حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اپنے رب کے حکم
پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ سلام کی قربانی اس کے حضور پیش کی تو
اللہ تعالیٰ کو اپنے دوست کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اپنے محبوب ﷺ کی اُمت
پراس کو فرض قرار دیا یعنی اپنے دوست کی سُنت اپنے محبوبﷺ کو تحفتاََ دے دی
۔مسلمان اس سُنت ابراہیمی کو بڑے خضوع و خشوع سے ادا کرتے ہیں چاہے انہیں
پورا سال بچت کرنا پڑے تو بھی وہ کرتے ہیں لیکن قربانی ادا کرنے سے پیچھے
نہیں ہٹتے۔اس دن لاکھوں کروڑوں جانور قربان کر دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
کی رحمت اور رضا حاصل کر لی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور ہمارے
اوپر اپنی رحمت نازل فرمائے ،آمین۔اللہ تعالیٰ کی اسی رحمت کے حصول کے لیے
قربانی کے بعد گوشت اور پھر ان جانوروں کی کھالیں مستحقین میں تقسیم کر دی
جاتی ہیں لیکن ان کھالوں کی تقسیم میں احتیاط بالکل نہیں برتی جاتی اور صرف
اسی بے احتیاطی کی وجہ سے یہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں جو اس
کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں یا کم از کم اُن مقاصد کے لیے
استعمال نہیں ہو تیں جن کے لیے ہونا چاہیے۔قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی
راہ میں دینا اور فلاح ہے لیکن بجائے فلاح کے یہ بہت ساری جگہوں پر شَر کے
لیے استعمال ہو جاتی ہیں۔جو سیاسی جماعتیں ان کو اکٹھا کر تیں ہیں وہ اس سے
حاصل ہونے والی رقم کو اپنے جلسے جلوسوں یاصرف اپنے کارکنوں کی فلاح وبہبود
کے لیے تو استعمال کر لیتی ہیں لیکن اپنی پارٹی سے باہر کے عام لوگ اس خیر
کے مستحق ہی نہیں سمجھے جاتے۔یہ کام کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں کر رہی بلکہ
کئی ایک اس مہم میں شامل ہیں اور ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی
ہے اس کوشش کا مقصد لوگوں کی مدد سے زیادہ اپنی تشہیر ہوتی ہے اور یوں اپنا
ووٹ بینک بڑھانا بھی ہے۔ان کھالوں کو بیچ کر کمائے گئے پیسے اُن کی اُس
کمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں جو اُن کے عسکری ونگوں کے کام بھی آتے ہیں۔
دوسری اہم ترین تنظیمیں جو قربانی کی کھالوں کو بڑی شدومدسے اور بہت بڑے
لیول پر جمع کرتی ہیں وہ مدارس ہیں۔مدارس کے پاس بہت سارے لوگ خود بھی یہ
کھالیں جمع کرواتے ہیں اور یہ کام عرصہ دراز سے جاری ہے لیکن ایسا کرنے سے
پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ پہلے اور اب کے حالات میں بہت بڑا فرق ہے پہلے
مدارس دینی تعلیم کا مرکز تھے لیکن اب شدت پسندی اور فرقہ پرستی نے جس طرح
اپنے پنجے پورے معاشرتی ڈھانچے میں گاڑھے ہوئے ہیں مدارس بھی اُس سے محفوظ
نہیں۔ایسا نہیں کہ مدارس واحد ادارے ہیں جہاں سے شدت پسندی ترویج پا رہی ہے
بلکہ اب تو جدید اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی حالات تشویشناک ہیں لیکن
مدارس کی طرف سے اس میں بڑا حصہ ڈالا جا رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ
شدت پسند تنظیموں کو نہ صرف افرادی قوت فراہم کی جا رہی ہے بلکہ دہشت گردی
کے لیے تربیت کے مراحل میں بھی مدد دی جارہی ہے اور مختلف حوالوں اور ذرائع
سے حاصل کردہ چندے بھی انہیں پیش کیے جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ تمام مدارس
ایسا کر رہے ہیں لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے مدارس موجود ہیں کہ
جن کے دہشت گرد اور شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مصدقہ تعلقات ہیں اور یہ
انہیں طرح طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ قربانی جیسے مقدس فرض کو پورا کرنے
کے بعد بلواسطہ طور پر ہی سہی اس کے ایک حصے کو یوں خود کشی جیسے قبیح اور
غیر اسلامی فعل میں استعمال کیاجانا قابلِ افسوس،قابلِ مذمت بلکہ قابلِ
گرفت فعل ہے۔اس بات پر کئی علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ کھالوں کا ان تنظیموں
کو دینا کسی طرح جائز نہیں جو شَر پھیلانے میں تعاون ومدد فراہم کرتے
ہیں۔قربانی کے جانوروں کی یہ کروڑوں کھالیں اربوں روپے مالیت کی ہیں تو یہ
خطیر رقم غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کیوں استعمال نہیں ہوتی جبکہ
اس مالیت سے بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن حکومت اس میں دلچسپی لے تو تب ایسا
ممکن ہے۔سیاسی جماعتوں، این جی اوز اور مدارس کو قربانی کی کھالیں دینے سے
پہلے عوام کو بھی ضرور سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ غیر ارادی طور پر ہی سہی ملک
دشمن عناصر کی مدد تو نہیں کر رہے ۔قابل بھروسہ اداروں کو آگے بڑھ کر اس
کام میں تعمیری انداز میں شامل ہو جانا چاہیے، یہ ادارے فوج، رینجرز،دیگر
سرکاری ادارے حتیٰ کہ میڈیا چینلز بھی ہوسکتے ہیں اور اگر ان سب تک رسائی
ممکن نہ ہو تو خود ہی انہیں مستحقین کو دے دینا چاہیے تاکہ کم از کم یہ
یقین تو رہے کہ انہوں نے کسی غیر اسلامی فعل میں کوئی حصہ نہیں ڈالا
ہے۔احتیاط عام حالات میں ضروری ہے لیکن آج کل کے حالات میں ضروری سے بھی
بڑھ کر ہے۔ |