محترم قارئین السلامُ علیکم
یہ 1998 کا واقعہ ہے جِسے اپنے مُحترم قارئین کرام کی خِدمت میں پیش کررہا
ہوں جِسے پڑھ کر آپکے قلب سلیم میں اولیاءَ اللہ کی عظمت اِنشاءَاللہ مزید
فِزوں ہُوگی ۔
یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب مجھے اَبو نے اپنے بنگلے اور فیکٹری کی کنسٹرکشن
کی ذمہ داری سُپرد کی ہُوئی تھی۔ جِسکا تیسرا سال مکمل ہُونے کو تھا اِس کے
علاوہ ایک اِہم بات جو مجھے نہیں بھول سکتی وہ یہ تھی کہ میرے چھوٹے بھائی
محمود کی فیملی اُن دِنوں حج پر روانگی کی تیاری میں مصروف تھی۔
ایک دِن میں کچھ سامان کی خریداری کے سلسلے میں گھر سے نِکلا، جب گھر سے
کچھ فاصلے پر پُہنچا تُو یاد آیا کہ مجھے بلدیہ کے ایک انجینئر سے بھی
ملاقات کرنی ہے۔ تبھی میرے دِل میں یہ خیال پیدا ہُوا کہ کیوں نہ پہلے
ٹیلیفون پر ملاقات کا وقت طے کرلوں کہ مُباداً انتظار نہ کرنا پڑے اُس وقت
موبائل فون کی اسقدر بے قدری نہیں تھی (بے قدری سے مُراد اِسکا غیر ضروری
اور غیر اِخلاقی اِستعمال ہے) اب میرے پاس تین آپشن تھے
نمبر (۱) واپس گھر چلا جاؤں اور وہاں سے فون کرلُوں
نمبر (۲) بغیر وقت طے کیے مُلاقات کیلئے چَلا جاؤں
نمبر (۳) نزدیک ہی موجود اَبُو کی فیکٹری سے فون کرلوں
اب مصیبت یہ تھی کہ گھر واپس جانے کا مطلب تھا کہ آدھا گھنٹہ مزید ضائع
کَروں، اور بغیر وقت طے کئے ہوئے جانے میں یہ قباحت تھی کہ اکثر انجینئرز
بغیر پیشگی اطلاع کیلئے وزٹ پر روانہ ہُوجاتے ہیں جسکے سبب لوگوں کو انتظار
کی زحمت برداشت کرنی پڑتی ہے، سُو نہ چاہتے ہُوئے بھی اَبُو کی فیکٹری جو
میرے راستے میں واقع تھی کی جانب بڑھ گیا اِس بات سے بے خبر کہ ایک ایسا
حادثہ جِسکے اثرات تا زندگی میرے جِسم پر موجود رَہیں گے اَبو کی فیکٹری جا
پُہنچا فیکٹری کے آفس میں اُس وقت محمود بھائی ، اور اَبو کے علاوہ میرا
ایک دَس سالہ بھتیجا بھی موجود تھا میں سلام دُعا کے بعد ایک کُرسی سنبھال
کر فون مِلانے لگا دوسری جانب سے فون بِزی تھا جسکی وجہ سے وقفے وقفے سے
فون مِلاتا رہا تبھی میں نے دیکھا کہ دو مہمان ہاتھوں میں فروٹ کی تھیلیاں
سنبھالے آفس میں سلام کرتے ہُوئے دَاخل ہُوئے۔
مجھے لگا کہ شائد وہ اَبو کے جاننے والے ہیں اور ہُوسکتا ہے کہ اَبو اور
محمود بھائی کے بھی یہی تاثرات رہے ہُوں، دونوں مہمانوں نے ایک طائرانہ نظر
آفس میں موجود ہم چاروں پر ڈالی اور اُسکے بعد پھلوں کے شاپر ایک کُرسی پر
رکھتے ہُوئے بڑی پھرتی سے اپنے اپنے پسٹل قمیض کے نیچے سے نکالتے ہُوئے ہم
پر تان لئے۔
اَبو کی شرافت اور سادگی کے اگرچہ سبھی معترف ہیں لیکن اَبو ظُلم اور جبر
کو برداشت کرنے والوں سے سخت نالاں رہتے آئے تھے اُنکا فلسفہ ہے کہ اگر لوگ
ظلم اور جبر سہنا چھوڑ دیں اور حالات کا ہمت سے مقابلہ کرتے ہُوئے ظالم کے
سامنے ڈَٹ جائیں تو کسی ظالم کی ہِمت نہ ہُو کہ وہ مظلوم کو دَبا سکے مجھے
معلوم تھا کہ اُن ڈاکوؤں نے غلط جگہ کا انتخاب کرلیا ہے لیکن سچویشن ایسی
