پاکستان میں اس وقت احتجاج کی سیاست کا
موسم عروج پر ہے۔ ماضی میں قوم نے ایسے کئی احتجاج دیکھے جن کے دوران ہونے
والا تشدد افراتفری اور عدم استحکام تاریخ کے صفحات پر آج بھی موجود ہے مگر
کیا یہ احتجاج نتیجہ خیز ثابت ہوئے؟ کیا ان احتجاجوں کے بعد تبدیلی صرف
عوامی دباؤ کے بل بوتے پر آئی اور ان کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوئے
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ 1958ء میں
کیا گیا،خان عبدالقیوم خان نے یہ تحریک سکندر مرزا کے حکومتی دور میں
چلائیں اور اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کا اقتدار فوجی جرنیل
ایوب خان کے ہاتھ میں چلا گیا اور پاکستان میں پہلی فوجی حکومت رائج
ہوئی۔پاکستان کی تاریخ کی دوسری احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک میں فوجی
حکومت آئی۔ سنہ 1968 میں جنرل (ر) ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ اس
بار بھی پاکستانی اقتدار فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا اور جنرل یحیٰ خان نے
ملک کا اقتدار سنبھالا یہ دور پاکستان کا سیاہ ترین دور ہے اور اسی دور میں
پاکستان دو لخت ہوا ۔ پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ جمہوری دورِ حکومت
میں احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کیا گیا۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور
پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی، اور اس طرح، سنہ
1977 میں ملک کا اقتدار ایک بار پھر فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے سنبھال
لیا۔فوجی دور حکومت کے دوران جمہوریت کی بحالی کیلئے ایم آر ڈی کی تحریک
چلائی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ1985 میں محمد خان جونیجو کو بغیر
سیاسی انتخاب کے ملک کا وزیراعظم بنادیاگیا۔سالوں بعد 16 نومبر1992 میں
اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو نے 1990 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات
لگاتے ہوئے ایک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا،اس تحریک کی وجہ سے مرحوم صدر
غلام اسحٰق خان نواز شریف کی پہلی حکومت کو تحلیل کرنے پر مجبور ہوئے۔ 26
مئی، 1993 میں شریف حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کر دیا
گیا۔اگلے سال ،16جولائی 1993 میں بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ
کیا تاہم اس مرتبہ انہیں اسلام آباد بلاک ملا۔ یہ نازک صورتحال اس وقت قابو
آئی جب اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحٰق اور وزیراعظم
نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے
اقتدار سنبھالا۔ بعدازاں، عوام اور سیاستدانوں کی جانب سے اْن کے خلاف کوئی
مخالف تحریک سامنے نہیں آئی مگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے
بعد وکلا کی احتجاجی تحریکوں نے ملک میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی اور مشرف
کادور اختتام پذیر ہوا۔ 2012 ء میں ’دفاع پاکستان کونسل‘ کی جانب سے نیٹو
سپلائی روکنے کیلئے لانگ مارچ کیا اورپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان کی جانب امن مارچ کیا تھا جِس سے
ملکی سطح پر کافی ہلچل رہی۔
حالیہ تاریخ کا آخری بڑا مارچ پاکستان عوامی تحریک کے سر براہ ڈاکٹر
طاہرالقادری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 14 اگست کو کیا تھا جس
کا مقصد 2013 انتخابات کی شفاف تحقیقات کا قیام اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ
داران کے خلاف کاروائی تھا، لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کا آخری پڑاؤڈی
چوک تھا اس مارچ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اورپاکستانی سیاست تذبذب کا
شکار رہی۔اس تحریک کے کے نتیجے میں کئی لوگوں کی جانیں گئی اور ملک میں
افراتفری کا ماحول رہا مگر دیگر اپوزیشن کا حکومت کا ساتھ دینے سے حکومتی
ایوانوں میں جان پڑگئی اور حکومت نے احتجاجی تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔یہ
احتجاج پاکستانی کی حالیہ تاریخ کا آخری بڑا اور طویل مدتی احتجاج ثابت ہوا
جو کہ 126دن جاری رہا مگر حکومت مضبوطی سے قائم رہی اور احتجاج خود بخود
سانحہ APS کے بعد اختتام پذیر ہوا۔
پانامہ لیکس سے ہونیوالے انکشافات پاکستانیوں کے لئے کوئی نئی چیز نہیں
ہیں،پانامہ لیکس کے دستاویزات کے مطابق 400 پاکستانی شحصیات آف شور کمپنیوں
کے مالک ہیں اور پاکستان کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان ،نجی کمپنیوں کے
مالکان اور پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان گھرانے شامل ہیں،ان بڑے بڑے
خاندانوں میں ایک خاندان پاکستان کے وزیرآعظم کا خاندان ہے ۔پانامہ لیکس
میں وزیرآعظم کی صاحبزادے حسن نواز ،حسین نوار اور صاحبزادی مریم نواز کا
نام آنے کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے اور پاکستانی میڈیا
کی نظر شریف خاندان پر ٹکی ہوئی ہیں۔آپوزیشن اس معاملے میں سنجیدہ اور ابھی
تک متحد نظر آتی ہے،عمران خان سڑکوں پر آ چکے ہیں اور تحریک احتساب کے نام
سے مختلف شہروں میں احتجاج کررہے ہیں ۔پالیمانی کمیٹی ابھی تک ناکام نظر
آتی ہے ابھی تک ٹی او آرز پر کوئی اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا اور ایسا
تاثر مل رہا ہے کہ حکومت اس معاملے کا کوئی حل نہیں چاہتی ایسے میں لگ رہا
ہے کہ پاکستان ایک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں آنے والی ہرحکومت نے کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کیا،جلسے جلوسوں
میں کرپشن جیسے موذی مرض پر لمبی لمبی تقریریں کیں اوراپنے حق میں نعرے
لگوائے اور بھولی بھالی عوام سے زندہ باد یں وصول کیں مگر کرپشن کے ناسور
کو ختم کرنے کی بجائے خود کرپشن میں ملوث پائے گئے۔جن ہاتھوں نے ملکی معیشت
کو سہارا دینا تھا وہی ہاتھ ہمیشہ پاکستان میں معیشت کی گردن کو دبوچے ہوئے
پائے گئے۔ذولفقار بھٹو سے نواز شریف تک اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک
امریت ہو یا جمہوریت سب نے اپنے اپنے دوراقتدار میں عوام سے ملک کو کرپشن
سے چھٹکارا دلانے کے وعدے کئے مگر اپنے دور اقتدار میں اپنے پیاروں کو
نوازتے رہے اور کوئی بھی حکمران قانون کے شکنجے میں نہیں آیا۔اگر دیکھا
جائے تو آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن و میرٹ پر تعیناتی نہ ہونا ہے
یہی وجہ ہے کہ ملک میں روزانہ کی کرپشن 12 ارب روپے ہے ،کرپشن وہ ناسور ہے
جو ملک کو اندر سے کھوکھلا اور اداروں کو تباہ کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج
سٹیل ملز ،پی آئی اے ، پاکستان ریلوے خسارے میں چل رہے ہیں اور اپنی آخری
سانسیں لے رہے ہیں۔پاکستان میں احتساب کا عمل مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے
اور یہاں کسی بھی بڑی شخصیت کا احتساب ناممکن نظر آتا ہے ۔
کاش کہ ہمارے وزیرآعظم اور تمام پارٹیوں کے سربراہ بھی خود کو احتساب کے
لئے پیش کرتے اور ایسی کانفرنس کا انعقاد کرتے جس میں کرپشن کے خلاف
اقدامات کا فیصلہ کیا جاتا،سوئس بینک سے پاکستانیوں کا 200 بلین ڈالر واپس
لانے کے لئے اقدامات کئے جاتے۔یہاں صرف ایک پانامہ نہیں ہے بلکہ چالیس ایسے
ممالک و جزائر ہیں جہاں پر پاکستانیوں کا لوٹا گیا پیسہ آف شور کمپنیوں کی
شکل میں موجود ہے۔
مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے یہ ایک بہت
بڑا سچ ہے ،اگر ہم کسی بھی ملک ،کسی بھی معاشرے اور کسی بھی ادارے کی تباہ
حالی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جہاں کہیں بھی نااہل لوگوں کو
تعینات کیا گیا وہ ملک ،وہ معاشرہ ،وہ ادارہ اور وہ تنظیم تباہ ہوجاتے ہیں
کیونکہ جب ملک کا سربراہ ،ادارے کا سربراہ خود کرپٹ ہوگا تو وہ کبھی اپنے
ملک اپنے ادارے میں گڈ گورننس قائم نہیں کرسکتا۔آج ہمیں چاہیے کہ بڑے لوگوں
کا احتساب کریں ایسا نظام لائے کہ کسی بھی بڑے شخص کی قانون شکنی پر متعلقہ
ادارے خود بخود حرکت میں آئے اور کبھی کسی انکوائری کمیشن اور جوڈیشنل
کمیشن کا قوم کو انتظار نہ کرنا پڑے۔اگر آج ہم نے اپنے ملک اپنے اداروں کو
بچانا ہے تو ہمیں کرپشن جیسی ناسور بیماری جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ |