ملک و قوم کا مفاد

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ہالبروک کی پاکستان آمد کے حوالے سے بیان دیا ہے کہ ہم کسی کی خواہشات کی تکمیل نہیں کرسکتے بلکہ وہی کریں گے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چھپ کر کچھ نہیں کررہے اور سب کچھ عیاں ہے۔ ان کے بقول ان سے کچھ بھی پوچھنے کا حق صرف اور صرف عوام کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان سے کچھ پوچھنے کا حق کونسی عوام کا ہے، پاکستانی عوام یا کسی اور ملک کی؟ جب سے پاکستان بنا ہے ہر حکومت، چاہے وہ سیاسی ہو، نیم سیاسی یا فوجی، اس نے ملک و قوم کے بہترین مفاد کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کئے، یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان اور قوم کا بہترین مفاد بھی ہمیں ”امپورٹ“ کرنا پڑتا ہے، ہمیں ہمیشہ دوسرے ہی بتاتے ہیں کہ ہمارا ”بہترین“ مفاد کیا ہے۔ رہی بات موجودہ حکومت کی ملک و قوم کے مفاد میں ہر کام کرنے کی تو پچھلے چند دن کی خبریں ہی ملاحظہ کرلی جائیں اور واقعات پر ایک طائرانہ سی نظر ہی ڈال لی جائے تو ہر چیز واضح ہوجائے گی کہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا افعال سرانجام دئے جا رہے ہیں اور ”کسی اور“ کے مفاد میں کونسے....!

چند دن قبل گیلانی صاحب نے آرمی چیف کی مدت ”حکومت“ میں توسیع کی شاندار خبر پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے سنائی، وجہ یہ بیان کی گئی کہ چونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ کے زمانہ میں سپہ سالار نہیں بدلے جاتے اس لئے کیانی صاحب کی مدت ”حکومت“ میں توسیع کی جارہی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے اور تمام قوم جانتی ہے کہ یہ زبردستی کی جنگ ہماری ہے یا حکمرانوں کے آقا کی، کیا یہ زبردستی کی جنگ صرف جنرل کیانی اکیلے لڑ رہے ہیں، کیا باقی جرنیل ان کے دست و بازو نہیں ہیں، کیا وہ سپاہی جو اپنے ہی بھائیوں پر ”طوہاً و کرہاً“ بمباری کرتے ہیں وہ ”لشکر“ کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر کیانی صاحب کو توسیع دی گئی ہے تو باقی جرنیلوں کا کیا قصور؟ وزیر اعظم نے توسیع کے بعد یہ بیان بھی داغا کہ اب ملک کے چار بڑوں یعنی صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور عدالتی چیف کی پوزیشن2013 تک محفوظ ہوگئی ہے۔ یقیناً اداروں کے سربراہ کسی بھی ادارہ کی کارکردگی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لیکن کیا وہ سارے کام خود کرسکتے ہیں؟ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف بھی آرمی چیف کے حوالے سے اپنی پوزیشن محفوظ بنا چکے ہیں لیکن بعد میں کیا ہوا؟ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اور میاں نواز شریف کو جلاوطنی سے ”نوازا“ گیا، جب بھٹو کی حکومت کو ”فتح“ کیا گیا تو پھر بھی کچھ احتجاج ہوا لیکن جب میاں صاحب کو ”فضا“ سے ہی فتح کیا گیا تو لاہور (جسے مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے) کے جی پی او چوک میں سترہ بندوں کا ”عظیم الشان“ جلوس نکالا گیا تھا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، عنوان تو ملک و قوم کا مفاد“ ہی ہے لیکن چونکہ کافی دنوں کے وقفے کے بعد لکھ رہا ہوں اس لئے ذہن بہت ساری باتوں اور واقعات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ بات ہورہی تھی ملک و قوم کے مفاد کی، تو کوئی ہے جو حکومت سے پوچھ سکے کہ کیا دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے؟ غربت ختم کرنے کی بجائے غریبوں کو ختم کرنے کی پالیسی کس ملک اور کس قوم کے مفاد میں ہے؟ جعلی ڈگریوں کی وجہ سے استعفے دینے والے دھوکہ بازوں کو دوبارہ ٹکٹ دینا اور ان کے جلسوں سے ”بقلم خود“ خطاب کرنا کیا اس ملک اور قوم کے ساتھ مذاق تھا یا ”بہترین مفاد“ تھا؟ پاکستان میں امریکہ کی ڈکٹیشن پر ایک آمر کی شروع کی ہوئی اپنوں کے خلاف جنگ اسی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رکھنا کس ملک کے مفاد میں ہے؟ اگر یہ ہماری جنگ نہیں تو ہم اپنے فوجیوں اور اپنے عوام کو کیوں باہم دست و گریباں کروا رہے ہیں؟ ایک طرف پاک فوج کے وہ جوان ہیں جو اس دھرتی کو ماں سمجھتے ہوئے اس پر قربان ہونے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں تو دوسری طرف وہ بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی ہیں جو دن رات ”پاک“ فوج کے میزائل حملوں اور امریکہ کے ڈرون حملوں کی زد پر ہیں۔ ایسا تو بھارتی فوج بھی کشمیریوں کے ساتھ سلوک نہیں کرتی کہ پورے کا پورا گاﺅں یا محلہ ہی تباہ کردیا جائے اس لئے کہ وہاں کوئی مشکوک لوگ موجود ہیں۔ وہ بھی پہلے وارننگ دیتے ہیں اور پھر حملہ آور ہوتے ہیں، یہ کس کا مفاد ہے کہ اس طرح نہتے اور معصوم لوگوں کو دن دیہاڑے میزائلوں اور ڈرونز کا نشانہ بنا دیا جائے اور اس وجہ سے بدلے کی آگ میں تپتے ہوئے نوجوانوں کو خودکش بمبار بننے کی کھلی ترغیب دینے والے ہندو، یہودی اور امریکن وہاں ”طالبان“ کے روپ میں موجود ہوں جو ان لوگوں کے جذبہ انتقام کو شعلہ جوالا بنا دیں....! اور اگر یہ جنگ ہماری ہے، ہماری اپنی ہے تو کیوں ہم اپنی جنگ لڑنے کے لئے امریکہ سے مدد کی ”بھیک“ طلب کرتے ہیں؟ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ایسے سوالات صرف عوام پوچھ سکتی ہے، لیکن پاکستان میں تو عوام ہے ہی نہیں، اس لئے پاکستان کے اندر سے ایسے سوالات، چہ معنی دارد....!

کیا کوئی اللہ کا بندہ حکومت سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کر سکتا ہے کہ افغانستان اور بھارت کو ”فی سبیل اللہ “راہداری دینے میں کس ملک اور قوم کا مفاد ہے؟ ہم دونوں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہیں اور انہیں آپس میں رابطوں کی سہولیات بلا معاوضہ بہم پہنچا رہے ہیں جبکہ یہی بھارت ہے جس نے افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر خود کش بمباروں کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ صیہونی اور امریکی ایجنسیاں پاکستان کے خلاف دن رات خودکش بمبار تیار کررہی ہیں، کیا حکومت کو ذرا بھی خبر نہیں؟ ضرور ہوگی لیکن چونکہ ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے اس لئے اس کام میں ہاتھ بٹانا تو ہماری حکومت پر فرض ہے بلکہ حقیقتاً قرض بھی۔ کیا کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے رول بیک کرنا بھی بہترین ملکی و قومی مفاد میں تھا، جبکہ سب جانتے ہیں کہ اس ڈیم کے نام پر سیاست چمکانے والے سیاستدانوں اور جماعتوں کے ڈانڈے کہاں جا کر ملتے ہیں؟ جب بھی پاکستان میں کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے تو پولیس ابتدائی تفتیش کے بعد کہتی ہے کہ یہ ”را“ کی کاروائی ہے جبکہ ہمارے ”نابغہ روزگار“ وزیر داخلہ فوراً سے پیشتر اسے طالبان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، اب کوئی ان سے پوچھنے کی جرات کر سکتا ہے کہ آپکو کونسی ”تار“ آئی ہے جس سے آپ کے پہلے سے موجود لامحدود علم میں مزید اضافہ ہوگیا؟ویسے ایک اور سوال جو اکثر نجی محفلوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی میں ایسا بندہ وزیر داخلہ ہونا چاہئے جس کا کردار محترمہ کے قتل میں مشکوک ہو؟ تو یار لوگ خود ہی جواب بھی دے دیتے ہیں کہ اگر زرداری صدر ہوسکتا ہے تو وزیر داخلہ رحمان ملک کے علاوہ کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا!

ایک آخری بات جو اس ضمن میں کہنا چاہتا ہوں، یہ کہ امریکہ کی مختلف ایجنسیوں کے لوگوں کو وہاں پاکستانی ایمبیسی میں بیٹھے ”امریکن“ لوگ بلا دھڑک سال سال کے ویزے جاری کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے حقیقی دوست ملک چین، جس نے ہر کڑے وقت میں پاکستان کی بھرپور امداد کی، اس کے لوگوں کو منت سماجت کے بعد اگر ویزا جاری کیا جاتا ہے تو صرف ایک ماہ کا اور اس میں بھی کوئی توسیع نہیں ہوتی نہ اس کی کوئی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ وہ چینی جو پاکستان میں آکر کاروبار کرنا چاہتے ہیں، جو یہاں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں، جو یہاں کے لوگوں سے شراکت داری کرنا چاہتے ہیں، انہیں سب سے پہلے یہاں سے دعوت نامہ (Invitation) کا انتظام کرنا پڑتا ہے جو چیمبر آف کامرس کے ذریعہ چین بھیجا جاتا ہے اور وہاں پاکستانی ایمبیسی انہیں صرف ایک ماہ کا ویزا جاری کرتی ہے۔ اب کوئی کیسے پوچھے کہ عزت مآب حکومت صاحب یا صاحبہ! اپنے ہمدردوں اور دوستوں کو جو یہاں آکر کاروبار کو فروغ دینا چاہتے ہیں ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کس ملک اور کس قوم کے مفاد میں ہے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209503 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.