قائد کا جو غدار ہے!

الطاف حسین متحدہ قومی مومنٹ کے بانی قائد ہیں۔یہ پارٹی الطاف حسین کی خانہ زاد ہے۔فوج سندھ حکومت اور وفاق جو مرضی کہے اور کرے الطاف حسین کو اردو سپیکنگ ووٹرز سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہایم کیو ایم قائد نے جب کل وہ بات کہی جو وہ اس سے پہلے ہزار بار کہہ چکے ہیں تو فاروق ستار جو پاکستان میں الطاف حسین کاامرت دھارا ہیں نے الطاف کے حکم اور اس کی مشاورت سے کراچی حیدر آباد میرپور اور کراچی کی مئیر شپ اور بہت سے کارکنان کی کھال بچانے کے لئے فوراََ پینترا بدلا اور الطاف حسین جسے وہ بار بار قائد تحریک اور الطاف بھائی کہہ رہے تھے سے اعلانِ لا تعلقی کر دیا۔یہ لا تعلقی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک قائد تحریک کی صحت بہتر نہیں ہوتی۔یہ اعلان جہاں ایم کیو ایم کو ایک مزید لائف لائن مہیا کرے گا وہیں یہ وفاق پاکستان کو بھی شاید براہ راست تصادم سے بچنے کا ایک موقع فراہم کرے۔وہ تصادم جو اس وقت الطاف حسین کی دست راست بھارتی ایجینسی را کی خواہش ہے۔کراچی کی بد امنی اور پاکستان مخالف نعرے بھارت کو کشمیر میں ریلیف فراہم کریں گے۔

متحدہ رد عمل کی پارٹی ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ون ٹو تھری کہہ کے اس کے قائد کو کوئی اس سے علیحدہ کر سکے۔اس کا جواب فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے فوری بعد ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیروپہ جمع ہونے والی خواتین نے الطاف کے حق میں نعرے لگا کے اورنجی ٹی وی رپورٹر کو یہ بیان دے کے کیا کہ ہ فاروق بھائی کے ساتھ ہیں ۔ جو بھی فیصلہ ہوا ہو گا وہ "باہمی مشاورت "ہی سے ہوا ہو گا۔یہ ذہن میں رہے کہ بیان اردو بولنے اورسمجھنے والی خواتین کا ہے جو" باہمی مشاورت" کے معانی سے خوب واقف ہیں۔انہیں اچھی طرح خبر ہے کہ کوئی مائی کا لال الطاف حسین کو مائنس کر کے کراچی اور ایم کیو ایم بارے مشاورت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ان کے لئے اس فاروق ستار کو پارٹی کا قائد ماننا جسے ایک دن پہلے ہی الطاف حسین سرِ عام ذلیل وخوار کر چکے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بادشاہ نے ایک بڑے مجمع میں اعلان کیا کہ وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے نہیں ڈرتے ایک طرف ہو جائیں۔مجمع پہ سکوت طاری تھا کہ ایک جانب کچھ حرکت ہوئی اور ایک شخص مجمع سے علیحدہ ہو کے دوسری طرف کھڑا ہو گیا۔ میڈیا اور سرکاری کارندے اس کی طرف دوڑے اور اپنے اپنے ٹی وی چینلز کو اس بہادر شخص کی بہادری کی بریکنگ نیوز بھیجنے لگے۔اسی اثناء میں بادشاہ بھی وہاں آ گیا اور اس نے بھی اس شخص کے عزم وہمت کی دل کھول کے تعریف کی۔وہ شخص سر جھکائے سب سنتا رہا اور جو بولا تو یوں کہ جناب مجھے کچھ پتہ نہیں ٓپ کیا کہہ رہے ہیں۔مجھے تو بس اتنا پتہ ہے کہ میری بیوی نے مجھے مجمع سے ہٹ کے باہر نکل کے کھڑا ہونے کا حکم دیا تھا۔مسکین اور مجبور فاروق ستار کو مجمع کے اندر کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا ہے کس نے دیا ہے اس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔

یہ بات اگر میرے جیسا کم علم سوچ سکتا ہے تو کیا یہ باتیں ان لوگوں کے علم میں نہ ہوں گی جو معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں۔کسی کے بات شروع کرنے سے پہلے جنہیں خبر ہوتی ہے کہ بولنے والا کیا بولے گا۔جو دشمن کے ارادوں کی اس وقت بھی خبر رکھتے ہیں جب ابھی دشمن ان کو ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ادارے فاروق ستار اور ایم کیو ایم قائد کی ملی بھگت سے واقف نہ ہوں۔تو کیا وہ کسی بڑے منصوبے سے واقف ہیں اور اس کو وقوع پذیر ہونے سے ہر حال میں بچانا چاہتے ہیں۔کیا یہ تحمل اور برداشت وقت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔کیا اس طرح کے اعلان لا تعلقی سے واقعی الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟

انصاف اور بے رحمی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو اس بات کا جواب مطلقاََ نفی میں ہے ۔اس کی صرف ایک صورت ہے کہ الطاف حسین کسی دن زیادہ پی جائیں اور معافی مانگنے سے پہلے ہی اﷲ کے حضور پیش ہو جائیں ۔اس کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ۔را جب جب اشارہ کرے گی یہی ہرزہ سرائی ہو گی اور اس کے بعد پھر معافی تلافی۔بھائی کی شکل دیکھ کے عام آدمی بھی بھائی کے کرتوتوں کا اندازہ لگا سکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کا ووٹرالطاف حسین کواپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے اور نجات دھندہ گردن پہ چھری رکھ لے تو بھی اس کے ماننے والے اس سے منحرف نہیں ہوتے۔ماضی قریب کو یاد کریں تو آپ ایم کیو ایم کی قیادت کے ان بیانات کو آسانی سے یاد کر سکتے ہیں کہ ہمیں نہ چھیڑو ورنہ بیس سے بائیس سال کے یہ لاکھوں نوجوان کٹ مرینگے۔یہ صرف دھمکی نہیں اس کے پیچھے پوری تیاری ہے۔بھارتی اسلحہ سے ایم کیو ایم کے قبرستان اور گودام بھرے ہوئے ہیں۔ کراچی بارود کا ڈھیر ہے جسے صرف ایک چنگاری دکھائے جانے کی ضرورت ہے۔کوئی ایک واقعہ کوئی ایک حادثہ اس چنگاری کو شعلہ جوالا بنا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔کیا ایم کیو ایم پہ پابندی لگا دی جائے؟ کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ میرے خیال میں قطعاََ نہیں۔اگلے چند دنوں میں الطاف حسین کا دستِ راست اور انتہائی متشدد وسیم اختر کراچی کا مئیر ہو گا۔کیا ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنا سب سے بڑا شہر دشمن کے حوالے کرنے جا رہے ہیں۔حالات انتہائی گھمبیر ہیں لیکن ہر مسئلے کا حل ہے۔جیسا کہ عرض کیا ایم کیو ایم رد عمل کی پارٹی ہے۔عمل ختم کر دیجئیے رد عمل خود بخود ختم ہو جائے گا۔عمل اور عامل لیکن ہیں کیا۔اس سوال کا جواب یا تو اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے یا سندھ میں حکمران جماعت کے پاس۔اختیار ایم کیو ایم کے منتخب نمائندگان کو دے دیجئیے اور ان پہ ایسی نظر رکھئیے کہ وہ خلاف قانون آنکھ بھی نہ اٹھا سکیں اور جو اٹھائے اسے بلا لحاظ ٹانگ دیا جائے۔یہ مشکل کام ہے بلکہ ناممکن لیکن انصاف کا ترازو ہاتھ میں اٹھا کے چلا جائے تو شاید راستے کھل جائیں۔پی ایس پی جیسے اقدامات پہلے بھی کامیاب نہیں ہوئے اور آیندہ بھی یہ بری طرح پٹتے رہیں گے۔مائنس الطاف کا دوسرا حل یہی ہے کہ پوری قوم اﷲ کے حضور حاضر ہو توبہ استغفار کے بعد اس کی ہدایت کی دعا کرے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر ہدایت اس کے نصیب میں نہیں تو اے اﷲ! اسے واپس بلا لے کہ یہ اب ہم سے نہیں سنبھلتا۔جب تک یہ فتنہ زمین پہ موجود ہے فاروق ستار جیسوں کو کوئی قائد نہیں مانے گا اور "قائد کا جو غدار ہے موت کا حقدار ہے "کے نعرے لگتے بھی رہیں گے اور غدار قرار دئیے جانے والوں کی بوریاں بھی سلتی رہیں گی۔مزید ایک صورت بھی ہے لیکن ہم پہلے ہی پچاس ہزار جانوں کی قربانی دے چکے بوریاں بھر بھر کے سمندر کے راستے باہر لے جانے والے مزید پچاس ہزار کا بوجھ شاید ہم برداشت نہ کر سکیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291707 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More