تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
ایک مالدار شخص دور دراز کا سفر طے کرنے کے بعد اکثر حج کی سعادت حاصل کرتا
تھا ایک دفعہ اس شخص نے حج کی سعادت کے دوران خداوندکریم کے پیارے محبوب
نبی حضور اکرم جس کے متعلق خداوندکریم نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی اگر تجھے
پیدا نہ کرتا تو پوری کائنات میں کوئی چیز پیدا نہ ہوتی سے عرض کی کہ اس
دفعہ آپ مجھے بشارت دیں کہ اس دفعہ حج اکبر کا ثواب کس شخص کو ملا ہے جس پر
خداوندکریم کے پیارے محبوب نبی حضور اکرم نے اُس شخص کی عاجزانہ عرض کو
قبول کرتے ہوئے اسے بشارت دی کہ اس دفعہ حج اکبر کا ثواب دمشق کے رہائشی
عبداﷲ نامی شخص کو ملا ہے جس پر وہ شخص حج کی فراغت کے بعد سفر کرتا ہوا
دمشق پہنچ کر بالآ خر عبداﷲ نامی شخص کے گھر پہنچ گیا دروازہ کھٹکھٹانے کے
بعد جو شخص گھر سے باہر نکلا وہ عبد اﷲ ہی تھا جس پر اُس شخص نے بڑی عقیدت
کیساتھ عبداﷲ کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے اُسے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ
کو اس دفعہ حج اکبر کا ثواب ملا ہے جس پر عبداﷲ نے حیران و پریشان ہو کر
اُس شخص سے کہا کہ جب میں اس دفعہ حج پر گیا ہی نہیں تو پھر مجھے حج اکبر
کا ثواب کس طرح مل گیا عبداﷲ کا یہ جواب سن کر وہ شخص حیران و پریشان ہو کر
سو چنے لگا کہ نعو ذ باﷲ کہ حضور پاک کی بشارت کبھی غلط ہو نہیں سکتی جس پر
اُس شخص نے حیرانگی کے عالم میں عبداﷲ سے پو چھا کہ آپ نے اس دفعہ حج کی
ادائیگی کے بارے میں سو چا ہو اور کسی وجہ سے آپ حج کی ادائیگی سے قاصر ہو
گئے ہوں جس پر عبداﷲ نے اُس شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ ٹھہیک ہے
کہ میں اس دفعہ حج کی ادائیگی کیلئے بالکل تیار تھا لیکن میں جا نہیں سکا
ہوا یوں کہ میں ایک چھوٹا سا دو کاندار ہونے کی حیثیت سے اپنی کمائی کا کچھ
حصہ حج کی ادائیگی کیلئے جمع کرتا تھا ایک دفعہ میں دوپہر کو کھا نا کھانے
کیلئے دوکان سے گھر پہنچا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جلدی سے میرے لیئے
کھا نا لیکر آؤ چونکہ مجھے سخت بھوک لگی ہے جس پر میری بیوی نے کہا کہ روٹی
تو تیار ہے لیکن سالن ابھی تیار نہیں ہوا جس پر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ
ہمارے پڑوس میں جو بیوہ خاتون رہتی ہے اس کے گھر سے سالن تیار ہونے کی
خوشبو آ رہی تھی کہ جب میں گھر آ رہا تھا لہذا تم جلدی سے اُس بیوہ خاتون
کے گھر سے تھوڑا سا سالن لے آؤ یہ سن کر میری بیوی اُس بیوہ خا تون کے گھر
چلی گئی تھوڑی دیر بعد میری بیوی سالن لیئے بغیر خالی ہاتھ واپس آ کر کہنے
لگی کہ بیوہ خا تون نے سالن دینے سے انکار کر دیا ہے جس پر میں نے اپنی
بیوی سے کہا کہ دو بارہ اُس بیوہ خا تون کے گھر جا ؤ اور اُس سے سالن نہ
دینے کی وجہ در یافت کرو یہ سن کر میری بیوی دوبارہ بیوہ خاتون کے گھر
پہنچی اورتھوڑی دیر بعد روتے ہوئے وہ مجھ کو بتانے لگی کہ عبد اﷲ اُس بیوہ
خاتون کے معصوم بچے تین دن سے بھوکے تھے جن کی بھوک مٹانے کیلئے وہ کہیں سے
حرام گو شت اُٹھا لائی تھی جسے وہ پکا کر انھیں کھلا نا چا ہتی تھی بس اسی
لیئے اُس بیوہ خا تون نے ہمیں حرام گوشت کا سالن دینے سے انکار کر دیا تھا
یہ سن کر میں نے وہ تمام رقم جو حج کی ادائیگی کیلئے جمع کی تھی اُٹھائی
اور اُس بیوہ خاتون کے سپرد کر دی معصوم بچوں کی کفالت کیلئے بس اسی وجہ سے
میں اس دفعہ حج کی ادائیگی سے قاصر رہا سبحان اﷲ سبحان اﷲ تو اس بات سے
