غریب کو تو مر ہی جانا چاہیے۔۔۔۔۔؟؟؟

 ہمارے محلہ میں ایک دیہاڑی دار غریب آدمی کی بیوی کی زچگی (Delivery)کا مسئلہ تھا ،اچانک اس کی بیوی کی طبیعت خراب ہوئی تووہ آدمی اپنی بیوی کو ساتھ والے گاؤں کے بنیادی صحت کے مرکز لے گیا ،انہوں نے ساری رات مریضہ کو رکھا اورتقریباً اذانِ فجرکے وقت یہ کہتے ہوئے رخصت کر دیا کہ یہ اب ہمارے بس کاکام نہیں آپ اسے شہر میں گورنمنٹ سرداربیگم ہسپتال یا گورنمنٹ علامہ اقبال میموریل ہسپتال المشہور’’ سول ہسپتال ‘‘لے جائیں ، وہ بیچارہ پریشانی کے عالم میں ہمارے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا،میرا بھائی ان کو لے کر تقریباً صبح چھ بجے گورنمنٹ سردار بیگم ہسپتال پہنچے ،اس عورت کے خاونداور اس کی جیٹھانی نے مریضہ عورت کو( تقریباً اٹھا کر) ’’ آؤٹ ڈور ‘‘ میں لے گئے ،مریضہ تکلیف سے تڑپ رہی تھی اور دہائیاں دے رہی تھی مگر ان کی دہائی سننے والا کوئی نہ تھا ،کافی دوڑ دھوپ اور خاک چھاننے کے بعد پتہ چلا کہ ایمر جینسی ڈیوٹی پر تو کوئی ڈاکٹر ہی موجود نہیں ، پھر بالآخر ہسپتال کے عملہ نے یہ کہتے ہوئے جان چھڑائی کہ آپ کے مریض کی حالت سنگین (Serious) ہے لہٰذا آپ اسے کسی پرائیویٹ ہسپتال لے جائیں۔۔۔
پنجابی کی مثال ہے:
’’اک پُکھ ،تے دوجا دکھ ‘‘

اس بیچارے غربت کے مارے نے جب پرائیویٹ ہسپتال کا نام سنا تو اس کے پاؤں سے ایسے جیسے زمین کھسک گئی ہو ،اس وقت اس کی جیب میں صرف چار ہزار روپے ہی تھے وہ بھی کسی ہمسائے سے ادھار لے کر گیا تھا ،اتنی رقم سے پرائیویٹ ہسپتال والے محض مریض کا داخلہ ہی کرتے ہیں ۔ مایوسی کے عالم میں چہرے لٹکائے اور اپنے آپ کو تقریباًگھسیٹتے ہوئے باہر نکلے ،اب وہ بیچارہ خود بھی مریض لگ رہا تھا ۔ میرے بھائی نے مجھے فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ،ان کی کہانی سن کر میری آنکھیں نم ہو گئیں ،میں نے انہیں شہر کے گورنمنٹ کے سب سے بڑے ہسپتال المشہور’’ سول ہسپتال (DHQ)‘‘ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ اکثر’’ حکومتی چیلوں‘‘ سے سننے میں آیا تھا کہ سول ہسپتال میں اب کافی ’’بہتری ‘‘ آگئی ہے اور ساتھ میں نے کسی ’’جاننے والے ‘‘ کو فون کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ۔ میں نے اپنے ’’جاننے والے‘‘ کو چار پانچ دفعہ فون کیا مگر اس نے اٹینڈ ہی نہ کیا ۔ اتنی دیر میں وہ سول ہسپتال پہنچے مگر ادھر بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی ، الٹا ڈرانے لگے کہ آپ کی بیوی کی حالت نازک ہے ،ہمارے پاس کوئی بیڈبھی فارغ نہیں ہے اور نہ ہی ابھی ڈاکٹر صاحبہ آئی ہیں،وہ دس بجے آئیں گی، پہلے وارڈ والے مریضوں کو دیکھیں گی ،بہتر ہے آپ اسے سامنے والے فہمیدہ ہسپتال لے جائیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ ۔

وہ بیچارہ غم سے نڈھال ،لا چارو بے بس ،غربت اور دکھوں کا مارا ،تھکا ہارا اپنی بیوی کو فہمیدہ ہسپتال لے گیا ۔ اس نے ’’ترلہ منت ‘‘ کرکے چار ہزار روپے جمع کروائے اور باقی بعد میں دینے کا وعدہ کرکے مریضہ کو داخل کروایا ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے بیٹے( پہلے بیٹے) جیسی نعمت سے نوازا ، بیٹے کی خوشی میں وہ وقتی طور پرتو اپنے سارے غم بھول گیا مگر۔۔۔۔۔!!!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کدھر ہے وہ’’گڈ گورننس‘‘جس کے دعوے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟مذکورہ بالا کہانی صرف میرے محلہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسے مجبور ، لاچاراوربے بس غریب آپ کو ہر محلہ میں ملیں گے،بس انسانیت کی ’’آنکھیں‘‘چاہئیں،حکمرانوں کی نہیں۔

امیر اور حکمران طبقہ تو مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں اور بیرونِ ملک سے اپنا علاج کروا لیتے ہیں ،وہ غریب کیا کریں ؟مہنگائی نے جن کی ’’مت ‘‘ماری ہوئی ہے ، جن کی دال روٹی بھی پوری نہیں ہوتی ،وہ مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں سے کیسے علاج کروائیں ؟ اگر کروا بھی لیں گے تو سر پرقرض کا بوجھ لاد کر ، جسے اُتارتے اتارتے ،خود ہی پار ہو جائیں گے ۔شائد اسی طرح ہی حکومتی دعوے سچ ثابت ہو جائیں ،تبھی تو حکومت غریب کو مارمار کر غربت ختم کر رہی ہے :
نہ رہے گا غریب ،نہ ہو گی غربت ۔۔۔۔۔!!
ویسے بھی اتنی مہنگائی اور اوپر سے بے روزگاری میں غریب کاکیاکام ۔۔۔۔۔؟؟
غریب کو تو مر ہی جانا چاہیے ۔۔۔۔۔؟؟؟
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.