رانا غلام حسین
دریائے جہلم کے جنوب مشرق میں دھیر کوٹ سے 8کلو میٹر دور سات ہزار فٹ کی
بلندی پر واقع نیلا بٹ کی چوٹی کو تحریک آزادیٔ کشمیر میں ایک ممتاز اور
نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے 23اگست1947ء کو مٹھی بھر
مجاہدین نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کااعلان کیا۔نیلا بٹ کی دفاعی ،
جغرافیائی اور سیاسی اہمیت و حیثیت پر روشنی ڈالنے سے پہلے تحریک آزادیٔ
کشمیر کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔
ہندوستان کے لوگوں کی جدوجہداور قربانیوں کے نتیجہ میں جب انگریزواپس جانے
لگے تو کانگریس ، مسلم لیگ اور وائسرائے کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے
3جون1947ء کا پلان کہا جاتا ہے۔ دوقومی نظریئے کی روشنی میں طے پایا کہ
مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں اور ہندواکثریت والے علاقے ہندوستان
میں شامل ہوں گے اس وقت ہندوستان کی 565چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں جو مجموعی
طور پر ہندوستان کے ایک چوتھائی علاقے پر پھیلی ہوئی تھیں یہ ریاستیں
برطانوی ہند کے انتظامی ڈھانچے سے باہر تھیں راجے، مہاراجے اور نواب ان
ریاستوں کے حکمران تھے جنھوں نے تاج برطانیہ کو مقتدر اعلیٰ کے طور پر قبول
کیا ہوا تھا قانونِ آزادی ہند کی ایک شق کے تحت برطانوی اقتدار کے خاتمے پر
ان ریاستوں کو اپنے عوام کی مرضی سے ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی کے
ساتھ الحاق کا حق دیا گیا تھا۔ ان ریاستوں میں جموں و کشمیر کی ریاست بھی
شامل تھی جس میں 77فیصد مسلمان تھے۔ جغرافیائی محل وقوع، سیاحتی مقامات ،قدرتی
وسائل، مال و دولت اور آب و ہوا کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی
حیثیت اور اہمیت تھی جسے چھوڑنے کے لیئے انگریز تیار تھے اور نہ ہی
کانگریسی رہنماء۔ ریاست جموں و کشمیر کی سرحدیں مغربی پاکستان کے ساتھ
ملحقہ تھیں جس کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں
کے درمیان مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور معاشی مفادات بھی مشترکہ تھے جس کی
وجہ سے باہمی روابط اتنے گہرے تھے کہ عملی طور پر یہ ایک ہی اکائی دکھائی
دیتی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر کے عوام تقسیم ہند کے پلان اور دو قومی نظریئے
کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ اس وقت آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرنس کو ریاستی اسمبلی میں اکیس میں سے 19سیٹیں حاصل تھیں جس کی
وجہ سے اسے ریاست جموں و کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر تسلیم کیا
جاتا تھا۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیئے قیام پاکستان سے قبل ہی 19جولائی
1947ء کے دن ریاستی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس نے سرینگر میں اپنے تاریخ ساز اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرار داد
اتفاق رائے سے منظور کرکے اپنی قسمت پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کا اعلان
کر دیا۔
اُدھر 14اگست1947ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو
ریاستی مسلمانوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ساری ریاست میں آزادی کا
