7ستمبر 1974ء کا یادگار دن
(Muhammad Kaleem Ullah, )
جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی اور سینٹ نے قادیانیوں اور لاہوری گروپوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا
|
|
تحریر: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر : عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو ’’تاریخ ‘‘بنا دیتی ہیں۔جیسے 1953ء کی تحریک
ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کو تاریخ بنایا۔ اسلامیانِ پاکستان نے حصولِ
آزادی وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی۔ ان کے رگ و ریشے میں کلمہ طیبہ اپنی
حقیقت و معنویت کے ساتھ موجود ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کلمہ کے
الفاظ و معانی اور حقیقت میں رد وبدل کر سکے ؟ یہاں کے مسلمان غربت ، کرپشن
، مہنگائی ، بے روزگاری اور اقتصادی بحرانوں کو سہہ سکتے ہیں۔ لیکن اسلامی
نظریات بالخصوص ناموس رسالت اور ختم نبوت جیسے عظیم الشان اور حساس موضوع
پر مداہنت سے کام نہیں لے سکتے۔حکمت کے نام پر بے حمیتی کا کسی طور پر
اظہارنہیں کر سکتے۔
اس دعوے کی ایک دلیل 7 ستمبر 1974ء کا وہ تاریخ ساز فیصلہ ہے جو عوامی طاقت
نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیا۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ پاکستان
کے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 22 مئی 1974ء
کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر کے لیے چناب
نگر کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے
اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی ،جس پر طلبہ نیاس لٹریچر کو لینے
سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد کے فلک
شگاف نعرے لگائے۔ طلبہ کا یہ قافلہ 29 مئی کو واپس ہونے لگا تو نشتر آباد
اسٹیشن(جو کہ چناب نگر اسٹیشن سے پہلے آتا ہے)پر قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے
چناب نگر کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کو بتلایا کہ فلاں بوگی طلبہ کی ہے۔
چنانچہ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی سینکڑوں مسلح
افراد جس میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین ، تعلیم الاسلام کالج کے
طلباء ، اساتذہ اور بعض قادیانی دکانداروں نے لاٹھیوں‘سریوں ، ہاکیوں ،
کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔
قادیانی اپنے ساتھ بازاری فطرت کی تین سو کے قریب عورتیں بھی لائے جب
قادیانی غنڈے مسلمان طلبہ کو مارتے تو وہ رقص کرتیں اور تالیاں بجاتیں۔
دریں اثنا نشتر میڈیکل کالج یونین کے صدر ارباب عالم کو اتنے زور سے مارا
کہ وہ بے ہوش گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔
30 مئی کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔
31 مئی کو اس سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔
3 جون کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔
9 جون کو مجلس عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ
اﷲ کو مقرر کیا گیا۔
13 جون کووزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے
سپرد کرنے کا اعلان کیا۔
14 جون کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔
16 جون کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت
بنوری کوامیر منتخب کیا گیا۔
30 جون کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کے لیے
پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔
24 جولائی کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا وہ
ہمیں منظور ہوگا۔
5 اگست سے23 اگست تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزاناصر پرقومی اسمبلی
میں جرح ہوئی۔
20 اگست کوصمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر اعلیٰ کو
پیش کی۔
22 اگست کورپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔
24 اگست کووزیر اعظم نے فیصلہ کے لیے7ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔
27، 28 اگست کولاہوری گروپ پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
یکم ستمبر کولاہور شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔
5، 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں
پرجرح کا خلاصہ پیش کیا۔
6 ستمبر کو آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی راولپنڈی میں وزیراعظم سے
ملاقات کا فیصلہ کیا۔
اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس
بلائے اور 96گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔تمام مسالک کی مذہبی و سیاسی
قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ خصوصاً مفکر اسلام مولانا مفتی محمود اور
آپ کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا ، مولانا سید محمد یوسف
بنوری ، مولانا محمد حیات ، مولانا عبدالرحیم اشعر ، مولانا تاج محمود ،
مولانا محمد شریف جالندھری رحمہم اﷲ جیسے اکابر نے دن رات ایک کر کے
قادیانی کے مذہبی و سیاسی عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔ اس محنت میں
قادیانیوں کی مذہبی حصے کی ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی(سابق جسٹس
سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت )نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب مولانا سمیع
الحق( سابق ممبر سینٹ آف پاکستان)نے اپنے ہاتھوں سے کی۔
7 ستمبرکو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری گروپ کو
اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ، اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ
کیا جس میں یہ طے کیا کہ’’ ہر فرد جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی
مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے
ضمن میں مسلمان نہیں۔ ‘‘
مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا۔ ان کے بعد مفکر
اسلام مولانا مفتی محمود رحمہ اﷲ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اٹھے اور بل
کی مکمل تائید کی اور اس اقدام پر وزیر اعظم اور ارکان حزب اقتدار کو خراج
تحسین پیش کیا۔ تقریبا ً پانچ بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی نے
قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ بھٹو صاحب نے آدھ
گھنٹے کے لگ بھگ تقریر کی اس کے بعد بل کی ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔
مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 130 ووٹ آئے اور قادیانیوں کی
حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا۔چنانچہ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ بل
پاس کیا اور مرزائیوں کو ہمیشہ کیلیے غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
7 ستمبر 1974 ء شام30: 7بجے سینٹ کا اجلاس ہوا ، مرکزی وزیر قانون جناب
عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ بل سینٹ میں پیش کیا۔ ایوان
میں دوبار رائے شماری ہوئی۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی سارے ووٹ
مرزائیوں کے خلاف آئے اور ایک ووٹ بھی ان کے حق میں نہ آیا۔
بالآخر 7 ستمبر رات 8:00بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ مرزائیوں کو
قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے۔ یہ
اعلان سننا تھا کہ لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ، ایک دوسرے کو
مبارکبادیں دیں۔ اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل
ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں اسلامیان پاکستان کی قدر کو
بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر
کسی کو ڈاکے ڈالنے کی قطعا اجازت نہیں دے سکتے۔
موجودہ حکومت ملک سے دہشت گردی اور تخریب کاری کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
تو اسے حالات و مشاہدات کے پیش نظر قادیانیوں کے اسلام وملک دشمن سرگرمیوں
پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی۔ تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اہلیان وطن کے
اسلامی اساسی عقائد کا تحفظ برقرار رہے اور ان کے جان ومال اور عزت و آبرو
کا تحفظ بھی۔ |
|