پاک افغان سرحد پرامن قائم رکھا جائے
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
مغربی سرحد پر گرما گرمی کی خبریں اکثر آتی
رہتی ہیں۔لیکن سرحد کو نارمل رکھنا اور تجارتی سرگرمیوں کا جاری رہنا دونوں
ملکوں کے مفاد میں ہے۔کئی ماہ پہلے تورخم پر گرما گرمی میں پاکستانی فوج کے
ایک میجر کی شہادت ہوئی تھی۔لیکن گیٹ کی تعمیر کاکام جاری رہا۔اور اب آنا
جانا کاغذات کی چیکنگ کے بعد ہی ہورہا ہے۔دہائیوں سے جاری سرحدی نقل وحرکت
کو انتہائی سمجھداری سے ہی کنڑول کیاجاسکتا ہے۔دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں
ہے کہ سرحدی حالات نارمل رہیں۔چند دن پہلے یہ خبر آئی کہ چمن باڈر پر لگے
باب دوستی پر افغانوں نے پتھراؤ کیا۔اور ریلی کے دوران پاکستانی پرچم کی
توہین کی گئی۔پاکستانی فورسز نے باب دوستی بند کردیا۔دونوں ملکوں کے درمیان
تجارتی سرگرمیاں جواس دروازے کے ذریعے ہوتی تھیں وہ کئی دن سے معطل
ہیں۔دونوں طرف ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں۔آج منگل کے روز بھی تجارت
کھولنے کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔تورخم کے بعد یہ باب دوستی بھی بڑا اہم
شمارکیا جاتا ہے۔روزانہ بیس ہزار کے قریب لوگ مختلف کاموں کے لئے اسی
دروازے سے آتے جاتے ہیں۔اس راستے کے کھلا رہنے سے دونوں ملکوں کا فائدہ
ہے۔آج کے اخبارات میں یہ خبر ہے۔کہ خیبر ایجنسی کے ڈرائیوروں نے افغان
پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہے۔پاکستانی ڈرائیور یہ الزام لگاتے ہیں کہ
جب وہ سامان لیکر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو افغان پولیس ان سے رشوت
مانگتی ہے۔انکار کی صورت میں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ان تمام خبروں سے یہ
محسوس ہوتا ہے کہ افغٖانستان میں موجود پاکستان مخالف عنصر کسی نہ کسی
طریقے سے پاک۔افغان بارڈر کو گرم رکھنا چاہتا ہے۔دونوں ملکوں میں غلط
فہمیاں پیدا ہوتی رہیں اور تعلقات بہترنہ ہوسکیں۔دونوں ملکوں کی حکومتوں کو
تعلقات اچھے رکھنے کا کافی ادراک ہے۔دونوں ملکوں کی طرف ایک دوسرے ملک میں
وفود کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔مسائل کے حل کا احساس دونوں طرف جتنا زیادہ
ہوگا۔حالات اسی لہاظ سے نارمل رہیں گے۔کچھ عرصے سے افغان مہاجرین کی واپسی
کا مسٔلہ بھی دونوں حکومتوں کے درمیان زیر بحث آتا رہتا ہے۔حکومت افغانستان
کا موقف ہے کہ ابھی اس کے علاقے میں حالات مہاجرین کی واپسی کے لئے موافق
نہیں ہیں۔طالبان ابھی بھی ملک کے بڑے شہروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔قتل
وغارت گری کا کام ابھی بھی جاری ہے۔مہاجرین کی بڑی تعداد کو سنبھالنا مشکل
ہے۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب افغان مہاجرین کو رہتے کئی دہائیاں
گزر چکی ہیں۔ان کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں مسائل پیدا ہورہے
ہیں۔واپسی کی تاریخ کئی دفعہ بڑھائی جاچکی ہے۔اب آخری تاریخ31۔دسمبر2016ء
مقرر ہے۔پاکستان نے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو ایک لمبے عرصہ تک رکھ کر
بڑی قربانی دی ہے۔اب تو بلوچستان کی حکومت نے یہ واشگاف الفاظ میں کہا
ہے۔کہ ان لوگوں کی موجودگی سے پاکستانی آبادی گنتی کا عمل درست انداز سے
نہیں ہوسکتا۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا یہ بیان بڑا اہم
ہے کہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں بلوچوں کی نسبت پشتون زیادہ ہوچکے
ہیں۔اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی تو یہ عزم کئے ہوئے ہیں کہ اب ان مہمانوں
کو واپس بھیجنا ضروری ہوگیا ہے۔ان کے مطابق پر تشدد واقعات کے پیچھے افغان
مہاجرین بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب بھی کھلم کھلا ان
کی واپسی کی باتیں کرتے ہیں۔ان کا یہ فرمانا بجا ہے کہ اگر یہ سب افغان