جشن منایا گیا لوگوں نے نجی عمارتوں پر پاکستان کے پرچم لہرائے، شکرانے کے
نوافل پڑھے، اور شادیانے بجائے۔14اگست1947ء کو قیام پاکستان کے بعد ریاست
جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاستی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت
مسلم کانفرنس کی طرف سے منظور کی جانے والی قرار داد الحاق پاکستان کو نہ
صرف قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ انگریزوں اور کانگریسی رہنماؤں سے گٹھ
جوڑ کرکے ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دیں۔
ایسے حالات میں ریاستی مسلمانوں کے صبر کا دامن لبریز ہونے لگا اور مسلم
کانفرنسی رہنماؤں نے وسیع پیمانے پر رابطوں کے ذریعے مہاراجہ کے خلاف مسلح
جدوجہد کے لیئے تیاریاں شروع کر دیں۔اس وقت ریاست جموں و کشمیر میں پونچھ
کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا یہاں کے لوگوں کی اکثریت جنگجو تھی اور بیشتر
لوگ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج میں شامل رہنے کے بعد واپس آچکے
تھے وہ تربیت یافتہ بھی تھے اور جذبۂ جہاد سے سرشاربھی۔ پونچھ کے ان ہی
لوگوں میں دھیر کوٹ کے نواحی گاؤں غازی آباد کے ایک متوسط دینی اور عسکری
رجحانات کے حامل گھرانے کے چشم و چراغ سردار محمد عبدالقیوم خان بھی شامل
تھے جن کی عمر اس وقت صرف 23سال تھی۔
سردار محمد عبدالقیوم خان شروع ہی سے ڈوگروں کے مظالم کے خلاف نبردآزما تھے
گردونواح کے علاقوں میں ہونے والے مظالم کا سن کر تڑپ اٹھتے اور مظلوم کی
مدد کے لیئے اٹھ کھڑے ہوتے وہ ڈوگرہ حکمرانوں کے عزائم سے آگاہ تھے اور
جانتے تھے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں ماننے والے ہیں؟۔ چنانچہ قیام
پاکستان سے قبل ہی انھوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ اگر مہاراجہ نے الحاق
پاکستان کی تجویز پر دستخط نہ کئے تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا
جائے گا۔
14اگست 1947ء کو قیام پاکستان کی خوشی منانے اور ریاست کے مستقبل کے بارے
میں غور و خوض کے لیے دھیر کوٹ کے نواحی گاؤں کنتھل میں سردار گل احمد خان
کے گھر میں ایک اجلاس ہوا جس میں سردار محمد عبدالقیوم خان پولیس انسپکٹر
سردار عبدالرزاق خان ، غازی محمد اسماعیل اور سردار محمد عارف بھی شامل
تھے۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ 23اگست1947ء کو نیلا بٹ کے مقام پر ایک
جلسہ عام منعقد کیا جائے جہاں مہاراجہ سے نجات کے لیئے حکمت عملی پر غور
وخوض کیا جائے گا، مجوزہ اجلاس کے لیئے 14اگست1947ء کو علاقہ کے سرکردہ
لوگوں کو دعوت نامے بھی جاری کئے گئے پروگرام کے مطابق23اگست کے روز سردار
محمد عبدالقیوم خان علاقے کے چند بااثر علماء، مشائخ اور معززین کے ہمراہ
دریائے جہلم کے مشرق کی جانب دھیر کوٹ سے 5کلو میٹر دور نیلہ بٹ کی بلند و
بالا چوٹی پر پہنچے جہاں پہلے سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوچکے تھے
اس وقت نیلا بٹ کا یہ مقام سیاسی اور دفاعی نکتہ نظرسے ایک اہم چوٹی گردانا
جاتا تھا۔ جلسے کی صدارت سوہاوہ شریف کے پیر شمشاد حسین شاہ نے کی سردار
محمد عبدالقیوم خان کے علاوہ جن دیگر لوگوں نے اس اجتماع سے خطاب کیا ان
میں سید صادق حسین شاہ عادل، پیر سید مظفر حسین شاہ ندوی، سردار محمد
