دودھ گھی کے برتنوں میں دودھ گھی ہی ڈلتا ہے!
(Mir Afsar Aman, Karachi)
پنجابی کی یہ ایک پرانی مثل ہے۔ بڑے بوڑھے
جب بستی میں کسی نوجوان کو کسی غلط راستے پر چلتا دیکھتے تھے تو اُسے ایک
طرف بیٹھا کر سمجھاتے تھے کہ دیکھوبیٹا آپ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتے
ہو۔ آج تک تمھارے باپ دادا نے کسی بُرے آدمی سے رابطہ رکھا ہے نہ کسی بُری
سوسائٹی میں شرکت کی ہے ۔ بستی، اور نہ ہی ہم نے ان میں کوئی بھی بُری بات
دیکھی ہے۔تم جس غلط راستے پر چل پڑے ہو وہ تمھارے خاندان سے لگا نہیں کھاتا
۔ اس لیے اب جو ہو چکا سو ہو چکا ، اس غلط راستے کو چھوڑ دو اور واپس صحیح
راستے پر آجاؤ۔ اسی میں تمھاری اور تمھارے خاندان کی بھلائی ہے۔دیکھو! تم
اس مثل کے مطابق دودھ گھی کے برتن ہو اس میں دودھ گھی ہی ڈلنا چاہیے۔ یہ کس
ظالم نے اس برتن میں گوبر ڈال دیا ہے۔پرانے زمانے میں اگر کوئی کسی غلط فعل
میں پڑھ جاتا تھاتو بڑے بوڑھوں کی ایسی دردمندانہ نصیحت سے توبہ کر لیتا
تھا اوربُری سوسائٹی سے کنارہ کش ہو جاتاتھا۔ اگر ہم اس مثل کو پاکستان کے
لوگوں کو پرکھ کر دیکھیں تو ہم بغیر کسی تعصب کے نشان دہی کر سکتے ہیں کہ
پاکستان میں یہ دودھ گھی کے برتن کو ن تھے ۔یہ وہ لوگ تھے جوقائد اعظم ؒ کی
پکار ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاﷲ‘‘ کا محبتوں بھرا نعرہ ،جس میں مثل
مدینے کی اسلامی ریاست ،جو مسلمانوں کے دلوں میں راج کرتی تھی نظر آتی تھی
کو، سن کر سمجھ کر ایسے علاقوں سے ہجرت کر کے آئے تھے کہ جن علاقوں میں
پاکستان نہیں بننا تھایعنی سی پی ، یو پی،پٹنہ ،بہار، مشرقی پنجاب اور
دوسرے ہندوؤں کی کثیر آبادی والے علاقے۔یہ برصغیر کے باغ کے پھولوں کا
خوشبووؤں کا گلدستہ تھا۔جو اپنی خشبوؤں اور خوبصورتی کے ساتھ مہکتا ہوا
پاکستان کے پہلے سے موجود صوبوں پنجاب، سرحد،بلوچستان ، بنگال اور سندھ کے
علاقوں میں اپنا سب کچھ لٹا کر آئے تھے۔کیوں نہ ہو ہمارے پیارے قائداعظم ؒ
نے خود کیا تھا کہ پاکستان جسے ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ مثل
مدینہ ریاست ہو گی جس میں اسلامی اخوت، یعنی بھائی چارہ ہو گا ویسا،جیسا جو
آج سے چودہ سا ل پہلے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدصلی علیہ و سلم نے قائم
کی تھی۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک کتاب’’ ملت کا پاسبان‘‘ کے صفحہ۳۲۸ پر
آپ نے فرمایا’’اسلامی اصولوں کا کوئی جواب نہیں،آج تک یہ اصول زندگی میں
اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے‘‘سچی بات یہ ہے کہ
پاکستان کی پرانی آبادی نے اس گلدستہ سے بہت کچھ سیکھا۔ سب سے پہلے اردو
زبان جو سادہ اور اخلاق سے بھری پڑی ہے۔ جو اب پورے پاکستا ن میں بولی جاتی
ہے اور ہماری قومی زبان بھی ہے۔ راقم نے ایم کیو ایم لندن مقیم عزیز آبادی
کے ایک قومیت اورلسانیت سے بھرے مضمون، جو نوائے وقت میں چھپا تھا، کے جواب
میں ایک مضمون’’ قومیت‘‘ تحریر کیا تھا جونوائے وقت اور جسارت میں شائع ہوا
تھا۔میں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ میں پنجاب کے ایک قصبے کا رہنے والا ہوں
اور مجھے کوئی گھر سے بلانے آتا تو باہر سے آواز لگاتا ہے کہتا ہے اوے’’
میرافسریا‘‘ باہر آؤ۔ مگر کراچی میں یہ گلدستے والا کوئی مجھے بلانے آتا تو
کہتا ہے’’ میر افسر امان صاحب ‘‘گھر میں ہیں۔ان بہتر تہذہب والوں نے مجھے’’
میرافسریا‘‘ سے’’ میر افسر امان صاحب‘‘ بنادیا۔ میرے بیٹے کو’’اوے حبیبیا‘‘
کی بجائے ’’حبیب اﷲ بھائی صاحب‘‘ بنا دیا۔ پھر اچھے اچھے کھانے،جیسے
بریانی، قوفتے، پسندے، بگارے بیگن اور دہلی والوں کے مسالے دارکھانوں کا
کیا کہنا۔ میں اپنی مرحومہ بیوی سے کہا کرتا تھا کہ تین بیٹوں کی شادی ہو
گئی ہے اب میں چوتھے بیٹے کی دلہن اردو بولنے والی لاؤں گا تو وہ کہتی تھی
تم کراچی آکر چٹورے ہو گئے ہو۔ خیر چھوٹے بیٹے کی شادی بھی رشتہ داروں میں
ہی ہوئی۔ اور بھی لاتعداد خوبیاں ہیں۔طوالت سے بچنے کی وجہ سے صرف دو بیان
کی گئی ہیں۔ پھرخوشبودار گلدستے کو ایک شخص الطاف حسین نے قومیت اور لسانیت
اور نام نہاد حقوق کا زہر پلا کر ان سے تہذیب و تمدن چھین لی۔ ان کی پہچان
کن کٹا، لنگڑا، لولا، چریا اور نہ جانے کون کون سے بے ڈنگے ناموں سے پکارہ
جانے لگا۔ تہذیب اور دلیل سے بات کرنے والے کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے
پستول دے دیا گیا۔وہ اس لیے ہوا کہ ان کی تہذیب اور شرافت لوٹنے والا ان کا
لیڈر اور محافظ بن کر سامنے آیا۔ اس نے کہا، وی سی آر اورٹی وی بیچو اور
اسلحہ خریدو۔ حقوق یا موت۔ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔منزل
نہیں رہنما چاہیے۔ مہاجر سندھی بھائی بھائی۔ نسوار اور دھوتی کہاں سے آئی
۔پھر اس نعروں نے کراچی کی مہاجر، پنجابی، پٹھان آبادیوں میں وہ رنگ
دکھایاجو اسلامی تاریخ کے اندر کسی نے نہ یہ دیکھا نہ پڑھا ہوگا ۔ مسجدوں
سے اعلان ہوا کہ پنجابیوں نے حملہ کردیا مہاجروں نے حملہ کر دیا
ہے۔پھرپاکستان کے نامی گرامی دشمن شخص جی ایم سید نے خوش ہو کر کہا تھا کہ
جو کام میں چالیس سال نہ کر سکا وہ کام الطاف حسین نے چالیس د ن میں کر
دیا۔کراچی شہر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے
قتل کے بدلے جو شاید فسادپھیلانے کے لیے خود ہی کیا۔سو(۱۰۰) بے گناہ
پٹھانوں کو قتل کر دیا گیا۔ کراچی شہر، ایک فون پر بند ہو جاتا ایک فون پر
کھل جاتا۔
ہڑتال کا ل پر الطاف حسین کے ۳۵۰۰۰؍ مسلح دہشت گردوں میں کچھ رات میں سڑکوں
پر نمودار ہوتے، بسیں جلاتے، فائرنگ سے خوف و ہراس پھیلا دیتے۔ لو گ دب کر
گھروں میں بیٹھ جاتے۔ کاروبار ۔تعلیمی ادارے اور ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی۔
بوری بند لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔اغوا برائے تاوان کے واقعات ہونے لگے۔ جیے
سندھ کے دہشت گردوں نے حیدر آباد میں دس مختلف جگہ پر فائرنگ کر کے تین سو
بے گناہ مہاجروں کوشہید کر دیا ۔ دوسرے دن الطاف حسین کے دہشت گردوں نے
پچاس سندھی مچھیروں کو بسوں سے اُتار کر شہید کر دیا۔ الیکشن میں جعلی
مینڈیٹ،جیسے مصر کے حسنی مبارک،شام کے بشارلاسد اور لیبیا کے معمر قذافی
