سارک کانفرنس۔۔۔۔وزرائے خزانہ کی آمد
(Dr M Abdullah Tabasum, )
25اگست کو اسلام آباد میں سارک کانفرنس میں
شرکت کے لئے بھارتی وزیر خزانہ شریک نہیں ہوں گے جبکہ اس سے قبل بھارتی
وزیر داخلہ دو روزہ سارک کانفرنس میں شرکت کیں مگر پاکستانی وزیر داخلہ کی
سچی باتیں برداشت سے باہر ہو گئیں اور وہ کانفرنس کا اختتامی سیشن ادھورا
چھوڑ کر چلے گئے تھے جس کی وجہ سے اب بھارتی حکومت نے بھارتی وزیر خزانہ کو
نہ بجھونے کا فیصلہ کیا ہے اس کی جگہ پر بھارتی سیکرٹری خزانہ شریک ہوں گے
پاکستان میں دو روزہ وزرائے خزانہ کی کانفرنس 25گست سے اسلام آباد میں شروع
ہو رہی ہے جس میں بھارت سمیت تمام رکن ممالک شریک ہوں گئے جن میں بھارت
،مالدیپ،بھوٹان،سری لنکا،پاکستان شامل ہیں اس سے قبل سلام آباد میں سارک
وزرائے داخلہ کی دو روزہ سارک کانفرنس ہوئی جس میں شرکت کے لئے دیگر ممالک
کی طرح بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ پہلی بار پاکستا ن آئے تھے وہ اپنے
ہم منصب سمیت کسی حکومتی شخصیت سے ملاقات نہیں کی جبکہ ان کو صدر کے برابر
سیکورٹی دی گئی،بھارتی وزیر داخلہ سرحد پار دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی
حمایت کامسئلہ اٹھایا جو اسے کافی مہنگا پڑا اس کے جواب میں پاکستانی وزیر
داخلہ چوہدریہ نثار علی خان کے دبنگ جواب نے اسے کانفرنس ادھوری چھوڑ کر
جانا پڑا ، سارک ممالک کے درمیاں مالیاتی روابط بڑھانے اور کاروباری اشتراک
کے ساتھ ساتھ ٹریڈ کی سطح پر تجارت بڑھانے جیسے ایجنڈے پر شامل ہے ، ادھر
جماعت الدعوۃ حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل راج
ناتھ سنگھ کے استقبال سے مظلوم کشمیریوں کے جذبات مجروع ہوئے ہیں اگر اب
بھارتی وزیر خزانہ آئے تو بھرپور احتجاج کیا جائے گا ہمیں کشمیریوں کے
جذبات کا خیال رکھنا چاہیے ان کاکہنا تھا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری
رہے گی راج ناتھ کی آمد پر حریت تنظیمیں ،انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اہنڈ
ہیومن رائٹس مظفر آباد میں احتجاجی دھرنا دیں رہے ہیں ، جبکہ دوسری طرف
مقبوضہ کشمیر میں کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہرین پر قابض
بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونے والے افراد کی تعداد 50افراد جبکہ
زخمی ہونے والوں کی تعداد 300سے زاہد ہے حریت کانفرنس کی اپیل پر شہادتوں
کے خلاف پورے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی جو کہ آج بھی جاری رہے
گی،مختلف علاقوں میں کاروبار زندگی معطل رہا ،ادھر علی گیلانی ،میر واعظ
اور دیگر کشمیری راہنما مسلسل نظر بند ہیں جبکہ موبائل سروس اور انٹر نیٹ
سروس بھی معطل کی گئی ہے وابض انتظامیہ نے مظاہرے روکنے کے لئے کرفیو کا
دائرہ وسیع کرتے ہوئے پورے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کر دیا ہے ،بارہمولہ
،کپواڑہ اور باندی پورہ اضلاع میں مظاہریں اور فورسز کے درمیان تصادم ہوئے
جبکہ بھارتی حکومت نے تازہ کمک سری نگر روانہ کی ہے ،پاکستان نے مقبوضہ
وادی میں بھارتی فورسز کی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراداوں پر عمل کرے وزیراعظم پاکستان نے
اپنے مزمتی بیان میں کہا کہ بھارتی مظالم پر سکٹ تشویش ہے اور بھارت
کشمیریوں کے خلاف طاقت کے استعمال ان کو حق خود اداریت سے نہیں روک سکتا ہے
اس سے قبل جب بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئی توبھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ
تعلقات بڑھانے اور نیک خواہشات کا پیغام لے کر آئی ہوں ،قارئین اگر بھارتی
وزیر اعظم نے اپنے قول و فعل میں ’’تبدیلی‘‘ کی ہے تو افغان صدر کو بھی
اپنی ’’روش‘‘ کو تبدیل کرنا ہو گا اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں جا کر پاکستانی عوام کے ’’جذبات
واحساسات‘‘کی نہایت عمدہ ترجمانی کی ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے
70ویں اجلاس سے انکاخطاب پاکستان اور خطے کو در پیش تمام اہم معاملات پر
محیط تھا،انہوں نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے ایک مکمل منصوبہ پیش
کیا جسے امن سے محبت کرنے والی پوری دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھے گی،وزیر
اعظم نے تلخیاں ختم کرنے کے لئے چار نکاتی امن عمل کا نقشہ پیش کیا جس میں
سیاچین سے غیر مشروط سیز فائر،ایک دوسرے کو طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ
دینا شامل ہے ،وزیراعظم نے زور دیکر کہا کہ پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی
دوڑمیں شریک نہیں ہونا چاہتا انہوں نے کہا کہ بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع
کرے تاکہ جنوبی ایشیا عالمی امن کے لئے تشویش کا باعث نہ رہے ،وزیر اعظم نے
تخریب کاروں کی واردتوں کے پیچھے خفیہ اداروں کے ہاتھ کا سراغ لگا لیا گیا
ہے بھارت کی سول اور فوجی قیادت کی جارحانہ بیان بازی کی صورت حال کو مزید
خراب کر رہی ہے مسئلہ کشمیر وزیراعظم کی تقریر کا اہم نکتہ رہا،انہوں نے
واضح اور کھلے لفظوں میں اقوام متحدہ کے ارکان سے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل
نہ ہونا دراصل عالمی ادارے کی ناکامی ہے ، جھوٹے وعدے اور وحشیانہ مظالم نے
کشمیر کی تین نسلیں اجاڑ کے رکھ دی ہیں بھارت ہمیشہ کہتا رہا کہ کشمیر پر
بات نہ کریں لیکن ہمارے لئے کشمیر کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے ،کشمیر
صدیوں سے جغرافیائی ،مذہبی اور ثقافتی طور پر پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے
اور ہم اسے پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ سمجھتے ہیں ۔۔۔ 1947 ء سے کشمیر پر سلامتی
کونسل کی قراردیں عمل کی راہ دیکھ رہی ہیں گزشتہ چھ دہا ئیوں سے مسئلہ
کشمیر حل کرنے کی دو طرفہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں،بھارت کی طرف سے
انکار خطے میں ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ،ہمارے وسائل
جنگ کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے چائیں،کشمیر دونوں ممالک کے
درمیان بنیادی مسئلہ ہے ،جس کا پر امن حل اور اسکے لئے خود کشمیری عوام کی
شمولیت ضروری ہے ،وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کا موقف اتنے
موثر انداز میں پیش کیا ہے جس پر پاکستانی میڈیا میں عمومی طور پر سراہا جا
رہا ہے ،ضروری تھا کہ بھارت کا اصلی چہرہ عالمی ادارے کے سامنے بے نقاب کیا
جائے ،بھارت نے اپنے چہرے پر سب سے بڑی جمہوریت کا نقاب چڑھا رکھا ہے لیکن
اس کے طرز عمل مذہبی جنون میں مبتلا ایک ایسے معاشرے جیسا ہے جو اقلیتوں کو
جینے کا حق بھی نہیں دینا چاہتا ہے ،وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک فائدہ
بہرحال ہوا ہے کہ اس جمہوریت کا نقاب اب تارتار ہو رہا ہے وحشیانہ مذہبی
جنون پوری طرح سامنے آ گیا ہے اس کی تازہ مشال اتر پردیش کے ایک گاؤں میں
محمد اخلاق نامی مسلمان کا لزرہ خیز قتل اور اس کے بیٹے کو شدیدزخمی کیا ہے
جس کا جرم یہ ہے کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت پکا ہے گاؤں کے مندر سے جب
یہ اعلان ہوا تو بھپرے ہوئے لوگوں نے اخلاق احمد کے گھر پر دھاوا بول
دیا،یہ ہے وہ بھارت جو نریندر مودی کی قیادت میں ابھر رہا ہے ،یہ وہ
جمہوریت بھارت جس کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے ،آئے روز مسلم کش فسادات معمول کا
حصہ بن گئے ہیں خود نریندر مودی کے ہاتھ گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کے خون
میں لت پت ہیں،اور آج کل وہاں عیسائی برادری بھی اسی تعصب کا نشانہ ہے اور
انکے چرچ ہندو انتہا پسندوں کا ہدف ہیں ،کشمیر کے بارے میں بھارتی رویہ
منافقت کی بہت بڑی مشال ہے بھارت خود یپ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا
تھا جس نے یہ طے کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام خود
کرینگے،اس بات پر آزادانہ استصواب رائے کا انتظام کیا جائے گا کہ کشمیری
عوام پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔۔۔۔۔؟ اس بات کو اب
67برس کا عرصہ بیت گیا ہے ۔۔۔بھارت سلامتی کونسل کی ان قراردادں کو بھی
فرسودہ قرار دیکر کہتا ہے کہ یہ اب غیر موثر ہو گئی ہیں۔۔۔۔ادھر سات لاکھ
بھارتی فوج گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں مطالم ڈھا رہی ہے لاکھوں
کشمیری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ،ہزاروں جیلوں میں قید و بند کی صوبتیں
برداشت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں
۔۔۔۔۔کشمیریوں کی تیسری نسل اب آزادی کی تحریک کو اپنا خون دے رہی ہے
۔۔۔افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اپنی قرارداودں کو فراموش کر دیا
ہے ۔۔۔۔۔۔۔عالمی برادری بھی کشمیر میں بھارتی مظالم اور بھارت میں اقلیتوں
پر ظلم و ستم کا نوٹس نہیں لے رہی ہے کیا دنیا کے تیسرے درجے کے ملک میں
بھی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کو صرف گائے کے گوشت پکانے پر
قتل کر دیا جائے۔۔۔؟ایسا صرف بھارت میں ہی ہو سکتا ہے جہاں مذہب کے نام پر
پاگل پن کو ہوا دی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ غیر ریاستی عناصر نہیں خود وہاں
کے وزیر اعظم نریندرمودی کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔۔۔یہ امر باعث اطمینان
ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ بھارتی یشہ دوانیوں کے ثبوت
اقوام متحدہ کو فراہم کئے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ہمیں اب دفاعی رویہ ترکرنا ہو گا
اور دنیا کو کھل کر بتانا ہوگا کہ بھارت کس طرح خطے کے امن کو برباد کر رہا
ہے اور توقع ہے کہ کم ازکم اپوزیشن بھی اس معاملے پر کھل کر حکومت کا ساتھ
دے گئی۔۔۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا شاہد اس سے بہتر موقع میسر نہ آسکے
میڈیا کو بھی کرکٹ ڈپلومیسی سے باہر آنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|