تعارف و تبصرہ : وصیل خان
مصنف : مولانا عبدالرحمان پرواز اصلاحی
ناشر : انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
قیمت : 200/-روپئے ، صفحات :
ملنے کے پتے : انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فون : 022-2265135
مکتبہ جامعہ ممبئی فون نمبر 23774857
زیر تذکرہ کتاب اس لحاظ سے مزید اہمیت کی حامل بن جاتی ہے کہ ا س میں دو
اہم نام شامل ہیں اولاً یہ کہ یہ کتاب گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب
نسبت بزرگ شاہ وجیہہ الدین علوی ؒکے آثار و احوال پر محیط ہے جن کی صوفیت
مسلم تھی، ان کے حالات پر اس انداز سے روشنی ڈالتی ہے جو عام لوگوں کی
نگاہوں سے مستور ہیں ، شاہ علوی ؒنے دعوت و تبلیغ اور رشدو ہدایت کیلئے جس
زبان کا کثرت سے استعمال کیا ہے وہ زبان اردو ہی تھی اور نہایت خوبصورت،
جاذب اور پراثر انداز میںبرتا ہے مثال کے طور پر موصوف کی کتاب ’بحرالرائق
‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جسے اہل دانش نے مستند اور مثالی کتاب قرار دیا
ہے ۔دوسری بات یہ کہ یہ تحقیقی کا م اپنے وقت کے ماہر علم و فن مولانا
عبدالرحمان پرواز اصلاحی نے انجام دیا ہے جن کے تعلق سے اتنا ہی کہنا کافی
ہے کہ وہ علم و عمل کے ایسے ڈلکتے موتی تھے جس کی چمک دمک کبھی ماند نہیں
پڑی اور جو زندگی کی آخری سانسوں تک میدان علم میں اپنی چمک بکھیرتے رہے
۔کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ بتاتا ہے کہ شاہ صاحب کی شخصیت ہمہ جہت پہلوؤں
سے محترم تھی ۔اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ولی دکنی اور اردو کے اہم ترین
ناقد و نثر ونگار وارث علوی اور محمد علوی وغیرہم ان کے ہی خاندان کے چشم و
چراغ تھے ۔اس تعلق سے مزیدتفصیلی معلوما ت کیلئے ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی کا
مقالہ ’’ سخنوران گجرات ‘‘ دیکھا جاسکتا ہے ۔
176؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب شاہ وجیہہ الدین ؒکی زندگی کے دو اہم پہلوؤں
پر بڑی نفاست سے روشنی ڈالتی ہے جس کی ترتیب و تدوین کیلئے مولانا
عبدالرحمان پرواز اصلاحی کی سخت محنت شامل ہے اس طرح یہ کتاب استناد کے
درجے پر پہنچ گئی ہے ۔اس موضوع پر مزید تحقیقی کام کیلئے کسی بھی محقق
کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اس سے استفادہ کئے بغیر آگے بڑھ جائے ۔زبان اور
اسلوب کے اعتبار سے بھی یہ کتاب بطور تمثیل پیش کی جاسکتی ہے ۔انجمن اسلام
کی یہ پیشکش یادگار بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔
کامیابی کا را ز
حمید ادیبی ناندوروی ایوان ادب کیلئے کوئی نووارد نہیں ، وہ ایک طویل عرصے
سے تصنیف و تالیف کے میدان میں نہ صرف دل جمعی سے لگے ہیں بلکہ اخبارات و
رسائل میں مختلف الموضوع مضامین کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے
ہیں ۔ اب تک ان کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ایک ناول ’پھول
کھل گئے ‘ افسانوں کا مجموعہ ’ جہاں چاہ وہاں راہ ‘ کے علاوہ تنقیدی مضامین
پر مشتمل دو کتابیں ’ ہمیں انصاف چاہئے ‘ اور میں ، شاعری اور مشاعرہ کے
عنوان سے قارئین سے دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔’کامیابی کا راز‘ ان کی
تازہ ترین کتاب ہے ۔جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کتاب موجود ہ دور کی
نمائندگی کرتی ہے ۔مسابقت کے اس دور میں جب زندگی کے مختلف شعبوں میں خواہ
وہ تعلیمی ہویا تجارتی و کاروباری مرحلہ ہر طرف ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے اور
ہرشخص چاہے جس طبقہ اور یونٹی سے تعلق رکھتا ہو ، دن رات ترقیو ں کے حصول
میں رواں دواں دکھائی دیتا ہے ۔ ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ اسے کامیابی اور
کامرانی کے ان اصول و قواعد سے بھی واقفیت حاصل ہو ورنہ اس کی تمام دوڑ
دھوپ اور کوششیں رائگاں بھی جاسکتی ہیں ۔موصوف کی یہ کتاب کامیابی کا راز
انہی اصولوں اور طریقوں کوشرح و تفصیل سے بیان کرتی ہے ۔ ہمارے یہاں لکھنے
والا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس کے یہاں زیادہ تر ادب ، اصلاح اور معاشرت
جیسے موضوعات پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے، اس کے برعکس معاشیات اور
اقتصادیات پر بس برائے نا م ہی مواد ملتاہے ۔ یہ کتاب اس کمی کی کچھ نہ کچھ