تیس تیس سال بغیر شرکتِ غیر کسی رکارٹ کے کامیاب ہوتے رہے۔ وہی فارمولہ
کراچی اور سندھ کے مختلف شہروں میں استعمال کیا گیا۔ شہریوں پر دھونس
دھاندلی ،خوف و ہراس اور اسلحہ کے زور پر جعلی مینڈیٹ حاصل کیا جا تا
رہا۔کراچی کو نہ پانی ملا، نہ سڑکیں ، نہ تعلیم ملی، نہ ٹرانسپورٹ ملی نہ
ہی حقوق ملے۔ صرف مایوسی، پاکستان سے نفرت،را سے ٹرنینگ، را سے
فنڈنگ۔پاکستان کی مسلح افواج کو گالیاں اور پاکستان مردہ باد کے نعرے ملے۔
سیاسی حکومتوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور کراچی جلتا رہا۔ صاحبو! پھر اﷲ
کی لاٹھی چلی جس میں دیر تھی اندھیر نہیں اور شہر میں رینجرز نے ٹارگیٹڈ
آپریش شروع کیا۔ مجرم ،ٹارگٹ کلر، بھتہ خور،بوری بند لاشوں والے اور را سے
فنڈ اور ٹرنینگ لینے والے پکڑے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ روشنی کے شہر میں امن
قائم ہونے لگا۔ تاجر اور شہر کے سارے طبقوں نے سکھ کا سانس لیا۔ کاروبار
ہونے لگا۔ بازار کھلے رہنے لگے۔شہر کی رونقیں بھال ہو گئیں۔ وہ الطاف حسین
جو تیس سال سے پاکستان اور پاکستان کی فوج کو گالیاں دیتا رہا تھا نہ اس کی
کال پر شہر بند ہوتا نہ امن و امان خراب ہوتا۔ عدالت نے الطاف حسین کی
تقریر تصویر میڈیا میں دکھانے پر پابندی لگا دی۔ الطاف حسین کی ۲۲؍ اگست
والی تقریر میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلا گیا۔ کارکنوں کو نجی ٹی وی پر
حملے کے لیے اُکسایا گیا۔کارکنوں نے نجی ٹی وی کے دفتروں میں توڑ بھوڑ کی۔
فائرنگ سے ایک شہری شہید ہوا۔ کئی زخمی ہوئے۔ اس دہشت گردانہ اور ناجائز
حرکت پر قانون نے ایکشن لیا۔دہشت گرد گرفتار ہوئے۔جو ایک دن پہلے پاکستان
مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے وہ ربوٹ کی طرح دوسرے دن پاکستان زندہ باد کے
نعرے لگانے لگے۔ فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر گیا۔ ۹۰؍ اور دوسرے دفتروں کو
سیل کر دیا گیا۔ غیر قانونی جہگوں پر بنائے گئے ایم کیو ایم کے دفتروں کو
مسمار کر دینے کا عمل جاری ہے۔ان حالات میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر
انجینئر نعیم الرحٰمان صاحب نے پریس کانفرنس کر کے ایم کیو ایم کے پریشان
حال کارکنوں ، حمایتیوں اور ووٹروں کو دعوت دی کہ اپنے اپنے مقدمات کا
سامنا کریں اور عدالتوں سے صاف ستھرے ہو کر جماعت اسلامی میں شرکت کریں اور
شہر کی ترقی اور امن و آمان کے لیے مل جل کر کام کرنے کا آغاز
کریں۔صاحبو!ہمارے نزدیک یہ دودھ گھی کے برتن ہیں اس میں دودھ گھی ہی ڈلنا
چاہیے نہ کہ گوبر۔ یہ الطاف حسین کے بہکانے میں بہک گئے تھے۔ ان کوچاہیے کہ
اب یہ ایک دینی ، اصلاحی ،اخلاقی،نظریہ پاکستان کی محافظ، پاکستان کو ان کے
آباؤ اجداد کی خواہش کے مطابق، دو قومی نظریہ کے مطابق ایک مثل مدینہ فلاحی
ریاست بنانے والی جماعت اسلامی میں شامل ہو جانا چاہیے۔یہی ان کی اصل منزل
ہے۔ اسی لیے برصغیر کے بیس لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا
تھا۔اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ |
|