وائرل جھوٹ اور سچائی کا زوال
تحریر ضیاء نیازی (ضیائے قلم)
سوشل میڈیا نے انسانی تاریخ میں معلومات کی ترسیل اور اظہار رائے کو جس قدر آسان بنایا ہے، اتنا ہی پیچیدہ بنا دیا ہے حقیقت اور جھوٹ کے درمیان فرق کو۔ پاکستان میں بالخصوص گزشتہ چند برسوں سے یہ رجحان شدت اختیار کر چکا ہے کہ کسی بھی فرد، چاہے وہ سیاست دان ہو، صحافی ہو یا کوئی معروف سماجی شخصیت، اس کے کسی بیان، تصویر یا ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کر دیا جاتا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مواد لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اصل سچ، مکمل تناظر، یا تردید بعد میں بھی آ جائے تو بے فائدہ ہو جاتی ہے، کیونکہ عوامی ذہن میں پہلا تاثر ہی سب سے طاقتور ہوتا ہے۔
یہ رجحان دراصل ہماری اجتماعی نفسیات اور میڈیا کے بگاڑ کا غماز ہے۔ ہم سنجیدہ مکالمے، دلیل، تحقیق اور مہذب گفتگو سے تیزی سے دور ہو رہے ہیں۔ اس کی جگہ سنسنی، الزام، تمسخر، اور جعلی معلومات نے لے لی ہے۔ جس کسی کے پاس موبائل فون اور تھوڑا سا ویڈیو ایڈیٹنگ سافٹ ویئر ہو، وہ چند منٹوں میں کسی بھی فرد کی عزت، نیت اور کردار پر سوال اٹھا سکتا ہے۔
مریم نواز کا نومبر 2022 میں وائرل ہونے والا ویڈیو کلپ اسی رجحان کی علامت ہے۔ اس کلپ میں انہیں کہتے دکھایا گیا کہ “ہم نے معیشت تباہ کر دی ہے، لیکن یہ سب ضروری تھا۔” یہ الفاظ اس طرح کاٹے گئے تھے کہ محسوس ہوتا تھا وہ اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کر رہی ہیں۔ جبکہ اصل ویڈیو، جو اس روز کی پریس کانفرنس کا حصہ تھی، میں وہ اپنے مخالفین پر طنز کر رہی تھیں کہ “یہ لوگ کہتے ہیں ہم نے معیشت تباہ کی، لیکن ان کے مطابق یہ سب ضروری تھا۔” صرف چند الفاظ کاٹ کر ان کے پورے بیان کا مفہوم ہی بدل دیا گیا۔ اس ویڈیو کو سب سے پہلے پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس، خصوصاً @PTIOfficial اور @TeamISF نے شیئر کیا۔ بعد ازاں بول نیوز نے اسے اپنی ویب سائٹ پر بطور خبر شائع کیا، اور 17 نومبر 2022 کو اس کلپ کو “ثبوت” کے طور پر پیش کیا کہ لیگی قیادت ناکامی کا اعتراف کر چکی ہے۔ چند یوٹیوب چینلز جیسے "Facts with Zubair" اور "Public News Alert" نے اسی جھوٹے تاثر کو بنیاد بنا کر درجنوں ویڈیوز بنائیں جن پر لاکھوں ویوز آئے۔
اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے خلاف سامنے آیا۔ 2021 میں ان پر فیس بک پیجز اور یوٹیوبرز نے یہ الزام لگایا کہ انہوں نے تھر کول منصوبے میں اربوں روپے ضائع کیے، اور “قوم کا سرمایہ لوٹ لیا”۔ یوٹیوب چینلز جیسے "Pakistan Now" اور "Breaking Urdu News" نے ان کے خلاف جھوٹی ویڈیوز بنائیں جن میں نہ کوئی ثبوت دیا گیا اور نہ ہی کسی سرکاری رپورٹ کا حوالہ۔ چند روز بعد وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا اور واضح کیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب نے مکمل شفافیت سے کام کیا، مگر تب تک ان کی ساکھ کو نقصان پہنچ چکا تھا۔ یہ بیان ایکسپریس ٹریبیون اور ڈان میں 9 نومبر 2021 کو شائع ہوا، مگر عوامی توجہ جھوٹ کی جانب تھی، تردید کی جانب نہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد جو بیانیہ تشکیل دیا گیا، وہ سوشل میڈیا کے اس منفی کردار کی ایک خوفناک مثال ہے۔ ان کی شہادت 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں ہوئی، اور صرف چند گھنٹوں میں مختلف یوٹیوبرز اور سیاسی رہنماؤں نے بغیر کسی تحقیق کے الزام عائد کر دیا کہ اس قتل کے پیچھے ریاستی ادارے ہیں۔ معروف یوٹیوبر عمران ریاض خان نے اپنی ویڈیو مورخہ 26 اکتوبر 2022 کو کہا کہ "میرے ذرائع کے مطابق یہ پاکستان سے دی گئی ہدایت پر ٹارگٹ کلنگ تھی۔" اس ویڈیو کو GNN، ARY اور دیگر چینلز نے بطور حوالہ نشر کیا۔ حالانکہ حکومتِ پاکستان کی بنائی گئی جے آئی ٹی، اور بعد ازاں بین الاقوامی رپورٹس، اس الزام کو ثابت کرنے سے قاصر رہیں۔ یہ الزامات محض مفروضوں پر مبنی تھے، مگر تب تک لاکھوں لوگ اس کو سچ مان چکے تھے۔
2023 اور 2024 میں AI ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعد اس رجحان کو ایک اور خطرناک ہتھیار مل گیا: جعلی آڈیوز اور ویڈیوز۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے نام سے ایک آڈیو کلپ جنوری 2024 میں وائرل ہوئی جس میں وہ مبینہ طور پر ن لیگ کی اعلیٰ قیادت پر تنقید کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اس کلپ کو سب سے پہلے ٹوئٹر ہینڈل “@InsafRevolution” نے شائع کیا، اور چند ہی گھنٹوں میں یوٹیوب چینل "Truth Mirror" اور ویب سائٹس جیسے UrduPoint اور Parhlo نے اسے خبر بنا دیا۔ بعد میں ڈیجیٹل فرانزک ادارہ FactFocus Labs نے اسے AI سے تیار شدہ قرار دیا، مگر اس وقت تک عوامی تاثر بن چکا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک نجی چینل پر گفتگو میں اس آڈیو کو جھوٹا قرار دیا، مگر ان کی تردید کو بہت کم جگہ دی گئی، کیونکہ جھوٹ کی کشش اور سنسنی زیادہ تھی۔
یہ تمام مثالیں ہمارے معاشرے کے اخلاقی، تعلیمی اور فکری زوال کا آئینہ ہیں۔ ہم نے کسی فرد یا جماعت سے اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔ ہم رائے سے زیادہ ردعمل کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں سچ سے زیادہ وہ باتیں اچھی لگتی ہیں جو ہمارے سیاسی تعصب کی تصدیق کریں، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ ہماری فیس بک وال، ٹک ٹاک فیڈ، یوٹیوب سجیشن اور واٹس ایپ گروپ مسلسل ہمیں وہی دکھاتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں — نہ کہ وہ جو سچ ہے۔
سچ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا چاقو ہے جو ہاتھ میں ہو تو سبزی کاٹتا ہے، مگر نفرت اور جھوٹ کے ہاتھ میں ہو تو عزتیں، ذہن اور سچائی کاٹ دیتا ہے۔ اس وقت ضرورت صرف قانون سازی یا پلیٹ فارمز کی پابندیوں کی نہیں بلکہ اجتماعی اخلاقی بیداری کی ہے۔ ہمیں ہر وائرل ویڈیو، ہر جذباتی کلپ، اور ہر تضحیک آمیز پوسٹ کو "انٹرٹینمنٹ" سمجھنے کے بجائے ایک انسانی کردار کی ساکھ کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ اور اگر ہم یہ نہ کر سکے تو کل ہمارے اپنے خلاف یہی چاقو استعمال ہوگا، اور تب کوئی سچ سننے والا نہیں ہوگا۔
یہ وقت سوچنے کا ہے۔ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی نسل کے لیے، جسے ہم سچ کی جگہ فریب، تہذیب کی جگہ تضحیک، اور تحقیق کی جگہ جذباتی کلپ دے کر سوشل میڈیا کی جنگ میں تنہا چھوڑ رہے ہیں۔
|