جئے متحدہ،جئے بھٹو،جئے عمران

حالات نے ایسی کلٹی کھائی ہے کہ لوگ خود کو بدل بھی لیں تو وہ اعتماد نہیں پاسکتے جو گرایا ہوا ہے۔ یہ نعرے جئے الطاف لگانے والوں نے لگائے ہیں اب الطاف کی جگہ ریپلیسمنٹ بھٹو اور عمران سے کرلی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ وقتی ہے یا پھر مستقل اس راہ پر گامزن ہونے کے ارادے ہیں۔ کراچی کی چابی اب بھی متحدہ کے ہاتھ میں رہی ہے نئے مئیر کا انتخاب جیل سے ہوا ہے۔ اب شاید وہ وقت بھی نہیں رہا کہ جیل سے شیخ مجیب بن کر کوئ نکلے۔ نئے مئیر کراچی وسیم اختر کو مبارکباد ہو کہ ان کو شہر قائد کی کنجیاں مل گئ ہیں بلکہ ایک ادھی کُنجی تو عمران خان کی جماعت نے بھی عطا کی ہے جو واقعتاً تبدیلی کی علامت ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ کنجیاں کہاں،کب اور کیسے استعمال ہوتی ہیں ویسے پہلے بھی انہی کے پاس ہوتی تھیں لیکن اب ایک ڈنڈے کا خوف ختم ہوگیا ہے جو چھت سے آکر لگتا تھا لیکن اب گھر کے اندر کا ڈنڈا موجود ہے جو چھ گھنٹے میں بھی حالات وبیانات تبدیل کرسکتا ہے۔

ایک وقت تھا جب متحدہ قائد کے حکم پر شہر قائد کو آگ اور دھوئیں کی نظر کردیا جاتا تھا۔ مشرف نے جتنی کھلی چھٹی متحدہ کو دی تھی اتنی میڈیا کو نہ دی بلکہ میڈیا کو بھی ان کے ہاتھوں یرغمال ہونا پڑا۔ بیچارے جان کہ بھی کچھ حقائق نہیں بتاسکتے، دودو گھنٹوں کی پریس کانفرنسیں بھی چلانی پڑیں بھلا ہو وفاقی حکومت کا جس نے میڈیا اور قوم کو اس بدصورت آواز وتصویر سے جان چھڑوادی تھی اور اب بھلا ہو الطاف حسین کا جس نے نفرت پھیلانے کی وجہ سے اپنی پارٹی والوں کی خود سے جان چھڑوادی ہے۔ حقیقت کیا ہے ابھی سب کچھ راز میں ہے۔ اب بیانات چاہے قرآن کو اٹھا کردئے جائیں یقین نہیں اتا کیونکہ قرآن پاک کو ذوالفقار مرزا نے بھی اٹھا کے میڈیا وقوم کو باخبر کیا تھا کہ الطاف حسین راء کا ایجنٹ ہے لیکن ہم نے یقین کرنا ہی گوارا نہ کیا ہم تو انہیں حکومت میں حصہ دیتے رہے اور ذوالفقار صاحب کے بیانات کو 'دیوانے کی بڑ' ہی سمجھتے رہے۔ پاک سرزمین پارٹی بھی کراچی میں اچانک نمودار ہوئ ہے لیکن فی الحال اپنے پنجے گاڑنے میں ناکام رہی ہے انکا منشور بھی کاغذوں میں تو آچکا ہے لیکن یقین ایسا اٹھ گیا ہے کہ ہوتا ہی نہیں کمبخت۔ مصطفیٰ کمال صاحب کے وعدے دعوے ابھی تک تو سچ ثابت ہورہے ہیں لیکن یہ سارے دوسروں کے بارے ہیں اور ان کے نائب قائمخانی صاحب ابھی حوالات کی ہوا کھارہے ہیں۔ کچھ تو راز ہیں جو اگلے نہیں جارہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق پاک سرزمین کو بھی کہیں سے تھپکی ملی ہوئ ہے۔ ان کا نشان پاکستانی پرچم جیسا اور ابھی تک ان کے جلسے بھی پاکستانی پرچموں سے سجے ہوئے ہوتے ہیں یہ بھی خوش آئند ہے۔ اسی کے متعلق ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ چندروز پہلے یہاں لاہور میں صحافیوں کی ایک تنظیم کی تقریب ہوئ تو ایک صاحب کراچی سے تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے تنظیم کے تمام اراکین کے لئے پاکستانی پرچموں کے 'بیجز' لائے تھے جو سب کے سینوں پر سجائے بعد میں پتہ چلا کہ موصوف بھی پاک سرزمین کے کوئ رکن تھے۔