واضح ہو گیا کہ خداوند کریم اس سے پیار کرتا ہے کہ جو اُس کی مخلوق سے پیار
کرتے ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اس سچائی کو
جا ننے کے باوجود آج وطن عزیز میں لاتعداد اعلی افسران جو نفسا نفسی کا
شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں
کی تاریخ رقم کر کے انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں جن کی سازشی ذہنیت اور
عیارانہ چالوں کے نتیجہ میں قانون بے بس ہو کر اندھا اور بہرہ ہو کر رہ گیا
ہے جس کے نتیجہ میں لا تعداد مظلوم افراد عدل و انصاف سے محروم ہو کر بے
بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں جن کے اس گھناؤ نے اقدام کو
دیکھ کر یوں محسوس ہو تا ہے جیسے یہاں پر قانون کی نہیں بلکہ ان جیسے لا
تعداد قانون شکن عناصر کی حکمرانی ہے تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا
یوں کہ میں گزشتہ دنوں اپنے دفتر میں بیٹھا صحافتی فرائض کی ادائیگی میں
مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک شخص جس کی آ نکھیں انار کے دانوں کی طرح
سرخ بال بکھڑے ہوئے ہونٹ خشک قصہ مختصر کہ وہ بے بسی اور لا چارگی کی تصویر
بنا ہو ا تھا میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ یہ کیسا ملک ہے کہ جس
میں راشی افسران ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب اور بے بس افراد کا خون چوس
رہے ہیں یہ کیسا ملک ہے کہ جس میں راشی افسران بااثر قانون شکن عناصر کو
کرسیاں بیٹھنے کیلئے پیش کرتے ہیں جبکہ ہم جیسے لا تعداد غریب مظلوم افراد
کو غلیظ قسم کی گالیاں اور دھکے دیتے ہیں یہ کیسا ملک ہے کہ جس میں راشی
افسران اپنی حرام کی کمائی میں اضافہ کیلئے اپنے ماتحت عملہ کو یہ کہتے ہو
ئے لوٹ مار کا بازار گرم رکھنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں کہ اگر تمھارے
خلاف کسی شخص نے تحریری شکایت کی تو میں اس تحریری شکایت کو ردی کی ٹوکری
کی نظر کر دوں گا بھائی توصیف جس کا واضح ثبوت ایکسائز اینڈ ٹیکشیشن آ فیسر
جھنگ نعیم خان ہے جس کی موٹر برانچ کا ماتحت عملہ اسلم نول وغیرہ جو عرصہ
کئی سالوں سے اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگاؤ اور مال کماؤ کی سکیم پر عمل
پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے در حقیقت تو یہ ہے کہ اس رشوت خور
عملہ کی وجہ سے مذکورہ برانچ میں میرٹ کا نام و نشان تک نہیں ملتا توصیف
بھائی مذکورہ عملہ نے تو مذکورہ برانچ کو طوائف کا کوٹھا بنا دیا ہے جہاں
پر ٹاؤٹ مافیا کی تو عزت ہے لیکن غریب سائلوں کی نہیں بس یہی وجہ ہے کہ شہر
بھر کے بااثر ٹاؤٹ مافیا نے مذکورہ برانچ کے مد مقابل لاکھوں روپے ایڈوانس
اور ہزاروں روپے ماہانہ دیکر متعدد دوکانیں حاصل کر کے میز اور چند ایک کر
سیاں لگا کر مذکورہ عملہ سے ساز باز ہو کر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے
جو کہ کرپشن کا ایک واضح ثبوت ہے بھائی توصیف یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ
اگر مذکورہ کرپشن کے بے تاج بادشاہ عملہ کے اس گھناؤنے کردار کی شکایت اگر
کوئی غریب سائل ایکسائز اینڈ ٹیکشیشن آ فیسر جھنگ نعیم خا ن کو کرے تو
مذکورہ آ فیسر اپنی آ نکھوں پر لگائی گئی موٹے شیشوں کی عینک کیساتھ دیکھتے
ہوئے ایسے ساکت ہو جاتا ہے جیسے بغلہ دریا کے کنارے شکار کرنے کے بعد ایک
ٹانگ پر کھڑا ہو کر ساکت ہو جاتا ہے مذید شکار کیلئے
جاری ہے ۔۔۔ |