تھی کہ ایک طرف محمود بھائی کی حج روانگی کا وقت قریب تھا، تُو دوسری جانب
ایک بَچہ بھی ہمارے درمیان موجود تھا میں نے آنکھوں سے اِشارہ کرتے ہُوئے
اَبو اور بھائی کو ایکشن سے باز رہنے کی درخواست کی جِسے اَبو اور بھائی نے
اُس وقت مان بھی لیا۔
وہ دونوں مہمان نُما ڈاکو ہمیں باور کرانے لگے کہ ہمارے باقی ساتھی باہر
موجود ہیں لہٰذا کوئی حماقت نہیں کرنا ورنہ کل تُم لوگوں کی خبر بمعہ تصویر
کے اخبار میں چھپ سکتی ہے کیونکہ جان لینا ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے
اِسکے بعد وہ لوگ بڑی دیانتداری کیساتھ درازوں کی صفائی کرنے لگے جب تمام
کیش نِکال چُکے تو ہمیں ایک مرتبہ پھر کسی مہربان اور مُشفق اُستاد کی طرح
سمجھانے لگے کہ خاموشی اختیار کرنے ہی میں ہماری کامیابی اور صحت کا راز
مضمر ہے۔
اِس واردات کے دوران اُنہوں نے ٹیلیفونوں کے تاروں کو بھی بڑے بیدردی
کیساتھ کئی جگہوں سے تُوڑ ڈالا لیکن ایک خُوش آئند بات یہ ہُوئی کہ اُن
شریف لوگوں نے دورانِ ڈکیتی نہ کوئی نازیبا کلمہ اپنے مُنہ سے نِکالا اور
نہ ہی ہماری جیبوں کو ٹٹولا ورنہ مجھے قَوی اندیشہ تھا کہ محمود بھائی اور
ابو کِسی معمولی بے عزتی پر بھی اپنے غصہ پر کنٹرول نہ رکھ سکیں گے بہرحال
جونہی وہ دونوں ڈاکو آفس سے نکلے تو محمود بھائی کہنے لگے کل ہی اَبو کے
کہنے پر دونوں ہتھیار گھر بھیج دیئے گئے ہیں لگتا ہے کسی نے مُخبری کی ہے
کہ آج ہم لوگ غیر مسلح ہیں لیکن میں اِن دونوں کو چھوڑوں گا نہیں ! وہ یہ
کہتے ہُوئے آفس سے بھاگتے ہُوئے باہر نِکلے تو اُن ڈاکوؤں کی شامت اعمال
تھی کہ اُنکی موٹر سایئکل اِسٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی محمود بھائی
نے جمپ لگا کر ایک ڈاکو کو موٹر سایئکل سے نیچے گِرا لیا ڈاکو کے نیچے
گِرتے ہی موٹر سایئکل کا بیلنس بِگڑ گیا اور باقی دو ڈاکو بھی نیچے آرہے
لیکن وہ لوگ کافی تربیت یافتہ تھے نیچے گرتے ہی فوراً اُٹھ کھڑے ہُوئے اور
دو ڈاکوؤں نے پھر اپنے پِسٹل نِکال لئے اب سچویشن یہ تھی کہ وہ دونوں محمود
بھائی کو ٹارگٹ بنارہے تھے تبھی میں نے بڑھ کر ایک ڈاکو کو قابو کرلیا
چھینا جھپٹی میں اُس ڈاکو کا پَسٹل میرے ہاتھ میں آگیا لیکن مجھے تو اسلحہ
استعمال کرنا ہی نہیں آتا تھا لہٰذا جونہی پسٹل میرے ہاتھ میں آیا میں نے
اُس پسٹل کو کافی دور اُچھال دِیا اور جیسے بَن پڑا اُس ڈاکو کی مرمت میں
مصروف ہوگیا، دوسرا ڈاکو مسلسل فائرنگ کر رہا تھا جسکی وجہ سے محمود بھائی
کو دِفاعی پوزیشن لینی پڑی اور وہ ڈاکو سے کافی دور ہُوگئے اُس ڈاکو نے دو
فائر ابو کی جانب دو فائر محمود بھائی کی جانب اور مجھ پر تین فائر کئے
لیکن گولی لگنے کا اِحساس ایک مرتبہ بھی پیدا نہیں ہُوسکا جِسکے سبب میں یہ
سمجھا کہ شائد یہ بھی اسلحہ چلانے کے معاملے میں میری طرح ہی اناڑی ہے اس
وجہ سے میں اپنے شکار کی خوب مرمت میں مصروف رہا ہم دونوں سڑک پر گُتھم
