بلا ضرورت گڑھے مردے اکھاڑنے کی فطری
مجبوری تو نہیں مگر جب کوئی سانحہ مانند ِکیل دل میں پیوست ہو جائے اور اسے
نکالتے نکالتے عرصہ بیت جائے تو خون منجمند ھونے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس
جمے ہوے خون سے امڈتی ٹیسوں کے ساتھ قدم اٹھانا دو بھرہو جاتا ھے- یہی
پیوست زدہ کیل اپنے نکالے جانے کے دوران تکلیف سے دو چار ضرور کرتی ہے مگر
اس بات کی امید پر کہ چند لمحے کی اذیت آنے والے کڑے وقت کو کسی حد تک سکون
میں بدل دے گی۔ اسی طرح اگر لفظوں کے ملاپ سے ـ " مکافاتِ عمل" کے پیغام
کااگر بول بالا کر دیا جائے تو اس بگڑتے وقت میں امن و سکون کی اک کرن
دیکھی جا سکتی ھے ورنہ وطن میں جس قدر تاریکیاں اور قحطِ انسانیت ہے مجھے
تو اس بات کا خدشہ ھے کہ ایک روزکہیں سورج بھی طلوع ہونے سے انکارنہ کر دے۔
بارہا شمعِ امید مدہم ضرور ہوئی مگر بجھی نہیں ہے کیونکہ ضمیر بار بار دستک
دے کر مکافاتِ عمل کے نام کی پٹی دماغ پر چڑھا رہاہے کہ اگر مجرمان اس بات
پر یقین کر لیں کہ آج جو بویا کل کاٹنا بھی ہے تو شاید عمرؓ دورِکے دورِ
حکومت کا کچھ عدل و ادب آج کے نظام میں بھی گنجا ئش پیدا کر سکتا ہے۔جو آج
آگے بھیجا ھے کل اسے تم نے خود ھی کاٹنا بھی ھے، آج جو خون دے کر مدد کرو
گے کل وہی لے کر مدد پاؤ گے،آج انصاف کا دھاگہ توڑو گے تو کل خود کو انصاف
کے لیے ترستا پاؤ گے۔وقت پلٹی مارنے اور لمحے بیت جانے سے قبل کسی جج،
کونسلر یا سیاستدان سے طلبِ اجازت کا پابند نہیں۔بلاشبہ آج کا خریدا ہول کل
کو بیچو گے اور کیا خبر کل کا بکا پرسوں قسمت میں آ جائے۔
انسان پر قلم اٹھانے سے پہلے اسکی نوعیت کا تعین لازم جز ھے کبھی اسے حشرات
سے تشبیہ دینا تو کبھی کسی جانور سے کسی صحافی کو تو ہرگز زیب نہیں
دیتا۔معافی مانگ لینے کے بعد دوبارہ اپنی غلطی دہرا کر اپنی ڈھٹائی اور بے
حسی سے شناسا کروانا ہی اگر اعلٰی ظرفی ھے تو پھر انسانیت کا جنازہ نکل
جانا کوئی بڑی بات نہیں۔کسی کی زات پر لکھنا شاید غلط نہ ہو مگر کسی ذات کو
دوسری مخلوق سے اس طرح تشبیہ دینا کہ ایک قاری بھی الفاظوں کے سنگیں زہر سے
متاثر ہونے لگے قدرے غلط اور اخلاق سے بیزار عمل ھے۔میں اپنے ارد گرد ہونے
والے معاملات سے خود کو بری ہرگز نہیں کہتی مگر یہ بھی حق ہے کہ اسکو روکنے
کی کوشش کبھی یہ سوچ کر نہیں کی کہ میری ابتدا سے کیا ہوگا؟ پھر اندازہ ہوا
کہ سوچتے تو سبھی یہی ہیں اور اسی سوچ کی بنا پر وہ خود کو ان تمام الزامات
سے (جو کہ انسانیت کے قاتلوں پرلگتے ہیں )بری کہ کر کندھے اچک لیتے ہیں مگر
کبھی گہرایٔ میں جانے کی کوشش نہیں کرتے۔تبھی ہمارے بزرگ جب ہماری زبانوں
سے یکجہتی کے ترانے سنتے ہیں تو شش وپنج کا شکار ہوکر ہم سے پوچھنے لگتے
ہیں۔
’کونسا وطن تمہارا ہے،کس کے پاسبان تم ہو؟‘کس پرچم کے سایٔے تلے تم ایک ہو؟
یہ الگ بات کہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے اور اس کوآبادکر نے
کیلئے وطن کوخدانخواستہ ویران کرنے کے درپے ہیں جبکہ انہوں نے اس مادروطن
کی پاسبانی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے یہ جانے بنا ہی کہ اس سراب میں فرقہ
واریت،اقرباء پروری اور خودغرضی جیسے منفی رویے قومی ترقی کواپنے زہریلے
پنجے اورشکنجے میں لے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہرآنکھ میں زہر ابل رہا
ہے،ہر کان پر پردہ پڑرہا ہے، ہر ہاتھ بندھا ہوا دکھائی دیتا ہے،ہر پاؤں میں
زنجیر محسوس کی جا سکتی ہے۔جب لکھنے والے ہی اک دوسرے پر تنقید کرنے لگیں
گے تو کہنے والے توکہیں گیـ’کس پرچم کے سائے تلے تم ایک ہو؟ضرورت اس امر کی
ہے اپنی ذات کو اپنے سرسبزہلالی پرچم کی چھاؤں میں رکھ کروہ پہلا قطرہ بنا
جائے جو ایک صحرا میں موسلادھار بارش کی آمد کا ذریعہ تصور ہو اور کویٔ بھی
شہری اپنے فرض سے کندھے اچکانے سے پہلے یہ ضرور سوچے کہـ ’ ہاں،میری ہی
ابتدا سے نظام بدلے گا۔
کیونکہ قدم سے قدم ملتا ہے
چراغ سے چراغ جلتا ہے
قطرے سے دریا بنتا ہے
سوچ سے عزم ملتا ہے
اور یوں ایک جیتی جاگتی قوم پروان چڑھتی ہے۔ |