منافقانہ سیاست اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام

آج حقیقی سیاسی شعور کی ضرورت ہے، ایسے نمائندوں کو اداروں میں بھیجنے کی ضرورت ہے، جن میں قومی جذبہ حب الوطنی ہوں، جو دیانتدار ہوں،جن کا کردار کرپشن اور بد اخلاقی سے پاک ہو، سچے ہوں، عوام کے مسائل سمجھتے ہوں اور ان کے حل سے آگاہی رکھتے ہوں، جب اپنا ووٹ استعمال کریں تو اپنے منتخب شدہ نمائندوں کو ان کے کردار و عمل سے پرکھیں اگر وہ اعلیٰ اخلاقی کردار پہ پورا نہیں اترتے اور حکومت میں آ کر اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کرتے تو دنیا کی سمجھ دار اور باشعور قوموں کی طرح ان کو اقتدار سے بے دخل کریں اور انہیں یا ان کے حاشیہ برداروں کو کبھی سیاسی نظام کا حصہ نہ بننے دیں۔یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اگر اسے پورا نہیں کریں گے تو کبھی بھی اپنی نئی نسلوں کو ایک اچھا مبنی بر انصاف نظام نہیں دے سکیں گے۔۔
بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، ان حقوق میں مناسب خوراک ،مناسب کپڑا، مناسب رہائش ، مناسب علاج معالجہ کی سہولت، مناسب اور معیاری تعلیم، عدل و انصاف، صاف ستھرا آلودگی سے پاک ماحول اور سب سے اہم عزت نفس کا تحفظ شامل ہیں۔

ان تمام حقوق کی بحالی اور حفاظت کا ذمہ دار ریاستی نظام ہوتا ہے۔ریاستی نظام کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بلا مطالبہ اور بلا تفریق ان تمام حقوق کو معاشرے میں بحال کرے، یعنی عوام کو احتجاجی جلسے جلوس کر کے بنیادی حق لینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ ریاستی نظام کو چلانے والے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں اور مناسب منصوبہ بندی کی روشنی میں ایسا ڈھانچہ ترتیب دیں جس کے ذریعے سے پورے ملک میں رہنے والے تمام افراد بلا تمیز بنیادی حقوق سے مستفید ہو سکیں اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات کے لئے پریشان نہ ہونا پڑے۔یہ تو کسی بھی فلاحی ریاستی نظام اور نظام سیاست کا حقیقی کردار ہوتا ہے، اگر کوئی سیاسی یا ریاستی نظام عوام کے بنیادی حقوق بحال نہ کر سکے اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی مہیا نہ کر سکے یا ایسی سہولیات اور مواقع مہیا نہ کر سکے جو ان حقوق کے حصول کے لئے انتہائی ضروری ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ سیاسی نظام فرسودہ ہو چکا ہے، وہ لوگوں کے مفا دات کا تحفظ کرنے کی بجائے صرف اہل اقتدار کا تحفظ کر رہا ہے۔

پوری دنیا کے سیاسی نظاموں کو تجزیہ کریں تو سب سے زیادہ متحرک اور فعال نظام جو لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ لوکل گورنمنٹ کا نظام ہے،کہیں کاؤنٹی کا نظام ہے، تو کہیں کمیون سسٹم ہے اور کہیں ڈسٹرکٹ کا نظام ہے اور کہیں پنچایتی نظام جو لوگوں کی بنیادی سہولیات کی دیکھ بھال کرتا ہے، یہ نظام اپنے ہاں پورا اختیار رکھتے ہیں، مالی استطاعت رکھتے ہیں اور اس طرح لوگ مل کر اس نظام کاحصہ بنتے ہیں اور بہتر انداز سے اپنے مسائل کو حل کرتے ہیں، اس دوران کبھی بھی کوئی صوبائی یا وفاقی نمائندہ ان کے کاموں میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کرتا، آج اگر دیکھیں تو ان ہی بلدیاتی اداروں کے مرہون منت دنیا میں لوگ صحت مند، صاف اور بنیادی سہولیات سے آراستہ معاشروں میں زندگی گذار رہے ہیں۔

لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ صوبائی اور قومی سطح پہ منتخب ہونے والے تمام نمائندے مقامی سطح کی بجائے زیادہ تر اوپر سے آتے ہیں، بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں،سرداروں،وڈیروں، نوابوں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ان کو لوگوں کے بنیادی سطح کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی علم ہوتا ہے۔ان کے پاس کوئی سیاسی تربیت بھی نہیں ہوتی، باپ سیاستدان تھا تو بیٹا بھی بن گیا،سیاست صرف اپنے مفادات کی تکمیل اور اثاثوں کے تحفظ کے لئے کی جاتی ہے، اور اس کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کر کے عوام سے ووٹ لئے جاتے ہیں یا چھینے جاتے ہیں،ان نام نہاد سیاستدانوں کے پاس نہ تو ایسی سیاسی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا شعور رکھیں کہ حکومتی نظام کیسے بنتے ہیں؟ سیاسی نظاموں کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ بنیادی انسانی حقوق کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟لوگوں کے مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ اس طرح کی کسی بھی سطح کی ان کے پاس نہ تو تعلیم ہوتی ہے اور نہ تربیت ہوتی ہے،ان میں سے زیادہ تر منتخب سیاستدانوں بشمول وزراء کے اگر ملکی آئین کے بارے میں پوچھا جائے تو بہت کم توقع ہے کہ وہ بہتر طور پہ اس کا مطالعہ کر چکے ہوں۔ ایک ایم این اے اور ایم پی اے کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اس میں کس طرح کی اہلیت ہونی چاہئے؟ ان سب باتوں پہ کوئی دھیان نہیں دیتا، سیاسی نظام کو تجزیہ کریں ایک تو ہمارے ہاں لوکل گورنمنٹ یا بلدیاتی اداروں کا وجود نہیں ہے، اگر ہے بھی تو برائے نام ، اصل مالی اور سیاسی اختیار صوبائی اور وفاقی نمائندوں کے پاس ہوتے ہیں،جو صوبائی اور وفاقی بیورو کریسی کے ساتھ ملکر پالیسیاں بھی بناتے ہیں اور پھر گلی، محلے، کے مسائل کے حوالے سے بھی کام کرتے ہیں یا اس کام کے نام پہ مالی کوٹے کے مالک بن جاتے ہیں۔ سب سے نرالہ سیاسی نظام ہے ، حالانکہ ان صوبائی اور وفاقی نمائندوں کا کام یہ ہے کہ وہ اسمبلیوں میں بیٹھیں اور لوگوں کے لئے بہتر سے بہتر معاشی، سیاسی، و دیگر قوانین بنائیں، پاس کریں، تاکہ لوگوں کی حالت بدلے۔ لیکن ان نمائندوں کی اکثریت کی حالت یہ ہے کہ اسمبلیوں کے اجلاسات میں شریک نہیں ہوتے، اور اگر شریک ہوتے بھی ہیں تو ان کی دلچسپی صرف اپنی مراعات تک ہوتی ہے، اکثر میڈیا نے اس پہلو کو اٹھایا ہے کہ جب اسمبلیوں میں بل پیش اور پاس ہوتے ہیں تو اراکین کی اکثریت اس بل کے مندرجات سے بے خبر ہوتی ہے، اسے سمجھنا یا اس پہ رائے دینا تو دور کی بات ہے اس کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔اگر بل ان کی پارٹی کی طرف سے پیش ہوا ہے توسب نے ہاتھ کھڑے کرنے ہیں اور اسے پاس کرنا ہے، اس کے اثرات معاشرے پہ کیا پڑنے ہیں؟، اس کا لوگوں کو کوئی فائدہ ہے یانقصان اس سے وہ مکمل طور پہ بے خبر ہوتے ہیں۔ ، مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض ایسے نمائندگان ہیں جو شاید پڑھ بھی لیں تو اسے سمجھنے کی صلاحیت سے محرووم ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے بھی کافی شہرت موجود ہے،جس میں ان کی جعلی ڈگریوں کا ذکرخاص طور پہ ہوتا ہے،اگر ان کو دلچسپی ہے تو یہ کہ ان کا مالی کوٹہ بحال رہنا چاہئے، ان کے پروٹوکول اور ان کی مراعات میں اضافہ ہونا چاہئے، اور پھر ان کو دئیے گئے مالی کوٹے کا استعمال جس طرح ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں، لوگوں کا حق انہیں بھیک کی صورت میں اس طرح دیا جاتا ہے کہ اس کے بدلے انہیں مزید سیاسی غلامی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

کبھی کبھارعوام کے دباؤ یا اپنے سیاسی مقاصد کے تحت کوئی ترقیاتی کام شروع کیا جاتا ہے تواس کی اس قدر تشہیر کی جاتی ہے لاکھوں روپے اشتہارات، بینرز اور تشہیری جلسوں پہ خرچ کئے جاتے ہیں،اور عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تم پہ بہت بڑا احسان کیا گیا ہے، یہ لیڈر جو ہمارے ٹیکس کھا جاتے ہیں اور اپنا ٹیکس چوری کرتے ہیں، اگر کسی علاقے میں سڑک بنوا دیتے ہیں تو کئی سال اسے بنیاد بنا کر وو ٹ مانگتے رہتے ہیں، پانی کی سہولت مہیا کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے اگر کسی علاقے میں ٹیوب ویل یا پانی کی لائن بچا ئی جاتی ہے تو کئی سالوں تک اسے اپنی سیاست کا زریعہ بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح بجلی، گیس، پل، ہسپتال، سکول یہ سب بنیادی حقوق میں شامل ہیں اور ان کا انتظام کرنا ان کی اولین ذمہ داری ، یہ کوئی عوام پہ احسان نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کو حق ہے، لیکن ہمارے بھولے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی سہولیات پہ کبھی کبھا ر جو کام ہوتا ہے وہ اسے اپنے اوپر بہت بڑا احسان سمجھتے ہیں، جگہ جگہ بینر لگے ہوئے نظر آئیں گے ، اہل محلہ، اہل علاقہ شکریہ ادا کرتے ہیں، کس بات کا شکریہ؟ کیا یہ جو کام کرتے ہیں وہ اپنی جیب سے کرتے ہیں؟اس چھوٹے سے کام کے بدلے میں وہ قومی دولت کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں، لوگ اپنے حق کے بارے میں شعور نہیں رکھتے ،انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر بنیادی سہولت اور ضرورت مہیا کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔لیکن لوگ بھی کیا کریں،انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھ رکھ کر انہیں جب کہیں سے کوئی سبیل نظر آتی ہے تو وہ شکر گذار ہو جاتے ہیں عمومی طور پہ الیکشن کے بعد منتخب نمائندوں کی اپنے علاقوں اور لوگوں کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی، سوائے اپنے خاص لوگوں کو نوازنے کے جو انہیں الیکشن کے دنوں میں کام آتے ہیں، خوب ان میں’’ ریوڑھیاں بانٹی جاتی ہیں‘‘ اور اس طرح اپنا وقت اپنے مال اور تعلقات بنانے میں صرف کیا جاتا ہے۔ اب اس اندھیر نگری میں جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو لوگ خدا کے شکر کے ساتھ ساتھ اس نمائندے کے بھی شکر گذار ہوتے ہیں، حالانکہ اس نمائندے کو لوگوں کا شکر ادا کرنا چاہئے، کہ اس کو لوگوں نے اس قابل بنایا۔ عام طور پہ جب یہ منتخب نمائندے کسی علاقے میں آتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ بڑی ہمدردی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے مسائل خوب دھیان سے سنتے ہیں، اور پھر نہایت دردمندی کے ساتھ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مختلف وعدے اور اعلانات کرتے ہیں، کہیں بجلی کا مسئلہ ہے تو وہاں ٹرانسفارمر لگانے کا وعدہ ہو گا، کہیں پانی نہیں تو پانی کی لائنیں بچھانے کے وعدے ہوں ، کہیں گیس نہیں تو وہاں گیس کنکشن کے وعدے ہوں گے۔لیکن ان وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔لوگ بدستور مسائل کا شکار رہتے ہیں، ایک بادشاہ کا قصہ مشہور ہے کہ اسے موسیقی سے دل بہلانے کا بہت شوق تھا، ایک دن ایک گانے والا اس کے دربار میں آیا اور گانے کی فرمائش کی، بادشاہ نے اسے گانے کی اجازت دیدی، اس نے نہایت ترنم سے گانا شروع کیا، بادشاہ اس کی مترنم آواز سے متاثر ہوتا چلا گیا، ہر ’’لے‘‘ اور ہر’’ بول‘‘ پہ اس کے لئے کبھی ہیروں کبھی موتیوں کا کبھی جواہرات کا اعلان کرتا گیا، حتیٰ کہ اس کی مترنم آواز اتنی بھائی کہ اس نے ایک بڑی جاگیر دینے کا اعلان کر ڈالا،، گانے والا بہت خوش ہوا ، خوشی خوشی گھر گیا اپنی بیوی کو خوشی اور مسرت سے سارا واقعہ سنایا کہ بادشاہ نے اس کی خوبصورت آواز کی وجہ سے ہیرے ، قیمتی موتی،اور جاگیر دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اور اس کی بیوی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے،دن گذرتے گئے لیکن بادشاہ کی طرف سے کوئی انعام وصول کرنے کے لئے بلاوا نہیں آیا ،، تو اسے تشویش ہوئی اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ بادشاہ سلامت وہ میرے انعامات جن کا آپ نے اعلان کیا تھا ابھی تک مجھے ملے نہیں؟، بادشاہ نے حیرت سے جواب دیایہ’’ لینے دینے والا معاملہ بیچ میں کہاں سے آ گیا‘‘، تم نے ہمارے کانوں کو گانے گا کے خوش کیا اور ہم نے انعامات کے اعلانات کر کے تمہارے کانوں کوخوش کر دیا۔ اب بھاگ جا یہاں سے‘‘بالکل ایسی ہی کچھ صورتحال ہمارے سیاسی لیڈروں اور نمائندوں کی ہے ، جھوٹے وعدے کر کے ہر دفع عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اور عوام بھی ان کے ہر اعلان پہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔یقیناً ہمیں آج حقیقی سیاسی شعور کی ضرورت ہے، ایسے نمائندوں کو اداروں میں بھیجنے کی ضرورت ہے، جن میں قومی جذبہ حب الوطنی ہوں، جو دیانتدار ہوں،جن کا کردار کرپشن اور بد اخلاقی سے پاک ہو، سچے ہوں، عوام کے مسائل سمجھتے ہوں اور ان کے حل سے آگاہی رکھتے ہوں، جب اپنا ووٹ استعمال کریں تو اپنے منتخب شدہ نمائندوں کو ان کے کردار و عمل سے پرکھیں اگر وہ اعلیٰ اخلاقی کردار پہ پورا نہیں اترتے اور حکومت میں آ کر اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کرتے تو دنیا کی سمجھ دار اور باشعور قوموں کی طرح ان کو اقتدار سے بے دخل کریں اور انہیں یا ان کے حاشیہ برداروں کو کبھی سیاسی نظام کا حصہ نہ بننے دیں۔یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اگر اسے پورا نہیں کریں گے تو کبھی بھی اپنی نئی نسلوں کو ایک اچھا مبنی بر انصاف نظام نہیں دے سکیں گے۔۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136319 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More