برسات کے دن

میں تقریبا ًشام کو جب گھر واپس آیا تو موسم بہت خوشگوار تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔برسات کے دن تھے۔آج آفس میں بہت کام تھا ۔جب تھکاوٹ سے چور گھر پہنچا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی ۔میں آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں جا کے لیٹ گیا۔بارش اب موسلا دھار بارش کا روپ دھار چکی تھی۔ویسے تو اﷲ کا شکر تھا ،میں ایک آرام دہ اور چھت والے کمرے تھا ۔اس لیے مجھے بارش سے کوئی خطرہ نا تھا۔لیکن ہمارے گھر کے سامنے والے گلی کی حالت اچھی نہ تھی۔وہاں گھٹنوں تک پانی جمع ہو چکا تھا۔لہذا ایک رات کے لیے گھر سے باہر نکلنا محال تھا۔دل ہی دل میں ،میں نے بلدیہ انتظامیہ ،واسا کے اس فلاپ سسٹم کو کوسا پھر دوبارہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔دل میں ،سوچ میں ذرا سی خلش بھی نہ تھے۔چہرے سے کوئی فکر عیاں نہ تھا۔چھوٹی سی سوچ ہے جو خود سے شروع ہوتی ہے اور خود تک ہی جا کے ختم ہو جاتی ہے۔میں تو گلی کے حالات پر حکومت اور انتظامیہ کو کوس رہا تھا۔گلی کی اس حالت کا ذمہ دار انتظامیہ کو ٹھہرا کر خود کو مطمئن تو کر لیا تھا لیکن میں یہ بات بھول گیا تھا کہ ’’خدا نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جب تک اس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔‘‘ہم سب ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ہم ہی ہیں وہ معزز انسان ،جو اُن معزز حضرات کا انتخاب کرکے ان کو اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ہم خود ہیں جو انتظامیہ کی پس پشت میں ان کی سپورٹ کے لیے کھڑے ہیں ۔خیر! میرا یہ موضوع نہیں ہے۔برسات کے موسم کی بارش کو ہم نے اپنے بند کمروں میں بیٹھ کر برداشت کر لیا۔کبھی ہمارے دل میں یہ خیال نہ آیا کہ ہمارے وہ بھی مسلمان بھائی ہیں جن کے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں ہے ۔جن کے پاس برسات کی بارش کو برداشت کرنے کے لیے چھت نہیں ہے۔’’ہیپی رینی ڈے ‘‘یا ہیپی رینی نائٹ‘‘(Happy rain day or Happy rainy night) کے میسجز کا تبادلہ کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ تصور کیوں نہیں آتا کہ کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کے لیے بارش رحمت نہیں بلکہ زحمت بن کے آتی ہے۔بارش کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم کیوں نہیں یہ سوچنا گوارا کرتے کہ وہ ہمارے بھائی جن کے گھر اور املاک سب پانی میں بہہ گئے ،ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ہمیں تو صرف اپنے حالات کو دیکھنا ہے۔اﷲ تعالی کی عطا کردہ ہر نعمت کے باوجود ہم اﷲ تعالی کی نا شکری میں اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔کوئی مدد کے لیے پکارتا ہے تو پکارتا رہے ،ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ہم صرف زبان کی حد تک خدا کا شکر کرتے ہیں،لیکن ہم اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مفلس سمجھتے ہیں۔لیکن اگراپنے اسلاف کی تواریخ کا مطالعہ کرنے کا تکلف کریں تو ہمیں پتہ چلے گا جب حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے چندہ کے لیے اپیل کی ،تو ایک صحابی ؓ کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نا تھا ۔پھر بھی ان کے جزبہ ِایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ وہ اپنے آپ کو مفلس ثابت کرکے چندہ میں حصہ نا ڈالیں ۔تو اس صحابی رسول ؐ نے دن پھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور اس کی اجرت جو چند کھجوروں پر مشتمل تھی ۔وہ کھجوریں لا کہ اﷲ کے رسول ؐ کے حضور پیش کر دیں۔لیکن آج سب کچھ ہونے کے با وجود ہماری حالت سب پر عیاں ہے۔حالانکہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘۔

ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے ارد گرد کے حالات پر نظر رکھیں کہ کوئی ہمارا بھائی ایسا تو نہیں جس کے پاس رہنے کو چھت تو ہے لیکن بارش کے موسم میں وہ اس کو محفوظ نہیں سمجھتا تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے اور دیگر جو بھی مسلمان کسی بھی مصیبت میں ہیں ان کی بھی مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40692 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More