مہاجرین واپس افغانستان چلے جائیں تو حملوں کے لئے ایک دوسرے کی سرزمین
استعمال کرنے کی باتیں بھی ختم ہوجائیں گی۔افغانستان والے حقانی نیٹ ورک کے
بارے نرم سلوک کو بھی بھول جائیں گے۔اگر یہ تمام لوگ چاہے رجسٹرڈ ہیں یا
نان رجسٹرڈ اگر اپنے وطن بحفاظت اور عزت و احترام سے چلے جائیں تو الزام
تراشی کا منظر تبدیل ہوجائے گا۔مہاجرین کا کھلا آناجانا ہی دونوں ملکوں کے
لئے مسائل پیدا کررہا ہے۔افغان بارڈر کے انتظام و انصرام کی ضرورت بھی
افغان مہاجرین کے ہر وقت آنے جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔پاکستان آرمی نے
اس اہم کام کا ادراک کرلیا ہے۔سرحد پر نگرانی بھی سخت کردی گئی ہے۔تورخم کے
بعد اب باقی دروازوں پر بھی کاغذات کی چیکنگ کانظام لاگو ہونا ضروری ہے۔لوگ
ایک دوسرے کے علاقوں میں ضرورآئیں جائیں ۔لیکن ضروری کاغذات دکھا کر ہی سفر
کریں۔کاغذات کی چیکنگ کو پاکستان حکومت تو ضروری سمجھتی ہے۔لیکن حکومت
افغانستان اسے شاید ضروری نہیں سمجھتی۔بارڈر پر سنگین واقعات صرف اسی وجہ
سے پیدا ہوتے ہیں۔21۔ویں صدی میں اب قبائلی زمانے کی روایات ختم ہونی
چاہیئے۔دونوں ملکوں کو تمام دروازوں پر آنے جانے کا جدید ترین نظام بنانا
چاہیئے۔کھلے باڈر کے راستے سے ہی دہشت گرد آتے جاتے ہیں اور دونوں ملکوں
میں تباہی پھیلاتے ہیں۔افغان حکومت کو اب اس کا ادراک ہونا ضروری
ہے۔پاکستان کو کوئی بھی قدم اٹھاتے وقت یہ دیکھنا چاہیئے کہ حالات میں گرما
گرمی پیدا نہ ہو۔مشرقی باڈر کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم مغربی باڈر کے
حالات کو نارمل رکھیں۔پاکستان کے اندر کافی عرصے سے اس مغربی باڈر سے
مداخلت ہورہی ہے۔مداخلت روکنا تو ضروری ہے۔لیکن حالات کو اتنا بھی نہ بگاڑا
جائے کہ دونوں ملکوں کی دوستی،دشمنی میں بدل جائے۔پاکستان بیک وقت 2۔سرحدی
دشمنوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔امید ہے کہ اس تحریر کے چھپنے تک چمن باب
دوستی کھل چکا ہوگا۔مذاکرات کا میاب ہوچکے ہونگے۔جن لوگوں نے پاکستانی
جھنڈے کی توہین کی اور باب دوستی پر پتھراؤ کیا افغانی انہیں پکٹریں اور
سزا دیں۔ایسے کام کسی کی شہ پرہوتے ہیں۔پاکستانی ایسے لوگوں کو جانتے اور
سمجھتے ہیں۔جن افغان مہاجرین کی ہم نے38سال تک دیکھ بھال کی ہے۔ان کے بارے
ایسی پالیسی وضع کی جائے کہ یہ تمام یہاں سے جانے کے بعد پاکستان کے حامی
رہیں۔اگر اتنے سالوں کی مہمان نوازی کا نتیجہ یہ نکلے کہ تمام افغان
مہاجرین اپنے وطن میں جانے کے بعد یہ پاکستان کے ہی خلاف بولنے لگ جائیں تو
ایسی افغان مہاجرین پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں۔اس مسٔلہ کے تمام فریقوں
حکومت پاکستان،حکومت افغانستان،افغان مہاجرین اورU.N.O کے تحت قائم افغان
کمشنریٹ کومل جل کرمسٔلہ حل کرنا ضروری ہے۔یہ مسٔلہ چھوٹا مسٔلہ نہیں ہے۔کہ
پاکستان ایک تاریخ طے کرے اور تمام مہاجرین اپنا سامان لیکرسرحد
پارکرجائیں۔ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق اس وقت10۔لاکھ ملازمتوں پر افغان
مہاجرین قابض ہیں۔مختلف کاروباروں میں انہوں نے اپنے پاؤں پھیلا لئے ہیں۔ان
باتوں کے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک بڑا مسٔلہ ہے۔اسے انتہائی دور
اندیشی سے حل ہونا ضروری ہے۔پاک۔افغان سرحد پر حالات کے نارمل رہنے کا تعلق
افغان مہاجرین کی خوشگوار واپسی سے ہے۔جن افغان علاقوں میں انہیں واپس
بھیجا جائے وہاں روزی،روزگار کو موافق بنایاجائے۔اقوام متحدہ کمشنریٹ کے
فرائض وہاں جاکر بھی جاری رہنا ضروری ہیں۔افغانستان میں جاکر انکی امداد
میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔وہاں چھوٹے چھوٹے دستکاری کے کاروبار شروع کرنا
ضروری ہے۔تاکہ یہ لوگ وہاں کام میں لگ جائیں۔پاک۔افغان سرحد کو نارمل رکھنا
دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔حکومت افغانستان اور حکومت پاکستان کے افسروں
کی دانائی کا یہ امتحان ہے۔
|
|