کراچی والے کیا کریں؟
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
دل بڑا کریں اور قومی سیاسی جماعتوں میں
شامل ہوجائیں ملک کے دیگر کروڑوں لوگ بھی انہی پارٹیوں کے پلیٹ فارمز سے
اپنے اپنے علاقے کے مسائل حل کرارہے ہیں۔ملک میں قومی یک جہتی بھی بڑی
سیاسی جماعتوں کے وجود اور پروگراموں سے ہی قائم ہوتی ہے۔بڑی اور قومی
سیاسی جماعتوں کو اربن سندھ کے اردو سپیکنگ لوگوں کی جائز محرومیوں کودور
کرنے کی کوششیں ماثر انداز سے کرنی چاہیے۔ کراچی اور حیدر آباد کے لوگوں کے
لئے ایک محرومی کوٹہ سسٹم نے پیدا کی ہوئی ہے۔بھٹو دور میں یہ کوٹہ سسٹم
صرف10سال کے لئے طے ہوا تھا۔لیکن ہر آنے والی سندھ کی حکومت اسے بڑھاتی چلی
گئی۔اور اب جب پاکستان کو بنے70سال گزر گئے ہیں۔اندرون سندھ بے شمار
یونیورسٹیاں اور کالجز کام کررہے ہیں۔اب اس علاقے کی تعلیمی کیفیت وہ نہیں
رہی جو 50سال پہلے تھی۔اب اس کوٹہ سسٹم کو ختم ہونا چاہیے۔ابھی تک سرکاری
ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اندرون سندھ کی 60فیصد اور شہری سندھ
کے لئے40۔فیصد نشستیں چلی آرہی ہیں۔وفاق اور سندھ حکومت کو یہ تفریق اب ختم
کردینی چاہیے۔اس سے سندھ حکومت کی کارکردگی میں بھی بہتری آئیگی۔میرٹ کے
اطلاق سے ہی نتائج بہتر نکلتے ہیں۔کوٹہ سسٹم کے خاتمہ سے ہر ایک کو اپنا حق
مل جائے گا۔کوٹہ سسٹم سوائے سندھ کے اور کہیں بھی نہیں ہے۔اس کے خاتمہ کے
فوراًبعد لوگ پیپلز پارٹی،مسلم لیگ اور تحریک انصاف جیسی پارٹیوں کی طرف رخ
کریں گے۔اربن سندھ کی ایک بڑی محرومی یہ بھی ہے کہ گزشتہ 70سالوں میں کراچی
کا کوئی پڑھا لکھا اور قابل آدمی چیف منسٹر نہیں بن سکا۔اب تک آنے والے
تمام لوگ اندرون سندھ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ان سب کاBack Groundبھی جاگیر
دارانہ رہا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے رد عمل کے طور پر کراچی والوں نے
ایم۔کیو۔ایم تخلیق کی تھی۔جو فائدہ کی بجائے نقصان کا سبب بنی ہے۔کوٹہ سسٹم
کے خاتمہ کے بعد کراچی اور حیدر آباد والے جب قومی سیاسی جماعتوں میں شامل
ہونگے تو انکے لئے اس بااختیار عہدہ پر پہنچنے کے راستے میں کئی رکاوٹیں کم
ہوجائیں گی۔کچھ پانے کے لئے کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔کراچی والوں کو چاہیے کہ اب
وہ مہاجر عصبیت کی بنیاد پر سیاست کرنے کی بجائے پاکستانی عصبیت کی بنا پر
کھلی کھلی سیاست کریں۔جب70سال گزرجائیں تو باہر سے آنے والوں کو اپنی
علیحدہ شناخت بنانا سوشل اصولوں کے مطابق درست نہیں لگتا۔اب تو پہلی کے
ساتھ تیسری نسل بھی بڑی ہوچکی۔ان کے پاؤں تبھی مضبوطی سے جمیں گے جب وہ
اپنے آپ کو صرف اور صرف پاکستانی سمجھیں ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو
سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا اعلان کردینا چاہیے۔یہ
اعلان کراچی حیدر آباد اور دوسرے لوگوں کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوگا۔ان
کے لئے سرکاری ملازمتوں کے دروازے اہلیت کی بناء پر کھل جائیں گے۔کراچی کے
لوگ پھر مہاجر عصبیت پر بنی تنظیموں کو بھول جائیں گے۔پھر قومی سیاسی
جماعتیں ہی ان کا مناسب سیاسی پلیٹ فارم ہوگا۔پاکستان پیپلز پارٹی 1966ء
میں ہی قائم ہوگئی تھی۔اسے چاہیے تھا کہ سندھی جاگیر داروں کی بجائے پڑھے
