’’تحریک طالبان‘‘:
افغانستان روسی افواج کے انخلاء کے بعد ’’سول وار‘‘ کے شکنجے میں جکڑ گیا
تھا اور وہاں ہر گروپ اپنے اپنے کو وہاں کا ’’وارلارڈ‘‘ سمجھنا شروع ہوگیا
تھا۔ لہٰذا اسی دوران ایک گروپ دیکھتے ہی دیکھتے ’’تحریک طالبان‘‘ کے نام
سے ابھرا اور صرف چند سالوں میں افغانستان میں ایک ’’اسلامی طرز‘‘ کی حکومت
قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے اسلام دشمن
طاقتوں کو حیران کر دیا کہ وہ کیا سوچ رہے تھے اور یہ کیا اتنی بڑی تبدیلی
آگئی۔ کہیں روس اور اس کے سوشل ازم کے نظام کے خاتمے کے بعد ہمیں کہیں ’’اسلام‘‘
جیسے مکمل نظام سے شکست نہ ہو جائے۔
(9/11) کا واقعہ اور تھینک ٹینکز :
1999 ء میں ایک معاشی تبدیلی بھی نظر آنا شروع ہوچکی تھی یعنی امریکہ کی
ریاست واشنگٹن میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے۔ ابھی دس سال بھی
نہیں ہوئے تھے کہ جب سویت یونین کے اندر سوشلزم کو ناکامی کا سامنا کرنا
پڑا تھا۔ لہذا اب سوال یہ تھا کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام بھی امریکہ ویورپ
میں اپنے ہی افراد کی تحریکوں سے ختم ہوجائے گا۔ ؟ لیکن جب سورما کسی کو
للکار کے آگے بڑھ رہا ہوتوہے تو وہ اپنے پاس طاقت کے علاوہ کوئی ایسا گُر
بھی رکھتا ہے جس سے اگلے کو بچھڑ دے۔ بس پھر کچھ ایسا ہی ہوا یعنی نومبر
2000ء میں امریکہ میں نئے صدارتی انتخابات میں جب نیا صدر منتخب ہوکر آیا
تو پھر ان کے تھینک ٹینکز نے وہ کر دکھایا جو 21ویں صدی کے آغاز میں کوئی
سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یعنی 11ستمبر2001ء (9/11) کا وہ واقعہ جس کو صدیوں
لوگ نہ بھلا سکیں گے کی تفتیش کا رُخ تھینک ٹینکز نے کس طرف موڑ دیا۔
امریکہ اور القائدہ:
11ِ ستمبر2001ء کو نیورک کے ٹوئین ٹاورز(Twin Towers) سے 2مسافر طیاروں کو
کچھ اس طریقے سے ٹکرادیا گیا کہ دونوں مسافر طیارے بمعہ مسافر اور ٹوئین
ٹاورز ملبہ بن گئے۔ اُس ہی روز 2 مزید طیارے بھی امریکہ کی مختلف ریاستوں
میں حادثے کا شکار ہوئے۔ امریکہ نے اس سے اپنی سا لمیت پر حملہ قرار دیا ۔
پھر"وار اَن ٹیر "کی اصطلاح استعمال کر کے تمام الزام افغانستان کی طالبان
کی حکومت پر ڈال کر بمعہ یورپ ممالک افغانستان پر حملہ کر دیا۔ شدید جنگ
ہوئی لیکن طالبان جدید اسلحے کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ بہت سے طالبان کو
قیدی بنا کرکیوبا کے نزدیک گوانتا موبے کی بدنام زمانہ جیل بھیج دیا گیا۔یہ
جگہ کیوبا امریکہ معاہدہ 1903 ء کے تحت امریکہ نے پٹے (Lease) پر حاصل کی
تھی۔ گرفتاری کے دوران ایک نومسلم امریکن بھی گرفتار ہوا جو امریکن طالبان
کے نام سے مشہور ہوا۔ امریکہ کیلئے اس خطے میں یہ بہت بڑی کامیابی تھی
لہٰذا اس نے ’’القاعدہ‘‘ کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم کو دنیا بھر میں
دہشت گردی پھیلانے والی تنظیم گردان دیا۔ جس کا لیڈر ایک مشہور زمانہ شخص
اسامہ بن لادن بتایا گیا جو کہ ایک سعودی مسلمان تھا اور جو امریکن
ایجنسیوں کے مطابق مختلف ممالک سے جہادی تنظیموں کے نام سے دہشت گردی کرتے
ہوئے اب افغانستان میں آکر "القاعدہ "کی سرپرستی کر رہا تھا۔
عراق پر حملہ اور صدام حسین کو پھانسی :
افغانستان میں ایک ذیلی حکومت تشکیل دی گئی اور القاعدہ کے خاتمے کے بہانے
امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ منصوبہ آگے بڑھا اور
معاشی نظام کو بچانے کیلئے عراق کے تیل کے کنوؤں کی طرف رخ کرتے ہوئے وہاں
بھی مارچ 2003 ء میں حملہ کر دیا۔ حکومت ختم کر دی نظام درہم برہم کر دیا
اور حملے کرنے کی وجہ دنیا عالم کے سامنے یہ پیش کی کہ عراق کی حکومت کے
پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہونے کی اطلاع تھی ایسا تو کچھ نہ برآمد ہوا لیکن
وہاں بھی اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے
دیا اور وہاں کے صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی۔
’’پتھروں کے دور‘‘ میں اور وزیرستان:
مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردی کا لفظ کچھ اس طرح منسلک کر دیا گیا کہ 9/11
اور القاعدہ کی اصطلاحوں سے مسلمانوں کی تاریخ تک مسخ کرنے کی کوشش کرنی
شروع کر دی گئی ۔پاکستان میں جو کشمیر اور بعد ازاں روس کے خلاف جہادی
تنظیمیں حصہ لے چکی تھیں اور امریکہ نے وقتاً فوقتاً ان سے خود بھی تعاون
کیا تھا اب خطے میں اپنی ذیلی حکومتوں کے خلاف نقصان دہ سمجھتے ہوئے ان پر
پابندیاں لگانے کے در پر تھا۔ بلکہ پاکستان کے فوجی صدر نے تو یہاں تک بھی
کہہ دیا تھا کہ اگر ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے تعاون نہیں کریں گے تو
ہمیں ’’پتھروں کے دور‘‘ میں واپس جانا پڑے گا۔ لہٰذا کچھ جہادی تنظیموں پر
پابندی لگوا دی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی خودمختاری و سا لمیت پر
براہِ راست حملہ کرنے کی بجائے پاکستان کے شمالی علاقوں کی طرف دہشت گرد
ختم کرنے کے بہانے پاکستانی فوجی صدر سے پاکستانی فوج کو ہی اپنے ملک کے
افراد سے لڑوا دیا۔ خاص طور پر وزیرستان میں تو یہ سلسلہ کچھ زیادہ عرصہ ہی
جاری رہا۔ |