ستم کی یہ سیاہ رات کب تک ؟

جس ملک کے اقتصادی و معاشی حالات اس قدر ابتر ہوگئے ہوں اور ایک معمولی چنے فروخت کرنے والے سے لے کر اعلیٰ ترین امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرنے والے بڑے بڑے تاجروں تک کی ہمت جواب دے گئی ہو۔ جہاں سیل ٹیکس اور ویٹ کی مار سہنےاور کاروباری سطح پر انتہائی خسارے سے جوجھ رہے یہ تاجرکاروبار بند کرنے کی کگار پر آپہنچے ہوں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں کہ اپنے کاروباردوسرے ممالک میں پھیلائیں جہاں ان پر اس طرح کی بندشیں نہ ہوں اور وہ آزادی واطمینان کے ساتھ کاروبار کرسکیں۔
جس ملک کے حکمرانوں کی مت ماری جاتی ہے ، دوسرے لفظوں میں جب حکمراں ملک کے اصل مسائل سے چشم پوشی کرکے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ،ان کا انجام اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ملک کو تباہی و بربادی کے ایسے دوراہے پر کھڑا کردیں ، جہاں ایک طرف اگر تباہی ہے تو دوسری طرف صرف اور صرف بربادی ۔آج ملک کے موجودہ حالات کو کچھ اسی طرح کی صورتحال سےدوچار کردیا گیا ہے ۔جس ملک کے اقتصادی و معاشی حالات اس قدر ابتر ہوگئے ہوں اور ایک معمولی چنے فروخت کرنے والے سے لے کر اعلیٰ ترین امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرنے والے بڑے بڑے تاجروں تک کی ہمت جواب دے گئی ہو۔ جہاں سیل ٹیکس اور ویٹ کی مار سہنےاور کاروباری سطح پر انتہائی خسارے سے جوجھ رہے یہ تاجرکاروبار بند کرنے کی کگار پر آپہنچے ہوں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں کہ اپنے کاروباردوسرے ممالک میں پھیلائیں جہاں ان پر اس طرح کی بندشیں نہ ہوں اور وہ آزادی واطمینان کے ساتھ کاروبار کرسکیں۔یہ تاجر اگرایسا سوچ رہے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں سوچ رہے ہیں، کیونکہ ہندوستان کے مقابلے میں دوسرے ممالک میںتاجروں کو اتنی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس قدر یہاں ہوتا ہے ۔ یہاںتاجروں کو کاروبارکرنے کیلئے پچاسوں کھڑکیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر جگہ رشوت کا ایسا بازار گرم ہوتا ہے کہ کوئی کام معقول رشوت کی ادائیگی کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا ۔

معاملہ چاہے مرکزی سرکار کے دائرہ ٔ کار کا ہو یا ریاستی سرکاروں کے اختیار کا ہرجگہ ایک جیسی صورتحال بنی ہوئی ہے ۔فی الحال گایوں کے ذبیحے اور ان کی خریدو فروخت پر ماردھاڑ اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا سلسلہ شباب پر پہنچا ہوا ہے اور ہندو فرقہ پرستوں کی جانب سے ہر طرف ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے، مسلمانوںکوزدو کوب کرکے انہیں خوف و دہشت کے سائے میں جینے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔اخبارات میںاتنے تواتر سےخبریں شائع ہورہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست جنونیوں کا ٹولہ اس وقت اسی طرح کی وارداتوں کیلئے متعین کردیا گیا ہے۔ ایک خبر شائع ہوتی ہےاور اس کی گونج ختم بھی نہیں ہوتی کہ دوسری اس سے بھی زیادہ بھیانک خبر پھر منظر عام پر آجاتی ہے۔ کبھی کبھی فرقہ پرستی کی مارکیٹ تو اس قدر عروج پرہوتی ہے کہ ایک دن میں کئی کئی خبریں انسانیت کا خون جلانے کو موجود ہوتی ہیں ۔گذشتہ دنوں گئؤرکشکھوں کی غنڈہ گردی کی کئی خبریں ایک ساتھ شائع ہوئیں ۔ سورت کے پنڈے سارہ نامی علاقے سے گذر رہے ایک ٹیمپو کوکچھ غنڈوں نے روک لیا اور ۶۲؍سالہ ضعیف ڈرائیور کو انتہائی بے رحمی سے مارا پیٹا ،ان کا الزام تھا کہ اس ٹیمپومیںگائے کا گوشت لے جایا جارہا ہے۔حقیقت یہ تھی کہ الیاس شیخ نامی ایک ڈرائیور سورت کے کھاجو نامی علاقے سے سی ایم سی (سورت میونسپل کارپوریشن ) کے کچرے کی نکاسی کے پلانٹ سے مردہ جانوروں کی کھالیں اور ہڈیاں لے جارہا تھا ،تبھی تقریبا ً دس نوجوانوں نے گاڑی رکوائی اور تلاشی لینے لگے، انہوںنے جانوروں کی کھالیںاور ہڈیاں دیکھیں تو آپے سے باہر ہوگئےاور ڈرائیور کی یہ کہہ کر پٹائی شروع کردی کہ ٹیمپو میں گائے کا گوشت بھرا ہوا ہے ۔اسی درمیان پنڈے سارہ کی پولس موقع واردات پر پہنچ گئی ،تفتیش کے دوران پتہ چلاکہ ڈرائیور کے پاس سورت میونسپل کارپوریشن کا اجازت نامہ ہے، تب جاکے اس کی جان چھوٹی ۔پولس کے مطابق مارپیٹ کے سبب الیاس شیخ کے دونوں ہاتھوں پر شدید ضرب آئی ہے اور کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں ،پولس نےڈرائیور کو اسپتال میں داخل کیا جہاں اس کا علاج جاری ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ پولس ملزمین کی تلاش میں مصروف ہے،لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ۔

ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے جس کا تعلق اندھیری کے ڈی این نگر سے ہے جہاں ایک آرٹ ڈائرکٹر کو اس وجہ سے ہراساں کیا گیا کہ رکشا ڈرائیور کو شبہ تھا کہ اس کے پاس جو چرمی بیگ ہے وہ گائے کے چمڑے سے بناہوا ہے ۔معاملہ پولس تک پہنچا، بارون کشیپ نامی اس ڈائرکٹر نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ یہ بیگ اس نے راجستھان کے پشکر سے خریدا تھا جو اونٹ کے چمڑے سے بنا ہوا ہے۔اس نے ہراساں کئے جانے کی جب شکایت کی تو پولس نے معاملہ کوہلکے میں لے کر رفع دفع کردیا اور ایف آئی آر تک درج نہیں کی ۔ اس طرح کی خبریں آئے دن سامنے آرہی ہیں جو کبھی بھی بڑے فساد کا سبب بن سکتی ہیں ۔ لیکن سیاسی آقاؤںکو اس کی کوئی پروا نہیں وہ تو بس اپنے اور پارٹی کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں فرقہ پرستوں کی ان حرکتوں سے کوئی سروکار نہیں اور اگر ہے بھی تو پس پردہ انہی کی تائید و حمایت کرتےہیں ۔کتنی عجیب بات ہے کہ یہ لوگ گائے ، چمڑے اور ہڈیوں پر تو اس قدر چوکنا ہیں، آخر یہ اس وقت مستعد کیوں نہیں ہوتے جب لڑکیوں کی سرراہ عصمت لوٹ لی جاتی ہے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاد یا جاتا ہے ۔آخر ظلم و ستم کی اس سیہ رات کا طلسم کب ٹوٹے گا ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.