تلافی کرتی نظر آتی ہے ۔ ڈاکٹر محمدسعداللہ نے لکھا ہے ۔’’مصنف کے خیالات
میںخوبصورتی ، وسعت اور بلندی ہے ۔انہیں ہر بات براہ راست کہنے کی عادت ہے
اور جو کہتے ہیں بہت سوچ سمجھ کے کہتے ہیں ، ان کے نزدیک تعمیر زندگی اور
تخریب موت ہے ۔وہ ادب کو اصلاحی مقاصد کے واسطے بروئے کار لانے کے حق میں
ہیں ’’ کامیابی کا راز ‘‘ اسی زنجیر کی ایک کڑی نظر آتی ہے ۔ ‘‘
مصنف نے کامیاب زندگی کے لئے جن اصولوں اور کوششوںکو ہدف بنایا ہے وہ زیادہ
تر تجرباتی اورمشاہداتی نوعیت کےہیں جن پر چلتے ہوئے سو فیصد کامیابی کے
حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔انہوں نے فضولیات اور غیر ضروری امور میں
الجھ کر توانائی کے ضیاع کو کامیابی کا دشمن اکبر قرار دیا ہے جو بدقسمتی
سے نوجوانوں خصوصا ً مسلم نوجوانوں میں ایک لعنت کے طور پر گہرائی تک سرایت
کرچکا ہے۔کتاب کےبیشتر مضامین کامیابی کے اصول و ضوابط کی ترسیل میں کامیاب
ہیں۔ مصنف نے انہیں ادبی پیرائے میں لکھ کر دلچسپ اور قابل مطالعہ بنادیا
ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری کہیں بھی اکتاہٹ یا مایوسی کا شکار نہیں ہوتا ۔کتاب
میں چھوٹے بڑے ۳۶؍مضامین شامل ہیں جن کے پرکشش عنوانات قاری کی توجہ مبذول
کرتے ہیں ۔مثلا ً زندگی کیسے گزار ی جائے ، فضول خرچی ایک لعنت ، قوت ارادی
ایک طلسم ، صبر کا پھل میٹھا اور حرکت میں برکت ۔سہل تر زبان اور شیریں لب
و لہجے کے ساتھ اسلوب بھی عام فہم ہے ۔مجموعی طور پریہ کتاب اپنے موضوع اور
مقصد کے اعتبار سے ایک کامیاب کتاب کی فہرست میں شامل کی جاسکتی ہے ۔ کتاب
کے حصول کیلئے شائقین اس پتے پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔گلشن اردو، کمرہ نمبر
۲۷بنگڑی والا چال ، قریش نگر ، کرلا ( مشرق ) ممبئ ۷۰موبائل : 8652409086
شکوہ و جواب شکوہ : ایک مطالعہ
اس کتابچے کے مولف مولانا صدرالحسن ندوی ہیں ۔ اصلا ً یہ ایک مقالہ ہے جس
میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی شہرہ ٔ آفاق نظم ’’ شکوہ و جواب شکوہ ‘‘ کا
ایک عمیق جائزہ لیا گیا ہے ۔ علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں ، وہ ہمیشہ
اس بات کیلئے فکرمند رہے کہ اپنی خالص اسلامی فکر سے دنیائے اسلام کو
روشناس کرائیں تاکہ ملت اسلامیہ پر چھایا ہوا وہ جمود ٹوٹ سکے، جواسلام
اورتوحید و رسالت کے حیات بخش اصول و قوانین سےمغائرت اور اجنبیت کے سبب اس
کے اندر گہرائی تک اتر چکاہے ۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ملت کو ایسا
آفاقی پیغام دیا جس کی نظیر مشکل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہ قوم اس داعی
ٔ قوم کے افکار و خیالات سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکی ۔مولف موصوف
نے یہ مقالہ ۲۰۱۳ کے ایک سیمینار کیلئے تیار کیا تھا ،جس کا موضوع تھا ’’
ملت اسلامیہ کے مسائل و قضایا علامہ شبلی او ر ان کے معاصر شعرا ء کے کلام
میں ‘‘ بعد میں اسے معہدالدراسات الاسلامیہ العلمیہ نے افادہ ٔعام کی غرض
سے کتابی شکل دیدی تاکہ وہ آہو ان صحرا ایک بار پھر سوئے حرم رواں دواں ہو
جائیں ۔ اس نظم کے ذریعے امت کے تئیںاقبال کی اس تڑپ کو مولف نے مختلف
زاویوںسے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے ایمانی حدت میں اضافہ ہو تا ہے
۔آخر میں قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر پوری نظم کو بھی شامل کتاب کردیا
گیا ہے۔اسکےحصول کیلئےشائقین ان نمبروں پر رابطہ کرسکتے ہیں
۔9423153573-83909893039921967621
ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی ( ممبئی )
اگست کا تازہ شمارہ حسب سابق اپنے مشمولات کی معیاری روایات کو برقرار رکھے
ہوئے ہے ۔’ زندگی نام ہے کام کا اور بیکاری موت ہے ‘ کے عنوان سے مدیر
محترم نے ادارتی صفحہ پر نہایت ہی اہم نکات کو موضوع بنایا ہے جو کسی فرد
واحداور کسی ایک حلقے کا نہیں ہر ایک کا مسئلہ ہے ۔تصوف اور دینی مدارس کے
تال میل پر صادق رضا مصباحی کا مضمون چشم کشا تو ہے لیکن طوالت اکتاہٹ پیدا
کرتی ہے ۔ دیگرمشمولات بھی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہیں ۔کچھ مضامین
انتہائی پرکشش ہیں ۔ مدیر سے رابطہ : 022-23451292 -
(مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی
51موبائل :9004538929)
|