حالات کی ان ساری تبدیلیوں سے فقط نعروں میں تبدیلیاں لانا اب بہت دور کا بےسُرا راگ بن چکا ہے۔ اس کے لئے واقعتاً تبدیلی لانی ہوگی، حکمت عمل کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب پاکستان یا کراچی کسی لسانی جھگڑے کا متحم نہیں ہوسکتا بے خوف رہیں صولت مرزا پھانسی چڑھ چکا ہے، عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم صاحب گرفتار ہیں الطاف حسین پر پابندیاں لگ چکی ہیں یہ پابندیاں انہی تک رہنے دیں اپنے گریبانوں کو دوسرے کے ہاتھوں سے بچانے میں عافیت سمجھیں اب آپ جتنے مدار کریں،جھوٹ بولیں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں قوم کو جلدی مطمئن نہیں کرسکتے۔ آپ لوگوں کے اصل اور بغیر میک اپ والے چہرے عیاں ہوچکے ہیَ اب کوئ ڈرامہ نہیں چلے گا آپ ٹی وی پر وعظ تو کرسکتے ہین لیکن عزت بحال کروانے کے لئے ظاہر باطن ایک کرنا ہوگا کراچی محفوظ کریں گے تو آپ لوگوں کے گریبان محفوظ ہوجائیں گے۔ آپ مہاجر نہیں رہے آپ لوگ اسی وطن کا حصہ ہیں اگر آباواجدً کے حساب سے مہاجر کہلانا چاہیں تو پاکستان میں رہنے والی بیشتر آبادی مہاجر ہے۔ اب لسانی طور پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ لسانیت کی آگ نے پہلے بھی ملک کو دولخت کردیا ہے پھر لسانی بنیادیں سب کی جائز کہلائ جائیں گی۔ ہربار کی طرح کراچی کے لوگوں کے اپنا حق سمجھ کر یاڈر اور خوف سے بھی اپ کو منتخب کیا ہے تو اب ان کی زندگیوّ کی ان کے بچوں کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے۔ اپنا خوف ختم کریں انہیں آزادی دیں انہیں کسی اور بہکاوے میں لائیں اب کوئ تمہارا ساتھی نہیں بنے گا بھارت تو استعمال کرتا ہے جو اپنے ملک کی بھوک اور ننگ نہیں مٹاسکتا وہ کسی اور کا ساتھ کیسے دے سکتا ہے جس ٹرین سے تم لوگ جانے کا ارادہ رکھتے ہو اسی میں ہی واپسی ہوگی۔ اپنے بزرگوں کی دی ہوئ قربانیوں کی قدر کرو کسی پاگل،شرابی کی باتوں میں خود کو لانا جہالت ہے۔ اللہ نے شرابی کو نماز سے روک دیا ہے جو عبادت کے قابل نہیں رہتا وہ اعتماد کے قابل بھی نہیں رہتا۔ کراچی کی کُنجی تھام لی ہے اب بہتر تبدیلی لانے کی کوشش کرو تاکہ کراچی امن کا گہوارہ بن سکے کیونکہ پورے ملک کا امن کراچی سے وابستہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40665 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.