آرمی چیف کی مودی کو للکار اور ضرب عضب میں کامیابیاں

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جائے گی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے دقیفہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ملک اور اس کی سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ خواہ مودی ہو یا ’’را‘‘ یا کوئی بھی اور، ہم دشمن کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی ایک بہت بڑا چیلنج تھا اور پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اس پر قابو پایا۔ عرب دنیا سمیت بہت سے ممالک دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے اور وہ اس صورتحال نکل نہیں سکے۔ دہشت گردی کے عفریت پر جس طرح قابو پایا گیا دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی کامیابی کی مثال نہیں ملتی۔ جس طرح ہماری فورسز نے اس چیلنج کا سامنا کیا وہ مثالی ہے۔ دنیا جو بھی سوچتی ہو یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے اور ہم اسے اسی طرح لڑیں گے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان ایک ایسے موقع پرجب جان کیری امریکہ کے دورے پر ہوں اور پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جا رہا ہو،انڈیا الزامات لگا رہا ہو اور پاکستان سے را کے ایجنٹوں کے پورے کے پورے گروہ پکڑے جا رہے ہوں،پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی و تخریب کاری میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہوں ،آرمی چیف کا بیان مودی سرکار کے لئے کافی ہے۔مودی نے چند دن قبل کہا تھا کہ بلوچستان کے لوگ ہمیں پکار رہے ہیں ہم انکی آواز سنیں گے اب آرمی چیف کی جانب سے حالیہ بیان کے بعد شاید مودی خواب میں بھی جنرل راحیل شریف سے ڈر رہے ہوں۔یہ وہ اﷲ کا شیر ہے جس نے کمان لینے کے بعد وطن عزیز کو پر امن اور دہشت گردی سے پاک پاکستان بنانے کی ٹھانی اور وہ اس میں کامیاب رہا۔جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد پاکستان بلکہ دنیا بھر میں افواج پاکستان کامورال بلند ہوا۔ کراچی ایرپورٹ پر حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا ،آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد آپریشن میں مزید تیزی آئی تھی ۔اس آپریشن میں پاک فوج کو کامیابیاں ہی کامیابیاں ملی ہیں۔دہشت گردوں کا قلع قمع ہوا ہے۔2014ء میں سکیورٹی کی صورتحال پوری قوم جانتی تھی‘ دہشت گردی‘ خود کش حملے‘ باردری سرنگیں پھٹنا معمول تھا۔2012ء میں کامرہ بیس پر حملہ‘جون 2014 ء میں کراچی ائیر پورٹ پر حملہ ‘2014ء میں بارودری سرنگیں پھنٹے کے 311واقعات ‘34دہشت گردی کے بڑے واقعات ‘26خودکش حملے ہوئے جس پر پاک فوج نے 10جون 2014سے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیاجس کا مقصد تمام دہشت گردوں کاخاتمہ اور انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنا تھا، اس وقت شمالی وزیرستان میں کوئی بھی نہیں جا سکتا تھا ‘دہشت گردوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک وہاں سے آپریٹ کر رہا تھا ‘ملک میں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی تو اس کو اس مقام سے آپریٹ کیا جارہا تھا‘آپریشن ضرب عضب کے دوران دہشت گردوں کا صفایا کرتے ہوئے فورسز دتہ خیل کے قریب پہنچیں تو دہشت گرد افغانستان سے ہوتے ہوئے خیبر ایجنسی چلے گئے۔ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے پہلے پاک فوج اور حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز جن میں افغان صدر ‘افغان حکومت‘ افغان فوجی قیادت‘ ریزلوٹ سپورٹ مشن سمیت سب کو آگاہ کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر دہشت گرد آپریشن کے دوران افغانستان کی طرف بھاگتے ہیں تو انھیں پکڑ لیا جائے ‘مار دیا جائے یا پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن بدقسمتی سے افغانستان کی طرف سے ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ دہشت گرد جب خیبر ایجنسی کی طرف گئے تو پاک فوج نے خیبر ون ‘خیبر ٹو اور خیبر تھری آپریشن کر کے دہشت گردوں کے 992 ٹھکانے تباہ کیے ‘7599باردوی سرنگیں ‘35310راکٹ بم پکڑے ہیں ‘آپریشن ضرب عضب کے دوران جتنا بارودی مواد اور اسلحہ پکڑا گیا ہے وہ21سال تک مسلسل استعمال کرکے کم از کم ایک لاکھ 34ہزار افراد کو ہدف بناسکتا تھا۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ مشکل ترین تھا ‘پاک افغان سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے اہم بھی تھا اور بلند و بالاتر ‘دشوار گزار پہاڑی سلسلہ تھا جہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے‘ ان میں سے کچھ افغان جنگ کے دور کے مورچے تھے جہاں دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی تھی‘ آپریشن ضرب عضب کے دوران فروری2015ء میں دہشت گردوں کو مارا گیا ‘جس کے بعد فوج نے شوال کا رخ کیا اور وہاں پر ایک ایک گھر کو چیک کیا گیا‘اب وہاں پر معاشی طور پر بحالی ‘تعمیراتی کام او دیگر امور پر کام کیا جارہا ہے ‘پاک فوج نے بہت سی قربانیاں دیکر ان علاقوں کو کلیئر کرایا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران معاشی طور پر تقریبا 106ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے‘آپریشن ضرب عضب میں 537افسران اور جوان شہید ‘2272جوان زخمی ہوئے ہیں جبکہ 3500دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے ثمرات پورے ملک میں نظر آرہے ہیں، اگر تشدد کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو 2014ء میں 311‘ 2015ء میں 270 اور 2016ء میں 77واقعات ہوئے ہیں۔ پاک فوج کی یہ ترجیح ہے کہ دہشت گردی اور تشدد کے واقعات صفر پر لے آئیں اس کیلئے پوری قوم کے ساتھ ملکر کام کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن ضرب عضب کے بعد ردعمل کے خدشے کے پیش نظر پاک فوج نے ملک بھر میں انفارمیشن بیسڈ آپریشنز شروع کئے‘ اب تک مجموعی طور پر 21383آئی بی اوز کئے گئے جن میں 2578 بلوچستان ‘9308پنجاب‘کے پی کے میں 3263‘سندھ میں 5877آئی بی اوز کیے گئے ہیں جبکہ سپیشل آئی بی اوز 477کیے گئے جس میں 1399دہشت گردوں کو پکڑا گیا ہے ‘168کومنبگ آپریشن کئے گئے جس میں 744دہشت گرد پکڑے گئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ٹی ٹی پی نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی شروع کی جس پرمشرقی سرحد پر سکیورٹی موثر بنائی جارہی ہے۔ قومی ایکشن پلان کے حوالے سے حکومت نے ٹاسک فورس بنائی ہے اور اجلاس بھی ہوئے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی رفتار میں تیزی آئے گی ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے‘ اچھے یا برے دہشت گرد میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور این ڈی ایس کی پاکستان میں مداخلت کے ٹھوس شواہد سامنے آچکے ہیں ۔کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران کافی حد تک بہتری آئی ہے ‘دہشتگردی کے واقعات میں 74فیصد ‘ٹارگٹ کلنگ میں 94فیصد ‘بھتہ خوری میں 95فیصد اور اغواء برائے تاوان میں 89فیصد کمی آئی ہے ‘کراچی آپریشن میں رینجرز کے 30جوان شہید ہوئے اور 89زخمی ہوئے ہیں ‘کراچی آریشن میں 848ٹارگٹ کلرزگرفتار ‘268ٹھکانے تباہ کئے گئے ہیں۔ 5ہزار کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے شخص جو بھی پاکستان مخالف بات کرے گا اسے قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی‘حکومت الطاف حسین کے خلاف ایکشن لے رہی ہے اور کراچی میں جس تقریب کے دوران یہ تقریر ہوئی اور تشدد ہوا، اس پر متعلقہ اداروں ‘رینجرز ‘پولیس اورسندھ حکومت نے ملکر ایکشن لیا اور جو بھی ذمہ دارتھے، انھیں رینجرز ہیڈ کوارٹر لیجا کر تشدد کرنے والے افراد کی نشاندہی کرائی گئی اور جو بھی تشدد میں شامل تھا اسے واپس نہیں بھیجوایا گیا۔ پوری قوم جانتی ہے کہ تین سال پہلے کراچی کے حالات کیا تھے، بیرون ملک سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر پورا کراچی بند ہوجاتا تھا لیکن کامیاب آپریشن کے بعد یہ روایت ختم کردی گئی ہے۔
 
Mumtaz Haidar
About the Author: Mumtaz Haidar Read More Articles by Mumtaz Haidar: 88 Articles with 70633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.