ایم کیو ایم لندن گروپ کے ترجمان واسع جلیل
نے مائنس الطاف فارمولے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں الطاف کے
خلاف قرارداد کو بھی رد کردیا ہے۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینس آرگنائزیشن سے
جنم لینے والی لسانی تنظیم کا سفر نشیب و فراز کا شکار رہا ہے۔ اے پی ایم
ایس او سے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ بننے تک الطاف حسین
کے نظریات اور بیانات ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں ۔1992میں ایسا وقت بھی آیا کہ
الطاف حسین کو ایم کیو ایم کی قیادت طارق عظیم کے حوالے کرنی پڑی ، لیکن
ایک ماہ بعد ہی طارق عظیم کے قتل کے بعد الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی
قیادت دوبارہ سنبھال لی۔ الطاف حسین کی انتہائی متنازعہ تقاریر و بیانات کو
ہمیشہ میڈیا میں سب سے زیادہ کوریج دی جا تی رہی ہے۔اس لئے الطاف حسین کی
جہاں حمایت میں ان کے ذمے داران ان کے بیانات کا دفاع کرتے نظر آتے ، تو
مخالفین الطاف حسین کے خلاف سخت بیانات دیتے ، لیکن عملی طور پر عمران خان
برطانیہ گئے تو مایوس لوٹ آئے کہ برطانیہ میں مقدمے اخراجات ناقابل برداشت
ہیں ، اس سے پہلے رحمان ملک جا چکے تھے ، لیکن وہ بھی ناکام لوٹے تھے،بعد
ازاں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا گئے ، وہ بھی برطانیہ کے ایجنٹ کو ہلا نہ سکے اور
ان کے شواہد سے بھرے بریف کیس کہیں گم ہوگئے ، اب چوہدری نثار کوشش کر رہے
ہیں ، لیکن اس کا انجام بھی وہی ہوگا ، جو اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ لیکن
پاکستان میں ایم کیو ایم کے لئے الطاف حسین کی تقاریر انتہائی پریشانی کا
سبب اس لئے بن چکی تھی کیونکہ اس کے ردعمل میں رینجرز کا رویہ مزید سخت
ہوجاتا ۔ ایم کیو ایم ڈکشنریاں لے کر تاویلات پیش کرتے رہتے کہ الطاف کا یہ
مطلب تھا ، الطاف کا وہ مطلب تھا ۔ اسی سے تنگ آکر پاک سر زمین پارٹی نے
الطاف حسین کو مائنس کردیا ، اس سے قبل آفاق احمد اور عامر خان کرچکے تھے ،
لیکن الطاف حسین کی شخصیت اور اس کی برین واشنگ سے آسانی سے جان چھڑانا
ممکن نہیں تھا ، قدرتی طور پر ایم کیو ایم میں دھڑے بازیاں موجود تھیں ،
کئی بار الطاف حسین اس بات کا خود بھی اقرار کرچکے تھے ، کئی بار رابطہ
کمیٹی کو معطل کرچکے تھے ۔ اس بار پاکستان مردہ باد ، اسرائیل ، امریکہ اور
بھارت ایجنسی را سے مدد طلب کئے جانے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے لئے
کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ خود کو بند گلی سے کیسے باہر نکالیں ، ان کے
سامنے دو راستے تھے ، ایک راستہ بغاوت ، پاکستان کے خلاف اعلان علیحدگی ،
یا پھر اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا آخری موقع ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے
دوسرے راستے کو منتخب کیا اور الطاف حسین کو مائنس کردیا ۔لندن گروپ مانے
یا نہ مانے ، لیکن پاکستان سے الطاف حسین مائنس ہوچکے ہیں،ایم کیو ایم
پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں اور پارٹی ترجمان خواجہ اظہار
الحسن ہیں۔واسع جلیل لندن گروپ کے ترجمان ہیں ، پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ
پاکستان میں ہے اور میئر کے انتخابات میں ثابت ہوچکا ہے کہ ایم کیو ایم
پاکستان کے تمام ذمے داران الطاف حسین کو مائنس کرچکے ہیں۔قومی اسمبلی میں
الطاف کے خلاف خود ایم کیو ایم کی جانب سے پیش کرنا ثابت کرتا ہے کہ الطاف
مائنس ہوچکے ہیں۔یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک ایسا وقت آئے ، جب الطاف حسین خمار
بازی اور اپنی فرسٹرشن سے باہر آجائیں ، برطانیہ میں ان کے مقدمات ختم ہوں
،اور پاکستان واپس آجائیں تو ایم کیو ایم پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا
ہے۔ لیکن الطاف پاکستان آنا بھی چاہیں تو نہیں آسکتے ۔؛لندن گروپ کو چاہیے
کہ وہ اب خاموش ہوجائیں اور ایم کیو ایم پاکستان کو کام کرنے دیں ، عوام ان
کی کارکردگی دیکھ کر خود فیصلہ کرلے گی۔ سیاسی طور پر ولی خان ، بے نظیر
بھٹو ، نواز شریف سب مائنس ہوتے رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے
اپنی سابقا روش کو بدلنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن الطاف حسین نے ہر نئے دن نیا
پنڈورا بکس کھولا ، کیونکہ وہ لندن میں محفوظ اور پر تعیش زندگی گذار رہے
ہیں اسلئے انھیں اپنی تقاریر کے ری ایکشن میں اپنے کارکنان کی پرواہ کبھی
نہیں رہی ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے مائنس الطاف کرکے صائب فیصلہ کیا ہے۔
انھیں قومی دھارے میں شامل ہونے کیلئے ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرنا ہوگا
، ریاستی اداروں کو ایم کیو ایم پاکستان کو ایک موقع سیاسی طور پر ضرور
فراہم کرنا چاہیے ۔ الطاف کے خلاف غداری کا مقدمہ اور ان کی سیاسی زندگی کا
حتمی فیصلہ کرکے ہی کراچی کے عوام کو سیاسی آزادی مل سکتی ہے۔ایم کیو ایم
پاکستان میں موجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن جاری رہنا چاہیے ، لیکن
سیاسی طور پر انھیں دیوار سے لگا دینے سے الطاف مظلوم بن جائے گا ، اور
آئسولیشن کا شکار مہاجر اکثریتی طبقہ الطاف حسین کو روحانی طور پر مائنس
نہیں کرسکے گا۔ سیاسی جماعتوں میں دودھ کے دھلے کوئی بھی نہیں ہے ، ایم کیو
ایم پاکستان اگر قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفی دے دیتی ہے تو بہت بڑا
خلا پیدا ہوجائے گا ، جب کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے رفقا نے تحریک
انصاف ، جماعت اسلامی اور پی پی پی کے ساتھ ملکر نواز حکومت کے خلاف
اجتماعی استعفی دے دیا تو ستمبر کا مہینہ ستمگر بن سکتا ہے ۔سیاسی پنڈت اسی
خطرے کی پیش گوہی بھی کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کا استعفی
پاکستانی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ بن سکتا ہے۔نئے الیکشن میں الطاف حسین کے
حامی اور مخالف کھل کر سامنے آئیں گے ۔ لندن گروپ ، کراچی میں امن کے لئے
اپنے بودے بیانات کے بجائے عملی طور پر ثابت کرے کہ الطاف حسین مائنس نہیں
ہوئے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایم کیو ایم نے الطاف حسین کی سربراہی میں
پاکستان اور خاص طور پر کراچی کو شدید نقصان پہنچایا ، اداروں کی تضحیک و
توہین اور انتشار پیدا کرنا الطاف حسین کا مرغوب مشغلہ رہا ہے ، اب اگر ایم
کیو ایم پاکستان نے الطاف حسین کو ان کی سیاسی دانستہ غلطیوں کا مزید بھرم
رکھنے سے بیزاری کا اعلان کردیا ہے تو ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ایم
کیو ایم کو ہی مائنس کردیں تو کیا نام بدل کر آنے والی مہاجر جماعتیں وقت
کے ساتھ کئی الطاف حسین کو جنم نہیں دیں گی ، اس کے لئے ضروری ہے کہ ادارے
جہاں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تطہیر کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ، عوام کو
بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، سانپ کو دودھ پلانے سے وہ پالتو نہیں ہوگا
، بلکہ ڈنگ ضرور مارے گا کیونکہ یہ اس کی فطرت میں ہے ، اس لئے عوام کو سب
سے پہلے سانپ کو دودھ پلانے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا ۔سانپ دودھ نہ ملنے
پر مایوس ہوجائے گا ، پھنک بھی اٹھائے گا ، ڈنگ بھی مارے گا ، لیکن آستین
سے باہر آکر جان بھی چھوڑ دے گا ۔ اب کچھ تلخ فیصلے پاکستانی عوام کے ساتھ
ریاست پاکستان کو بھی کرنے ہونگے ، الطاف کو پانامہ لیکس اور دیگر ایشوز کی
طرح لمبا لے جانے کے بجائے ، جلد از جلد آرٹیکل ۶ کے تحت الطاف کے خلاف
غداری کا مقدمہ دائر کرکے اسے پاکستان سے ہی مائنس کریں اور اس کی شہریت
ختم کرکے بھارت کی گند کو واپس بھارت میں پھینک دیں ، ویسے بھی کئی
پاکستانی اپنا ضمیر فروخت کرکے بھارت جاتے رہتے ہیں، اگر پاکستان را کے اس
ایجنٹ سے جتنا جلدی جان چھڑا لے تو بہتر ہے۔ میڈیا پرسن ہوتے ہوئے ، میں
میڈیا سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں ، خدارا کچھ عرصے کیلئے لندن گروپ
کا مکمل بلیک آؤٹ کردیں ، حب الوطنی کیلئے ہم اس سے زیادہ اہم کردار ادا
نہیں کرسکتے ۔ ریٹنگ کیلئے اظہار رائے آزادی کا نام لیکر عوام کو سکون
فراہم کرنے میں تعاون کریں۔کیونکہ یہی ہم سب کے لئے بہتر ہے ۔ میڈیا بھی
حقیقی معنوں میں جب آزاد ہوگا ، جب وہ پیر میں بندھی زنجیر کو توڑ ڈالے ،
ہاتھی کی طرح خود کو کمزور نہ سمجھے۔ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کرے۔
|