عبدالغفار خان، غازی اسماعیل خان ، کرنل راجہ محمد صدیق،غازی مولوی
محمدبخش، راجہ عزیزخان، راجہ علی مرد خان، ایم اے عزیز مکھیالوی، راجہ لطیف
شہید اور سردار محمد نذیز خان شامل ہیں۔
سردار محمد عبدالقیوم خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کو
خبردار کیا کہ وہ اسلام قبول کرکے ریاست جموں و کشمیر میں اسلام کی
بالادستی قائم کرے یا مسلمان اکثریت کی یہ سرزمین فوری طور پر چھوڑ دے۔
انھوں نے قرآن پاک ہاتھ میں لے کر حاضرین سے یہ حلف لیا کہ:
’’ آج سے ڈوگرہ سامراج کے خلاف اعلان جہاد کیا جاتا ہے اب یہاں ڈوگرہ حکومت
کے قانون کی بجائے قرآن حکیم کا قانون اپنایا جائے گا اگر مہاراجہ مسلمان
ہو کرکشمیر کا الحاق پاکستان سے کردے تو اس کے خلاف جہاد ترک کر دیا جائے
گا‘‘
اس اعلان کی بنیاد پر سردار محمد عبدالقیوم خان نے مجاہد اوّل کا خطاب
پایا۔ 23اگست1947ء کے دن جہاد آزادی پر حلف کے بعد مجاہدین نے پیر سید
شمشاد حسین شاہ کو امیر جہاد اور سردار محمد عبدالقیوم خان کو امیر کارواں
بنا کر گھروں کی طرف جانے کی بجائے باغ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مجاہد
اول کا یہ تاریخی اعلان ان کے سینے میں مچلتی ان موجوں کا پتہ دیتا تھا جو
چٹانوں کے ٹکرانے میں مزہ لیتی ہیں اس اعلان سے ڈوگرہ اقتدار کے ایوان بھی
لرز گئے۔
23اگست1947ء کو نیلا بٹ سے اٹھنے والی آزادی کی چنگاری رفتہ رفتہ شعلہ
جوالہ بن گئی۔ بغاوت ساری ریاست جموں و کشمیر میں پھیل گئی مجاہدین کے
حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ ریاست کو ہندوستان کے حوالے کرکے
بھاگ گئے۔ اس طرح تحریک آزادی کشمیر ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔
بلاشبہ نیلا بٹ کا اعلان بغاوت ریاست جموں و کشمیر میں مسلح جہاد آزادی کا
نکتہ آغاز ثابت ہوا۔ جس کے نتیجہ میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محض
جذبہ جہاد، قوت ایمانی اور شوق شہادت سے سرشار مجاہدین نے اپنے سے کئی
گنابڑی منظم، مادی وسائل اور جدید جنگی سامان اور تربیت سے لیس فوج کا
مقابلہ دیسی طرز کی بنی ہوئی چھرے دار بندوقوں، لاٹھیوں، کلہاڑیوں، برچھیوں
اور ڈنڈوں سے کرکے انتہائی مختصر عرصہ میں ریاست جموں و کشمیر کا 32000مربع
میل کا علاقہ آزاد کرالیا۔ جہاں 24اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر کی انقلابی
حکومت قائم ہوئی۔
1990ء میں اسی مقام پر کھڑے ہوکر امام کعبہ عبداﷲ ابن سبیل نے اپنی تقریر
میں کہا تھا کہ’’ سردار محمد عبدالقیوم خان دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں
کے لیئے عظمت و ہمت کے نشان ہیں اور ایسے مینارہ نور ہیں جن سے ہم رہنمائی
حاصل کرتے ہیں‘‘۔
نیلا بٹ کے اس مقام کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1990ء کی دہائی میں جب
ہندوستان نے ایٹمی قوت کے زعم میں مبتلا ہو کر پاکستان پر بھرپور حملے کی
تیاریاں شروع کر دیں تو پاکستان کے موجودہ وزیراعظم اور اس وقت کے اپوزیشن
لیڈر میاں محمد نواز شریف نے اسی مقام پر کھڑے ہو کر پاکستان کی ایٹمی قوت
ہونے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ کر ہندوستان کے حکمرانوں کا غرور خاک میں
ملا دیا تھا کہ:
’’ ہندوستان کو ایک ایٹمی بم کے مقابلے میں دو ایٹمی بموں کا سامنا کرنا
پڑے گا‘‘۔ |