بلاشبہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے
قائد فاروق ستار ، لندن گروپ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف ملک گیر اٹھنے
والے تحریک کو دبانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔متحدہ قومی موومنٹ ، لندن گروپ
کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے بعد
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہوگئی تھی اور عوام توقع کر
رہے تھے کہ حکومت فوری ایکشن لے گی ۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی
جانب سے سخت ری ایکشن سے بچنے کیلئے پری پلان کے تحت کچھ وقت کے لئے الطاف
حسین مائنس ون فارمولے کے تحت عوامی اور ریاستی دباؤ کو کم کرنے کیلئے طے
شدہ منصوبہ بندی میں کامیاب رہی۔ریاست کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف مربوط
کاروئی مصلحت کا ایک بار پھر شکار ہوچکی ہے ۔ ذرائع کے مطابق متحدہ قومی
موومنٹ پر پابندی نہ لگنے کی وجہ متحدہ قومی موومنٹ کی رجسٹریشن ڈاکٹر
فاروق ستار کے نام ہونا بتائی گئی ہے، جبکہ دہشت گردی کے مرکز نائن زیرو
اور بیگم خورشید میموریل ہال کی مسماری کی بجائے صرف چند تجاوازت کوگرانے
تک محدود کاروائی رکھنے کا فیصلہ، ایک پلان کے تحت کیا گیا ہے۔ذرائع کے
مطابق الطاف حسین کی جانب سے فوج کو تنقید بنانے کا مقصد کارکنان کے
مطالبات کے دباؤ کو کم کرنا تھا ، کیونکہ میئر کراچی منتخب ہونے کے بعد ایم
کیو ایم مزید دباؤ میں آجاتی اور کارکنان کے مطالبات پورے نہ ہونے کے صورت
میں نائن زیرو میں ہنگامہ آرائی و پاک سر زمین پارٹی میں ذمے داران و
کارکنان کے جانے کا خدشہ تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ذمے
داروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر عامر لیاقت نے ماضی کے
برخلاف نئی منصوبہ بندی کے تحت الطاف حسین کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان تو
کردیا لیکن ہدایات کا محور لندن ہی رہے گا اور یہ ہدایات بدستور ڈاکٹر خالد
مقبول صدیقی کے ذریعے ملتی رہیں گی۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے
کہ ایم کیو ایم کے ( سابق) قائد کے ساتھ جو ہوگا وہ ریاست پاکستان کے خلاف
شمار ہوگا ، لیکن اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود انھوں نے وطن فروش الطاف
حسین کے خلاف پی پی پی نے آرٹیکل6کے تحت کاروائی کیلئے کوئی عملی اقدام
نہیں اٹھایا۔ان کا ماننا ہے کہ کچھ قوتیں آرٹیکل6سے زیادہ طاقت ور ہیں یا
پھر ماضی کی طرح سندھ میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ ن آج بھی ایم کیو ایم
کے جنوبی افریقہ ،ملایشیا ، دوبئی ، سری لنکا اور دوبئی عسکری ونگز سیٹ اپ
سے خوف زدہ ہے۔بلوچستان اسمبلی نے الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت
کاروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ماضی کی طرح صوبائی اسمبلیوں کی قرار دادوں
پر دونوں ایوان بالا کے اراکین عملی اقدامات کے بجائے بیان بازی کر رہے ہیں
۔ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے بھی الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6کے
تحت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے بھی
لندن گروپ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل6کے تحت مقدمہ درج کرنے کی
تجویز تو دی لیکن سینیٹ میں کسی عملی قرار داد لانے میں دل چسپی نہیں
دکھائی۔عوامی نیشنل پارٹی کی سینیٹر ستارہ ایاز کا کہنا تھا کہ قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے پاس کے پاس شواہد موجود ہیں ، انھیں قانون کے مطابق
کاروائی کرنی چاہیے۔ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کوئی بھی بات کرتا ہے تو
اس کے خلاف قانون کے مطابق عمل درآمد کیا جانا چاہیے ۔قومی و سینیٹ کے
اپوزیشن لیڈرز سمیت حب الوطن پاکستانیوں کا وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ
لندن گروپ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا کر قرار واقعی
سزا دی جائے ، لیکن حکومت کی جانب سے ماضی کی طرح ایک بار پھر اس اہم قومی
معاملے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اہم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر
فاروق ستار نے پری پلان کے تحت میڈیا ہاوسز کے خلاف حملے اور پاکستان کے
خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کا رخ موڑنے کیلئے حکمت عملی سے کام لیا اور میڈیا
ہاوسز کو دباؤ میں لاکر صحافتی تنظیموں کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف
مظاہروں سے پرہیز اور صرف میڈیا ہاوسز کے خلاف احتجاج تک محدود رکھا گیا ۔
پختون قومیت سے تعلق رکھنے والی عوام نے الطاف حسین کے خلاف بھرپور کاروائی
نہ کئے جانے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے
خلاف فاٹا ، سوات سمیت خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد و انتہا پسندوں کے خلاف
فوج کی جانب سے آپریشن کئے گئے ، ایف سولہ اور پاکستان کے ڈرون سے بھی
کاروائیاں کیں گئیں لیکن الطاف حسین نے جس طرح پاکستان کے خلاف کئی بار
تقاریر کیں ، ان کے ایجنٹس گرفتار ہوئے ، ان کے کارکنان کو سزائیں ہوئیں ،
پھر میڈیا ہاوسز پر حملے کئے گئے ، اس کے باوجود ریاست کے جانب سے متحدہ
قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان) اور ( لندن گروپ الطاف حسین ) کے خلاف
کاروائیاں نہ ہونا ، وفاقی حکومت بشمول صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے سستی
کا مظاہرہ کرنا ، تعصب کی نشان دہی کرتا ہے۔ پختون عوام نے پاکستان کی بقا
و سلامتی کے لئے گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں ہجرت کی اور انتہائی
تکلیف میں خیموں میں دشوار گذار زندگی بسر کی اور ابھی تک آئی ڈی پیز ہیں
اور اپنے گھروں میں نہیں جا سکتے ، لیکن متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم
پاکستان) اور ( لندن گروپ الطاف حسین ) کے خلاف سخت کاروائی نہ ہونا ظاہر
کررہا ہے کہ حکومت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان) اور ( لندن
گروپ الطاف حسین ) کو ریلیف دینا چاہتی ہے اور ماضی کی طرح پھر سیاسی
مفاہمت کا کھیل رچا کر فوائد حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ پاکستان
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم
پاکستان) اور ( لندن گروپ الطاف حسین ) کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے ہونگے
، بصورت دیگر ملک کے دیگر حصوں میں اس کے مضر اثرات شدت کے ساتھ ابھریں گے
۔الطاف حسین کی ماضی میں ان گنت لاف گزنی اور مقتدور اداروں کے خلاف ہرزہ
سرائیاں نے ملک کی دیگر قومیتوں میں یہ تاثر دیا ہوا ہے کہ متحدہ قومی
موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان) اور ( لندن گروپ الطاف حسین ) کے خلاف
بھرپور کاروائی ماضی میں بھی صرف محدود پیمانے پر کئی گئی، جناح پور کے
نقشے بر آمد ہونے کے بعد ہی اگر متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان)
اور ( لندن گروپ الطاف حسین ) پر پابندی عاید کردی جاتی تو آج یہ صورتحال
رونما نہیں ہوتی ۔ ڈاکٹر فاروق ستار لندن اور پاکستان دونوں گروپوں کا قائد
بننا چاہتے تھے ، لیکن الطاف حسین کی طویل بیماری ہونے کے باوجود صحت یابی
کی جانب گامزن رہنا ، ڈاکٹر فاروق ستار کے لئے ایک بہانہ بن گیا ۔ ڈاکٹر
فاروق ستار اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ پاک سر زمین پارٹی میں ان کے لئے
واضح عہدہ و مستقبل محفوظ نہیں ہے ۔دوئم مصطفی کمال نے جن جن پر نوزاشات
کیں تھیں وہی پاک سر زمین پارٹی کا حصہ اس لئے بنے کیونکہ ان نوازشات کے
پاس ورڈ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے پاس تھے۔ ؛لیکن ڈاکٹر فاروق ستار
چونکہ ایم کیو ایم کے سنیئر رہنما ء ہیں اور خود بھی میئر کراچی رہنے کے
علاوہ قابل ذکر عہدوں پر رہ چکے ہیں ، اس لئے ان کی کمزوریاں مصطفی کمال
اینڈ کمپنی کے پاس نہیں تھی ، جس سے ڈر کر ڈاکٹر فاروق ستار پاک سر زمین
پارٹی میں شامل ہوجاتے ، موجودہ صورتحال میں الطاف حسین نے انھیں موقع
فراہم کیا ہے ، لیکن ہر سال شیڈو بجٹ پیش کرنے کی طرح ڈاکٹر فاروق ستار
شیڈو سربراہ ہی رہیں گے۔ کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی سیٹ اپ ڈاکٹر خالد
مقبول صدیقی کی ہدایات پر ہی چلیں گے ، جنھیں لندن سے ہدایات مسلسل ملتی
رہیں گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ بن کر
رینجرز و حساس اداروں کے درمیان پل بننے کی کوشش کریں گے ۔ دیکھنا صرف یہ
ہوگا کہ اس پل میں ڈاکٹر فاروق ستار ، عامر خان کی طرح قانون نافذ کرنے
والوں کے لئے کتنے مددگار ثابت ہونگے، کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ عامر خان
ہی نائن زیرو پر چھاپے اور اہم گرفتاریوں کی وجہ بنے تھے ، لیکن اپنی جان
جانے کے خوف کی بنا پر نوے دن ریمانڈ پر جانے کو ترجیح دی ۔ ورنہ پلان کے
مطابق عامر خان نائن زیرو پر چھاپے کے بعد اپنے گروپ کے ہمراہ قابض
ہوجاتے۔لیکن منصوبہ ناکامی کا شکار ہوا۔پاک سر زمین پارٹی اپنے ٹاسک کو
حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔اس لئے پاک سر زمین پارٹی سے تبدیلی کی توقع
ختم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اگر ( ایم کیو ایم پاکستان) اور ( لندن
گروپ الطاف حسین ) کے درمیان پل بنتے ہوئے تخریب کاروں کو پاکستان سے پاک
کرنے میں مدد دیں گے، تو ایم کیو ایم پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔اور اسے
واپس پرانی تنخواہ پر رکھ لیا جائے گا ۔ رینجرزو حساس اداروں کی جانب سے
ایم کیو ایم پاکستان کو یہ آخری موقع فراہم کیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ |