اس ملک میں مسلمان ، سکھ اور عیسائی ہی
ریاستی دشت گردی کے شکار نہیں بلکہ ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو اچھوت قرار
دے کر ان سے امتیازی سلوک کیا جا تا ہے۔ زات پات کے بندھن میں جھکڑے بے
چارے’’ شودر‘‘سماجی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے شکار ہیں۔انہیں انسان کیا،
جانوروں سے بد تر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے انسانوں کو اعلیٰ اور ادنیٰ
زاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ شودر کو وہ غلام در غلام سمجھتے ہیں۔جیسے یہ
زات ان برہمنوں کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ یہاں انسانوں کو انسانوں
نے غلام بنا رکھا ہے۔ ان کا بدترین استحصال ہو رہا ہے۔ جس طرح پاکستان مین
زمینداروں اور جاگیرداروں، وڈیروں نے ایک خلق خدا کو یرغمال بنا رکھا ہے،
اسی طرح ہندوؤں میں ایک طبقہ ہاریوں سے بھی بد ترین زندگی گزاربے پر مجبور
ہے۔ یہ برتن چھو لیں تو اسے ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ الحمد ﷲ، اسلام نے ہر ایک
انسان کو برابر کا درجہ دیا ہے۔ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دی ہے۔
بلند مرتبہ اور بڑا وہی ہے جو متقی اور پرہیز گار ہے۔ کسی کو کسی پر کوئی
فوقیت یا برتری نہیں، مگر جو تقویٰ والے ہیں۔
شیرومنی اکالی دل امرتسر، انٹر نیشنل سکھ فیڈریشن، سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن
جیسی سکھ تنظیمیں کشمیریوں کے لئے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کی
حمایت کر رہی ہیں۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف احتجاج بھی کرتی ہیں۔
وہ کشمیریوں کی مقامی تحریک کی حمایت کا اعلان بھی کر رہی ہیں۔ و ہ دنیا سے
بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔ بھارتی فورسز
نے مساجد کے ساتھ اننت ناگ میں گوردوارہ کی بھی بے حرمتی کی۔ جس کی سخت
مذمت کی گئی۔ سکھ تنظیمیں دنیا بھر میں سکھ کمیونٹی سے کشمیر کی تحریک کی
حمایت کی اپیل کرتی ہیں۔ آئیندہ سال بھارتی پنجاب کے اسمبلی انتخابات ہو
رہے ہٰیں۔ آج خالصتان نواز عوام سرگرم ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے بھارتی
پنجاب کے عوام بھی ایجی ٹیشن شروع کر دیں تو پنجاب اور کشمیر کی مزاحمت
بھارت کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔پنجاب کی پرکاش سنگھ بادل حکومت یورپ میں
سرگرم سیکڑوں سکھوؤں کو بلیک لسٹ قرار دینا چاہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق
تقریباً40ہزار سکھ بلیک لسٹ میں شامل کئے گئے ہیں۔یعنی سکھ آزاد ملک کے لئے
سنجیدہ ہو چکے ہیں۔
سخت گیر ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے لیڈر جگدیش پر ہوشیار پور
پنجاب میں حملہ ہو ا تو اس کا ذمہ دار خالصتان لبریشن فورس کو ٹھہرایا گیا۔
اس حملے کا تعلق امریکہ اور اٹلی میں موجود سکھ گروپوں کے ساتھ جوڑا گیا۔
اس کی آڑ میں پنجاب میں سکھووئں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے
مطابق بر آمد ملبوسات پر سکھ ریفرنڈم اور خالصتان کے نعرے درج ہیں۔
بھارت میں ہندو انتہا پسند ی کی سیاست کا عروج ہے۔ ان کا سارا نظام اسی
نفرت اور فرقہ ندی، زات پات پر قائم ہے۔ ورنہ وہ کچھ بھی نہیں۔ اسی نفرت
اور تعصب کو ہوا دے کر یہ سیاست کرتے ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی اور اس کی
برادر تنظیمیں نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں۔ بے چارے ناخواندہ اور
پسماندہ اور مفلوک الحال ہندوؤں کو مسلمانوں ، سکھوؤ ں اور عیسائیوں ،
شودروں کے خلاف نفرت دلا کر یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں۔ پھر مار دھاڑ اور
قتل عام کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے دوسری قوموں کی نسل کشی کی جاتی
ہے۔پاکستان کے خلاف تو انہیں روز اول سے بیر ہے۔ بلکہ پاکستان کی آڑ میں
انہیں غریب ہندؤوں کا خوب استحصال کرنے کا موقع ملا ہے۔جسے وہ بروئے کار لا
رہے ہیں۔پاکستانی گلو گار غلام علی کے کنسرٹ، خورشید قصوری کی کتاب کی
رونمائی، پی سی بی کے سربراہ شہریار یار خان کی بھارتی کرکٹ بورڈ حکام سے
بات چیت غرض ہر شعبہ پر یہ فرقہ پرست جنونی وار کر رہے ہیں۔ بھارت کو ہندو
راشٹر بنانے کی آڑ میں یہ اپنے اقتدار کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ عوام کو گمراہ
کر کے ان میں نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ تا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب
ہو سکیں۔ غربت اور جاہلیت میں کچلے ان ہندؤں کے نام پر سیاست چمائی جاتی ہے۔
لیکن انہیں کوئی حوش نہیں۔ یہ بیدار نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کی نئی نسل تعلیم
حاسل کر رہی ہے۔ مگر ابھی یہ اس قابل نہیں کہ طاقتوربرہمن اور اونچی زات
والوں کا مقابلہ کر سکیں۔ یا ان کے استحصال سے بچ سکیں۔ اسے ان کی بغاوت
اور سرکشی سمجھا جائے گا۔شمال مشرقی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ بھارت بھر
میں درجنوں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
بے چارے سکھ بھی ان کے چنگل میں پھنسے ہیں۔ ان کا بھی قتل عام کیا جاتا ہے۔
سکھوؤں کے مقدس ترین عبادتگاہ گولڈن ٹمپل کو گولہ باری اور بارودی دھاکوں
سے اڑا دیا گیا۔ گولڈن ٹمپل نہ بچ سکا ۔ دیگر کیسے بچ سکیں گے۔ یہ ان کے
عتاب کا شکار ہیں۔ 1984کے سکھ کش فسادات نے رہی سہی کسر نکال لی۔ پوری
بھارت میں معصوم اور نہتے سکھوؤ ں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ
بچوں ، خواتین اور بزرگ سکھوؤ ں کو بھی نہ بخشا گیا۔ سکھ بہادر قوم ہے۔ یہ
غیرت مند بھی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بھارت سے آزادی کے لئے جدو جہد جاری رکھے
ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے سکھ آزادی کے لئے بے قرار ہیں۔ بھارت میں بھی
اب وہ ڈٹ کر سامنے آ رہے ہیں۔وہ ہندو جنونیوں کے خلاف زوردار مظاہرے کر رہے
ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کہ بھارتی پنجاب کو خالصتان بنائیں گے۔ وہ ان کے چنگل
سے آزادی چاہتے ہیں۔
ہندو انتہا پسند انتقامی کارروائی کرنے سے باز نہیں آتے۔ان کی مجال دیکیں
کہ امرتسر میں سکھوؤں کی مقدس کتاب ’’ گرو گرنتھ صاحب ‘‘کی ہندو انتہا
پسندوں نے بے حرمتیکر ڈالی۔موگا لدھیانہ میں بھی گورو گرنتھ کی بے حرمتی کی
گئی۔ اس میں ملوث لوگوں کے خلاف مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ بلکہ ان کی
سرپرستی کی گئی۔ اسی طرح جیسے بابری مسجد شہید کرنے والوں کی سرپرستی کی
گئی۔ بھارت میں بابری مسجد اور نام نہاد رام جنم بھومی ایشو پر سیاست کی جا
رہی ہے۔ نریندرمودی بھی اسی نفرت انگیز سیاست کی پیداوار ہیں۔ مودی نے سخت
گیر ایڈوانی تک کو مسلم دشمنی میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ اقلیتوں کی
مخالفت کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ سکھ برادری ان کے تعصب
اور مظالم کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ایک ساتھ تمام اقلیتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف گائے کو لا کھڑا کیا گیا ہے۔ اور سکھوؤں کے خلاف بھی نئی
پلاننگ کی جا رہی ہے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے۔ لوگ گولڈن ٹمپل پر
حملے کو ابھی تک نہیں بھولے۔ اس پر فوج کشی کی گئی۔۔
آپریشن بلیو سٹار میں سکھوؤں کے عقیدے، وقار، غیرت پر دہشت گردانہ حملہ کیا
گیا۔ اس پر سکھوؤں نے ردعمل دکھایا تو پورے بھارت میں ہزاروں سکھ بے دردی
سے مار ڈالے گئے۔ ان کی آواز کو طاقت سے ختم کیا گیا۔ مگر یہ مودی اور ان
کے انتہا پسند خالصتان کی تڑپ کو ختم نہ کر سکے۔ انہیں جب بھی موقع ملا، یہ
دوبارہ منظم اور سرگرم ہوئے۔دنیا بھر سے اطلاعات آ رہی ہیں۔ سکھ ایک بار
پھر منظم ہو چکے ہیں۔کنیڈا، یورپ، امریکہ، افریقہ کے سکھ متحد ہو رہے
ہیں۔بھارت کے زیر قبضہ پنجاب میں سکھوؤں کی اکثریت ہے۔وہ اس پنجاب کو
خالصتان بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے اس مطالبے کو ہمیشہ سیاست کی نذر کیا گیا۔
لیکن سکھوؤں کا بھارت میں رہنا ہر گزرتے وقت کے ساتھ انتہائی مشکل ہو رہا
ہے۔ ان کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہیں۔ ان کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کی جا
رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کے فرید کوٹ ضلع میں یہ افسوسناک واقع رونما ہوا جب
گورو گرنتھ صاحب کے اوراق پھاڑ کر سڑکوں پر پھینک دیئے گئے۔ جبکہ یہاں
سکھوؤں کی اکثریت آباد ہے۔
خالصتان ریاست کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک دن یہ ضرورقائم ہو گی۔ بھارتی
پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور راجھستان کے کچھ علاقوں کو ملا کر بنے گی۔
شروع میں جرنیل سنگھ بھنڈراں والے خالصتان تحریک کے بڑے لیڈر تھے۔ جنہیں
آپریشن بلیو سٹار کے دوران بھارتی فوج نے ہلاک کر دیا۔
وزیرا عظم مودی کے خلاف گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر
سکھوؤں نے زوردار مظاہرہ کیا۔ خالصتان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ سیکڑوں
سکھوؤں نے مطالبہ کیا کہ بھارت سکھوؤں کے خلاف مظالم بند کرے اور 2020میں
خالصتان کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے۔ عالمی برادری سے ریفرنڈم کی حمایت کا
مطالبہ کیا گیا۔ رواں سال ایک بار پھر سکھ اقوام متحدہ کے باہر اپنی آزاد ی
کے حق میں اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے کریں گے۔یورپ میں
سکھ اس کا اہتمام کریں گے۔
یورپ میں ہزاروں سکھ رہتے ہیں۔ وہ شروع سے خالصتان تحریک کی سرپرستی اور
مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ بھارت یورپی ممالک سے یہ فنڈنگ بند کرانے کا
مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ یہ سکھ گروپ دنیا بھر میں بھارتی سفارتخانوں کے باہر
مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ فرینکفرٹ میں سکھوؤں نے جب مظاہرہ کیا تو مسلمانوں
نے بھی اظہار یک جہتی کے طور پر اس میں شرکت کی۔ یہ ایشو بھارت نے جرمن
حکومت کے ساتھ اٹھایا۔ یورپ میں پر امن احتجاج سے کسی کو روکنا غیر قانونی
ہے۔ اس لئے جرمنی کی حکومت بھارت کے ساتھ تعاون میں معذرت کے سوا کچھ نہ کر
سکی۔
سکھوؤں کے قتل عام،ان کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل کو بمباری سے زمین بوس
کرنے،ان کی مقدس کتاب کی بے حرمتی اور اسے پھاڑ کر سڑکوں پر پھینکنے والے
ہندوؤں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔اس کی توقع بھی نہیں کی
جا سکتی ہے۔ ہندو فرقہ پرست سکھوؤں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ مودی حکومتکا
دنیا بھر کے سکھوؤں کو صاف پیغام ہے کہ یہاں اقلیتوں کو طاقت سے کچل دیا
جائے گا۔ یہاں ان کے کوئی حقوق نہیں۔ بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن جاؤ۔
لیکن سکھ ،خالصتان تحریک سے اپنے لئے آزاد وطن کا مطالبہچھوڑنے پر ہر گز
تیار نظر نہیں آتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سکھوؤں کا قتل عام ،ریاستی دہشت گردی،
مار دھاڑ، زیر حراست ہلاکتیں، جبر ی گمشدگیاں بند کر کے بھارت ریفرنڈم
کرائے ۔ جس میں خالصتان کے لئے سکھ آزادی سے اپنی رائے دیں۔ لیکن بھارت ایک
بار پھر پر امن احتجاج کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے سکھوؤں پر مظالم اور
گرو گرنتھ صاحب اور گردواروں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ریاستی سرپرستی میں ہندو فرقہ پرست یہ کام کر رہے ہیں۔بھارت پیار اور
مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتا۔اسے اقلیتوں کی خواہشات اور جذبات کاکوئی
احترام نہیں۔اس لئے سکھوؤں کی جانب سے کسی زوردار، منظم جدوجہد تک کسی
ریفرنڈم کی امید بر آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔جس کے باعث سکھوؤں کو
دوسرے آپشنز آزمانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
کنیڈا میں چند دن قبل وین کوور میں قائم راس سٹریٹ پر سکھوؤں کے گوردوارہ
کی پر اسرار طور پر آگ لگا دی گئی۔ سکھ کمیونیٹی اس سازش میں بھارتی
ایجنسیوں کی کارستانی سمجھتی ہے۔ سکھ تشویش میں مبتلا ہیں کہ بھارت تارکین
وطن سکھوؤ ں کی عبادتگاہوں کو بھی تباہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
1984میں سکھوؤں کے قتل عام کے بعد قائم گرگ کمیشن نے متاثرین کو معاوضے
دینے کی سفارش کی تھی۔ مگر ابھی تک ہریانہ میں چند سکھوؤں کو ہی دکھاوے کے
لئے کچھ معاوضہ دیا گیا۔ جبکہ دہلی، اتر پردیش، ہریانہ، مدھیہ پردیش،
مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں میں ہزاروں سکھوؤ ں کو سر عام قتل کیا گیا۔ جسٹس
ناناوتی سمیت کئی کمیشن بنے اور ٹوٹے لیکن سکھوؤں کو انصاف نہ مل سکا۔ قاتل
آج32سال بعد بھی آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ بعض حکمران ہیں۔ یہی وجہ ہے سکھوؤں
نے سمجھ لیا کہ انہیں اس طرح انصاف نہیں مل سکتا۔ اس کے لئے انہیں منظم
جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اندرا گاندھی کو جب سکھ گارڈ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ،اس وقت وہ ملک کی
وزیراعظم تھیں۔ یہ گولڈن ٹمپل کو تباہ کرنے کا ایک ردعمل تھا۔ ایک سکھ
نوجوان نے یہ کام کیا۔ دیگر لاکھوں سکھ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خالصتان
قائم ہوئے بغیر سکھوؤ ں کے مفادات کی پاسداری نہیں ہو سکتی۔ یہ منطق انہوں
نے جان لی ہے۔
اپریل 2016کو برمنگھم برطانیہ میں سکھؤؤں نے بیساکھی کے موقع اپنا پرچم
لہرایا۔ جس پر خالصتان زندہ باد لکھا تھا۔ ساتھ ہی مشین گن کی تصویر لگائی
تھی۔ میلے پر خالصتان کے حق میں نعروں اور مشین گن کی تصویر سکھ کمیونٹی کا
عزم تھا کہ وہ خالصتان قائم کرنے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے۔ اگر چہ بر
منگھم کے رکن پارلیمنٹ خالد محمود اس نعرے کا تعلق خالصتان زندہ باد فورس
کے ساتھ جوڑا۔ جو ایک جنگجو سکھ گروپ ہے۔ جس پربھارت اور یورپ نے پابند ی
لگارکھی ہے۔ تا ہم خالصتان زندہ باد ایک معروف نعرہ ہے جو خالصتان ملک کے
لئے بلند کیا جاتا ہے۔ یہ نعرہ خالصتان زندہ بار فورس نامی گروپ کے منظر
عام پر آنے سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ خالصتان زندہ باد نعرہ لگانے والوں کا
تعلق کسی گروپ سے نہیں بلکہ یہ ان کا ایک احساس ہے۔ یہ ان کے جذبات کی
عکاسی کرتا ہے۔ خالصتان سکھوؤں کا خواب ہے۔ بھارت کو عوام کے جذبات کا کوئی
احترام نہیں۔ وہ آزادی کی تحریکوں کو طاقت سے کچلنا چاہتا ہے۔ یورپ میں آج
سکھ اپنے تہواروں اور میلوں میں خالصتان کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ انہیں یقین
ہے کہ ایک دن خالصتان بن کے رہے گا۔ اورانہیں اپنے آزاد اور خود مختار وطن
میں ایک دن آزادی سے زندگی گزارنی نصیب ہو گی ۔ |