دیں گے دریا کا
رنگ سیاہی کی مانند ہو جائے گا۔اس سے یہ ہو گا کہ سیاہی میں موجود کیمیکل
ہر اس جاندار کو نقصان پہنچائے گا جس کا بالوسطہ یا بلا واسطہ اس دریا کے
پانی سے تعلق ہے۔پانی کی آلودگی سے یہ مراد ہے کہ پانی کے مختلف ذرائع کو
کسی طرح کا بھی نقصان پہنچے، تو ہم کہیں گے یہ پانی کی آلودگی ہے۔
اسی طرح سے جب ہم اپنے گھر کے سیوریج لائن کو کسی نہر یا دریا کے صاف پانی
میں ڈالیں گے تو اس سے بھی وہ پانی آلودہ ہو جائے گا، اور اگر پورا شہر
اپنے سیوریج کا پانی دریا یا نہر میں ڈالے گا تو وہ صاف پانی کا دریا ایک
گندے نالے میں بدل جائے گا اور اس کے ارد گرد یا متعلقہ تمام جانداروں کو
نقصان ہو گا۔اس کی ایک مثال لاہور کا دریائے راوی ہے جو کسی زمانے میں اپنی
خوبصورتی اور صاف ماحول کی وجہ سے شاعروں کی زبان پہ رہتا تھا، لیکن اب یہ
حالت ہے کہ وہ صرف ایک گندے نالے کا منظر پیش کرتا ہے۔اسی طرح مانسہرہ شہر
میں سے گزرنے والی صاف پانی کی ندی جسے بھوت کٹھہ کہتے ہیں، کسی زمانے میں
اپنے صاف پانی اور چشموں کی وجہ سے تاریخی حیثیت رکھتی تھی۔ جس کا ذکر
تاریخ کی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ آج بدقسمتی سے مانسہرہ کے باسیوں نے اسے
ایک بد بودار گندے نالے میں تبدیل کر دیا ہے۔یقیناً یہ ایک مجرمانہ غفلت
ہے۔
زمین کا سارا پانی اس کی سطح کے اوپر نہیں ہوتا، تاہم بہت سا پانی زیر زمین
بھی پایا جاتا ہے۔جسے ہم عام طور پہ دیکھ نہیں سکتے۔اور نہ ہی اس کے بارے
میں سوچتے ہیں۔زیر زمین پانی کے یہ ذخیرے ہمارے دریاؤں کو پانی مہیا کرتے
ہیں اور زیادہ تر یہ پانی پینے کے استعمال میں آتا ہے۔زیر زمین پانی کی
آلودگی نسبتاً کم ہے سطی پانی کے مقابلے میں۔لیکن سینی ٹیشن کا مناسب
انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔
پانی کی آلودگی مختلف ذرائع سے ہوتی ہے کسی فیکٹری کے پائپ یا کسی گھر کی
سیوریج لائن سے، یا آئل ٹیکنکر کی لیکیج کی وجہ سے پانی آلودہ ہو تاہے،
مثلا سمندر کو لیجئے80 فیصد آلودگی، خشکی سے سمندر میں داخل ہوتی ہے۔اور
اسی طرح ایک کسان اگر کیمیکل ملی کھادیں استعمال کرتا ہے تو پارش کے پانی
کے ساتھ مل کر یہ کیمیکل قریب ترین زیر زمین پانی اور سطح کے اوپر پانی کو
متاثر کرتا ہے۔فیکٹریوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے کیمیکلز فضا میں داخل
ہوتے ہیں اور پھر پارش کے پانی کے ساتھ مل واپس زمین پہ آ کر یہ دریاؤں،
سمندروں اور جھیلوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
آج تقریباً سات ارب لوگ اس سیارے پہ بستے ہیں۔، گندے پانی کی نکاسی اور اسے
مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
کے2013کے اعداد و شمار کے مطابق 780ملین لوگ(یعنی دنیا کی آبادی کا 11فیصد)
کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔اور مناسب سینی ٹیشن یعنی صحت کے
اصولوں کے مطابق ٹائلٹس نہیں ہیں،خاص طور پہ سیوریج کا پانی بہت جلدی ماحول
کو آلودہ کرتا ہے۔اور پھر پانی سے پیدا شدہ بیماریاں جیسا کہ ڈائیریاہر سال
پانچ سال سے کم عمر سات لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو ہلاک کرنے کا باعث بنتا
ہے۔’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک اعداد وشمار کے مطابق پانی سے متعلقہ
بیماریاں2020تک 135ملین لوگوں کو ہلاک کر سکتی ہیں‘‘
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں80فیصد بیماریاں گندے اور آلودہ پانی کی وجہ
سے ہیں، اور 40 فیصد اموات کی وجہ بھی گندا اور آلودہ پانی ہے‘‘۔
ہر سال اندازاً 3-5ملین ہیضے کے کیسز سامنے آتے ہیں، اور صرف ہیضہ کی وجہ
سے ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔WHOکے مطابق
صرف5-10 فیصد کیسز آفیشلی رپورٹ ہوتے ہیں۔‘‘
سب سے بڑا مسئلہ سیوریج کا ہے، اگر سیوریج کا نظام درست نہیں ہے اور وہ صاف
پانی کے ذرائع میں داخل ہو رہا ہے تو اس سے آلودگی میں مسلسل اضافہ ہوتا
رہتا ہے، اورا س سے صاف پانی کے ذخائر آلودہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف لوگوں
کے لئے مہلک بن جاتے ہیں بلکہ پینے کے صاف پانی کے بحران میں بھی اضافہ ہو
رہا ہے۔
دنیا بھر میں سمندروں، دریاؤں اور جھیلیوں یا دیگر صاف پانی کے ذرائع سب سے
زیادہ گندے پانی جس میں کیمیکل یا دیگر نقصان دہ مادے شامل ہوں سب سے زیادہ
نقصان پہنچاتے ہیں۔ہر سال پوری دنیا تقریباً 5سے10ملین ٹن صنعتی کوڑا پیدا
کرتی ہے۔جس میں سے زیادہ تر بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے پانی میں بہایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ عام طور پہ گھروں میں بھی مختلف قسم کے کیمیکل استعمال کئے
جاتے ہیں جیسے سرف و صابن، ڈیٹرجنٹ، تیزاب وغیرہ یہ بھی جب سیوریج لائنوں
کے ذریعے صاف پانی کے ذرائع میں ڈالا جاتا ہے تو اس سے بھی پانی آلودہ ہو
جاتا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عام طور پہ ماحول کی آلودگی کو زیادہ اہم نہیں
سمجھا جاتا،لیکن حقیقت میں ماحول اور خاص طور پہ پانی کی آلودگی ہماری صحت،
اور ہماری معیشت کے لئے ایک زبردست نقصان کا باعث ہے۔
ہم اس صورتحال پہ کیسے قابو پا سکتے ہیںَسب سے پہلے لوگوں کو اس حوالے سے
شعور دینے کی ضرورت ہے کہ اپنی گلیوں اور محلوں کے سیوریج کے نظام کی کتنی
اہمیت ہے، اور اس کے علاوہ اپنے ندی، نالوں اور دریاؤں، سمندروں کے پانیوں
کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے، جس طرح ہم اپنے گھر کی صفائی اور صحت کا خیال
رکھتے ہیں ویسے ہی ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھنا ہے، اگر
نہیں رکھیں گے تو ہم سب کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔اس حوالے سے
مختلف سیمینا رکئے جائیں، مختلف قسم کی تنظیمیں بنا کر ہر سطح پہ تعلیم و
تربیت کا بندو بست کیا جائے،اس عمل میں کمیونٹی کا ہر فرد اور طبقہ شامل
ہو۔
متعلقہ اداروں جن میں بلدیاتی اداروں کا کلیدی کردار ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف
اس کے لئے پالیسی اور حکمت عملی مرتب کریں کہ،ہر ٹاؤن اور شہر میں باقاعدہ
سیوریج کا پلان موجود ہو، ٹاؤن پلاننگ کے حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی ہو
جس کے تحت سینی ٹیشن اور سیوریج کا نظام اس طرح بنایا جائے تاکہ صاف پانی
کے ذرائع اور ماحول آلودہ نہ ہو، اس کے لئے ٹریٹمنٹ پلانٹ یا دیگر طریقے
استعمال کئے جا سکتے ہیں۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ سب سے زیادہ ہمارے
ملک میں نا اہل اور ناکارہ ادارے ہیں وہ بلدیاتی ادارے ہیں،ان کی ناہلی اور
ناکارہ پن کا ثبوت ہمارے ملک کے شہروں اور گاؤں کی حالت زار ہے۔خدا خدا کر
کے اب بلدیاتی نمائندوں کا نظام بحال ہو نے جا رہا ہے، اس حوالے سے بلدیاتی
نمائندوں پہ اہم ذمہ داری ہے، وہ اپنے اعزازیوں اور اپنی مراعات کے بارے
میں زیادہ سوچنے کی بجائے عوام کی صحت اور صاف پانی کے بحران کے بارے میں
زیادہ سوچیں، عوام کو چاہئے کہ ان منتخب نمائندوں کو صرف یہ نہ سمجھیں کہ
وہ تھانہ ،کچہری اور دیگر معاملات کو حل کرنے کے لئے منتخب ہوئے بلکہ ان کی
حقیقی ذمہ داری کو سمجھیں، ان کا کام یہ ہے کہ آپ کے گلی، کوچے، صاف ستھرے
ہوں۔ایسی مستقل حکمت عملی بنائیں کہ سیوریج، کوڑا کر کٹ مناسب انداز سے
ٹھکانے لگایا جائے، ماحول صاف ہو گا تو صحت مند معاشرہ بنے گا۔اگر یہ
بلدیاتی نمائندے اس حولے سے کام نہیں کرتے تو آئندہ الیکشن میں میں ان کو
ووٹ نہ دیں۔.اب ہم نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہماری نسلیں گندا پانی پئیں،
گندے بیماریوں سے بھرے ماحول میں زندگی بسر کریں، دریاؤں اور سمندروں میں
آلودگی کی وجہ سے زہریلی مچھلیوں کا گوشت کھائیں، اپنے زمینی پانی کے ذخائر
کو زہریلا اور مضر صحت بنائیں، یہ فیصلہ کرنا اب ہمارا کام ہے۔ |
|