کچھ بھی اچانک نہیں

متحدہ قومی موومنٹ کی بھوک ہڑتال کو نہ تو اچانک ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اچانک میڈیا ہاؤسز کا گھیراؤ کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔ تاہم میڈیا ہاؤسز کا گھیراؤ کرنے اور تشدد کرنے کے حوالے سے ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اور الطاف حسین کی رائے میں واضح اختلاف تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہی پیر کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں سے الطاف حسین کا خطاب شروع ہوا فوری طور پر وہاں موجود مقامی اور مرکزی قیادت غائب ہونا شروع ہو گئی اور جیسے ہی الطاف حسین نے اپنے خطاب میں کارکنان کو میڈیا ہاؤسز کا کا گھراؤ کرنے اور تشدد کرنے کا حکم دیاویسے ہی مقامی قیادت کے تمام اہم رہنماؤں نے اپنے موبائل فون بند کر کے خاموشی اختیار کر لی ۔ یہ ایک طرح سے مقامی قیادت کی ساری صورت حال سے اظہار لا تعلقی بھی تھا۔ ایم کیو ایم کے دو چہرے ہیں ۔ ایک ایم کیو ایم کا نرم چہرہ ہے اور اس کی سیاسی قیادت ہے جو مقامی طور پر سیاست کر رہی ہے اور صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینٹ میں موجود ہے لیکن ایم کیو ایم کا ایک دوسرا چہرا بھی ہے کہ جس کے ذریعے ایم کیو ایم پر تشدد واقعات میں ملوث نظر آتی ہے۔ میڈیا ہاؤسز پرحملے کرنے اور ان کا گھراؤ کرنے کا الطاف حسین کا حکم سیاسی کارکنوں اور قیادت کے لئے نہیں تھا ۔ یہ حکم جن کارکنوں کے لئے تھا انھوں نے اپنے قائد کے فرمان پر لبیک کہا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کی طرف سے میڈیا ہاؤسز پر حملے کرنے کے احکامات دینے کے پیچھے دو واہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو بالکل واضح ہے کہ گزشتہ ڈیرھ دو سال سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی کوئی تقریر میڈیا پر نشر نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کسی اخبار نے ان کی کوئی فوٹو یا کسی تقریر کو مکمل طور پر شائع کیا ہے ۔ یہاں تک کے الطاف حسین کی کوئی فوٹو تک بھی کسی چینل نے نہیں دکھائی۔ ماضی میں الطاف حسین نے میڈیا پر راج کیا ہے۔ تین تین چار چار گھنٹے بلکہ بعض اوقات چھ چھ گھنٹے ان کی تقریر براہ راست نظر کی گئی ہے۔ انھوں نے جو منہ میں آیا کہا اور وہ جوں کا توں نشر ہوا اور اگلے دن اخبارات میں شائع ہوا لیکن آج صورت حال مختلف ہے کہ انھیں میڈیا پر ایک جملہ بھی بولنے کی اجازت نہیں کا موقع نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال نے الطاف حسین میں ایک فرسٹریشن پیدا کر دی ہے۔پیر کو جو کچھ میڈیا ہاؤسزپر حملے کے حوالے سے الطاف حسین نے کہا اس میں ان کی فرسٹریشن واضح طور پر نظر آ رہی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ایم کیوایم گزشتہ کئی دنوں سے بھوک ہڑتال پر تھی لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا تھا اس صورت حال کو بین الاقوامی سطح پر لائم لائٹ میں لانے کے لئے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو میڈیا ہاؤسز پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ممکن ہے کہ الطاف حسین کا خیا ل ہو کہ اس طرح وہ بین الاقوامی قوتوں کی توجہ ایم کیوایم کی طرف دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن ایم کیو ایم کی قیادت کی طرف سے یہ اندازے اور توقعات مکمل طور پر غلط ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پیر کے پر تشدد واقعات کی وجہ سے ایم کیو ایم کی سیاسی ساکھ اور بین الاقوامی قوتوں کی نظر میں اس کی پوزیشن کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ تاہم الطاف حسین کی طر ف سے موجودہ اقدام کو نریندر مودی کے حالیہ بیانات سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اور الطاف حسین کے فیصلے میں شدید اختلاف تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں جب میڈیا ہاؤسز پر پر تشدد واقعات کا سلسلہ جار ی تھا تو ایم کیو ایم کی مقامی قیادت مکمل طور پر غائب تھی اور رابطہ کرنے کے باوجود کوئی بھی رہنما صورت حال پر اپنی رائے دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔یہ بھی ممکن ہے کہ میڈیا ہاؤسز پر حملے کے حوالے سے مقامی قیادت کی اکثریت نے اس طرح اپنی خاموش حمایت کا اعلان کیا ہو لیکن موجودہ صورت حال میں اس کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں ۔اب ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف پرتشدد واقعات کے الزام میں مقدمات درج کئے جانے کا امکان ہے اور جلد بہت اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔ کئی دن کی بھوک ہڑتال کے بعد ایم کیو ایم نے سیاسی طور پر کامیابی حاصل کر لی تھی ۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ بھی کیا اور ایم کیو ایم کی قیادت کو بعض مطالبات ماننے کی یقین دھانیاں بھی کرائیں تھیں لیکن دوسری طرف ملک کی عسکری قیادت ایم کیو ایم کو کوئی اسپیس دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ الطاف حسین کو بخوبی ہے کہ محض سیاسی قیادت کی یقین دھانیوں سے کچھ نہیں ہونے والا لہذا انھوں نے بھوک ہڑتاک ختم کر کے میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنا کربڑی خبر بنانا چاہی اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ حاصل کرنا چاہی لیکن یہ طریقہ اتنا بھونڈا ہے کہ اس سے نہ صرف پورا میڈیا ایم کیو ایم کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے بلکہ ایم کیو ایم کے مخالفین خاص طور پر مصطفی کمال جیسے رہنماؤں کو خوب پھولنے پھلنے کا موقع ملے گا جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہونے کا امکان ہے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.