لکھے شہری لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے انہیں بڑے بڑے عہدے دیتے۔اور
الیکشن جیتنے کے بعد اربن سندھ پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی سمجھتا۔لیکن بھٹو
نے جاگیر داروں کو ترجیح دی اور سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔قوموں میں
یک جہتی تبھی آتی ہے۔استحکام اسی وقت نصیب ہوتا ہے۔جب پارٹیوں میں ہرعلاقے
کے لوگ بڑے پیمانے پر شامل ہوں اور ہرعلاقے کے لوگوں کو اہمیت بھی دی
جائے۔میں اربن سندھ کے لوگوں کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کو نسبتاً مناسب
پارٹی سمجھتا ہوں۔باقی 2پارٹیاں بھی غیر مناسب نہیں ہیں۔کیا پاک سرزمین
پارٹی بڑی قومی پارٹی بن سکے گی؟ ابھی تک اس پارٹی میں صرف کراچی کے لیڈرز
طرز کے لوگ شامل ہورہے ہیں۔کراچی۔حیدر آباد کے عوام کا سیل رواں پاک سرزمین
پارٹی کی طرف جاتا نظر نہیں آتا۔ابھی مصطفی کمال اپنی پارٹی کے دفتروں کی
تعداد بتاتے نظر آتے ہیں۔پی۔ایس۔پی کے سربراہ کی وہ حیثیت بنتی نظر نہیں
آرہی جو پی پی پی کے سربراہ بھٹو نے چند ماہ میں ہی بنا لی تھی۔یا2011ء کے
بعد عمران خان لوگوں کے ذہنوں پر چھا گئے تھے۔مصطفی کمال میں مجھے صلاحیتیں
توکافی نظر آتی ہیں۔کراچی میں انکی 4سالہ خدمات بھی لوگوں کو بہت یاد
ہیں۔ابھی تک مصطفی کمال ایم۔کیو۔ایم کے ٹوٹنے یا پابندی لگنے کا انتظار
کررہے ہیں۔امید کررہے ہیں کہ لوگ صرف انہیں ہی Joinکریں گے۔مصطفی کما ل کی
حیثیت ابھی مستقبل طے کریگا۔لیکن باربار اردو سپیکنگ اور مہاجر کے الفاظ کی
گردان کرنے سے انکی پارٹی ـ"قومی سیاسی پارٹی"بنتی نظر نہیں آتی۔آخر کراچی
والے ایک تنگ دائرہ ہی کو سیاست کے لئے کیوں منتخب کرلیتے ہیں؟۔سیاست کی
بنیاد پوری پاکستانی قوم اور پورا پاکستان ہونا چاہیئے۔گلگت سے کراچی اور
واہگہ سے چمن باب دوستی۔ظرف وسیع رکھیں گے توبات بنے گی۔لوگ کسی بھی علاقے
اور بولی بولنے والے ہوں ان تمام کو پارٹی میں لینا اور برابر اہمیت دینا
ضروری ہوتا ہے۔پاکستانی قومیت کے استحکام سے ہی پاکستان مستحکم ہوگا۔اور
کراچی اور حیدر آباد کے لوگ اس بڑے منظر نامے کا ایک لازمی حصہ۔اگرچہ فاروق
ستار ایم ۔کیو۔ایم کو قابل قبول بنانے کے لئے اس کی کانٹ چھانٹ میں مصروف
ہیں۔لیکن چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنے سے پورے درخت کی تاثیر بدلتی نظر نہیں
آتی۔سندھ حکومت کے ساتھ اسکی کبھی بھی نہیں بنے گی۔فوج،رینجرز اور ایجنسیاں
اسے محب وطن نہیں سمجھیں گی۔مجھے محسوس ہورہا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کے
تمام قانونی اور غیر قانونی دفاتر آہستہ آہستہ مسمار کردیئے جائیں گے۔سیاسی
پابندی تو نہیں لگے گی لیکن اس کے بغیر ہی کام کرنا مشکل بنا دیا جائے
گا۔کراچی کے لوگوں کو چاہیے کہ ہروقت مشکلات میں رہنے کی بجائے کوئی آسان
راستہ تلاش کریں۔ایم۔کیو۔ایم پر الطاف صاحب کی روح کا قبضہ ہے۔اسے کسی بھی
طرح نہیں نکالا جاسکتا۔کراچی والوں کے لئے بڑی قومی پارٹیوں کے دروازے کھلے
ہیں۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ۔پی۔ایس۔پارٹی بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بڑی
قومی پارٹی کی شکل اختیار کرلے۔اربن سندھ کے لئے اب سیاسی پلیٹ فارم قومی
پارٹیاں ہی ہوسکتی ہیں۔کراچی والے دل بڑا کریں اور قومی دھارے میں شامل
ہوجائیں۔ |
|