گُتھا پڑے تھے کبھی ڈاکو اوپر ہُوجاتا تھا تُو کبھی میں اوپر ہوجاتا تھا
اِس لڑائی میں دو تین مرتبہ مجھے ایسا مِحسوس ہُوا کہ جیسے کسی نے مجھے
سُوئی چبھوئی ہُو مجھے لگا کہ شائد سڑک کے کنکر پتھر چُبھ رہے ہیں تبھی میں
نے دیکھا کی اُس ڈاکو نے ایک مزید فائر محمود بھائی کی جانب کیا اور محمود
بھائی لڑکھڑا کر گر گئے۔
مجھے لگا کہ اب کی بار نشانہ محمود بھائی کو لگ گیا ہے سُو میں نے ڈاکو کو
چھوڑا اور محمود بھائی کی جانب دوڑنا چاہا تبھی ایک مزید فائر ہُوا اور
مجھے اپنی کولھے کی ہڈی کے چٹخنے کی آواز سُنائی دِی میں نے مزید چلنا چاہا
مگر پاؤں میں ایسی شدید ٹیس اُٹھی کہ میں نہیں چَل پایا اور وہیں گِر گِیا
ڈاکوؤں نے اِس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرار کو غنیمت جانا اور موٹر
سائیکل جِسے تیسرے شخص نے اِسٹارٹ کر رکھا تھا پر سوار ہُوئے اور دور موجود
مجمع کی جانب ہوائی فائرنگ کرتے ہُوئے فرار ہُوگئے مجھ پر غُنودگی طاری
ہونے لگی تھی جب اپنے کپڑوں کو دیکھا تو وہ خُون سے تر بتر تھے محمود بھائی
پر ایسا غصہ سوار تھا کہ اُنہوں نے بجائے میری جانب توجہ کرنے کے اپنی
بائیک پر پھر ڈاکوؤں کا پیچھا کرنا شروع کردیا کافی دور جانے کی بعد اُنہیں
اِحساس ہُوا کہ وہ مجھے زخمی حالت میں چُھوڑ آئے ہیں تو واپس پَلٹے لیکن تب
تک اِسٹاف میں سے کوئی صاحب مجھے گاڑی میں ڈال کر سول ہسپتال کیلئے روانہ
ہُوچُکے تھے۔
پولیس کاروائی کے بعد جب مجھ پر انکشاف ہُوا کہ جِسے میں اناڑی سمجھ رہا
تھا وہ کمبخت تو پکا نشانہ باز نکلا میرے جِسم کو پھاڑتے ہُوئے تین گولیاں
جِسم سے آر پار ہوچُکی تھیں جبکہ ایک گولی ڈاکٹروں کے مُطابق ابھی جسم میں
موجود ہوسکتی ہے کیونکہ اُنکو میرے جسم پر زخموں کے سات نشانات مِلے تھے
جِن میں سے چار سوراخ اِنٹری کے اور تین ایگزٹ کے تھے وہاں موجود سرجن میں
ایک میرے دوست تھے جِنہیں میں نے بتایا کہ مجھے مثانہ کی جگہ بُہت تکلیف
محسوس ہورہی ہے جب اُنہوں نے اس جگہ کا معائنہ کیا تو اعلان کیا کہ یہیں
آٹھواں سوراخ ہے چوتھی گولی مثانے کو پھاڑتے ہوئے نکل چُکی ہے جُوں جُوں
دوست احباب کو اِس حادثے کا علم ہُوتا گیا لوگوں کا رش ہسپتال میں بڑھتا
جارہا تھا۔
ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ اور دوسرے ٹیسٹوں کے بعد مجھے جب آپریشن تھیٹر لیجایا
جارہا تھا تبھی میں نے اَماں کو بد حواسی کے عالم میں اپنی جانب آتے دیکھا
مجھے معلوم تھا کہ اَمَاں کو اُس وقت تسلی کی ضرورت تھی ورنہ وہ رُو رُو کر
اپنا بُرا حال کرلیتیں لَہٰذا میں نے خُود کو سنبھالا، جونہی اَماں میرے
نزدیک آئیں اُنہوں نے آتے ہی میرے چہرے پہ اپنے ممتا بھرے بوسوں کی بارش
کردی، پھر یکدم ڈاکٹروں کی جانب مُتوجہ ہُوتے ہوتے ہوئے گویا ہُوئیں ڈاکٹر
صاحب کہاں گولیاں لگیں ہیں میرے اقبال کو اور اِس کی زندگی کو کوئی خطرہ تو
نہیں ہے نہ ؟
اِس سے پہلے کہ ڈاکٹر میرے مُتعلق کچھ کہتا میں نے اِماں کو اپنی جانب
متوجہ کرتے ہُوئے بُولنا شروع کردیا، اَمَّاں کُچھ نہیں ہُوا ہے مجھے بالکل
ٹھیک ہُوں اگر مجھے کُچھ ہُوا ہوتا تُو اِتنے آرام سے باتیں کیسے کرپاتا
مجھے گولیوں سے کوئی خَطرہ نہیں ہے وہ تو میرے بدن کو صرف چھوتی ہُوئی
گُزری ہیں بس یُوں سمجھ لے چند خراشیں جسم پر پڑگئی ہیں تیری دُعا میرے
ساتھ ہے مجھے کیا ہُونا ہے۔
لیکن فیکٹری کے باہر جو اِتنا خون پڑا ہے لوگ بتارہے تھے کہ وہ تیرے جِسم
سے بَہا ہے، اَماں غیر مطمئین لہجے میں استفسار کرنے لگیں؟ خُون تُو اماں
ڈاکوؤں کا بھی بُہت بَہا تھا ہُوسکتا ہے وہی خُون تُم نے دیکھ لیا ہُو
اَماں میرے اِس جواب سے اگرچہ بالکل مطمئین نہ ہوئیں ہُوں مگر اُن کی تشویش
میں میرے پُر اعتماد لہجے نے کچھ نہ کچھ کَمی ضرور کَر دِی تھی۔
اس کے بعد مجھے اسٹریچر پہ ڈال کر آپریشن تھیٹر منتقل کر دیا گیا جہاں ایک
ڈاکٹر نے بیہوشی کا انجکشن لگایا اور اُسکے بعد ڈاکٹرز میرے اُدھڑے ہوئے
جسم پر اپنے جوہر دِکھانے میں مصروف ہُوگئے۔ مجھ پر اگرچہ غنودگی طاری تھی
لیکن میں اُن ڈاکٹرز کی تمام گُفتگو لفظ بہ لفظ سُن رہا تھا جب میرے دوست
سرجن نے دوسرے سرجن سے یہ کہا کہ، سر جی باہر بُہت ہجوم جمع ہُوگیا ہے اور
پیشنٹ کی حالت سیریس ہے اِسکا مثانہ بھی گولی سے پھٹ چُکا ہے اور خون بھی
بُہت زیادہ بہہ چُکا ہے مریض کے بچنے کے چانسز بُہت کم ہیں اگر خدانخواستہ
اِسے کچھ ہُوگیا تو اِتنے لوگوں کو کون سنبھالے گا میرا مشورہ ہے کہ اِسے
حیدرآباد یا کراچی کی جانب ریفر کردیں۔
مجھے اُس ڈاکٹر پر اُس وقت بُہت غصہ آرہا تھا جو دوست ہونے کے باوجود اپنی
ذمہ داری سے جان چُھڑا رہا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ بیہوشی کی حالت تھی یا
کومہ کی لیکن میں سب کی بات سُن سکتا تھا لیکن کہہ کچھ بھی نہ سکتا تھا
دوسرا فلیش بیک جب ہُوا تو میں حیدرآباد کے اسپتال میں پُہنچ چُکا تھا جہاں
چار ڈاکٹر مجھ پر جھکے ہوئے آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ میں رات
بمشکل جی پاؤں گا لیکن میں جانتا تھا کہ مجھے کُچھ نہیں ہُوگا لیکن اُس وقت
میں کُچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا صبح جب میری آنکھ کُھلی تو میں نے
ڈاکٹر سے کہا کہ مجھے واپس میر پور خاص بھیج دیں اُس نے کہا کہ تُمہاری
پوزیشن ایسی ہرگز نہیں کہ تُمہیں سفر کرایا جائے لیکن میں بضد تھا کہ مجھے
اُسی سرجن دوست کے پاس جانا ہے جو میری بے بسی کی حالت میں مجھ سے جان
چُھڑا رہا تھا کافی پس و پیش کے بعد ڈاکٹر نے مجھ سے ایک کاغذ پر دستخط
کروائے جس میں لکھا تھا کہ اگر یہاں سے جانے کے بعد میری موت واقع ہوجاتی
ہے یا میری حالت بِگڑ جاتی ہے تو اسپتال انتظامیہ جوابداہ نہیں ہُوگی بلکہ
میں خود اِسکا ذمہ دار ہونگا۔
بہرحال اسپتال سے جونہی ایمبولینس مجھے لیکر باہر نکلی تو ناہموار سڑک کے
جھٹکوں کی وجہ سے پیشاب کی نلکی میں خون آنا شروع ہُوگیا لیکن میں نے واپسی
کی تمام تجویز رد کرتے ہُوئے میر پور خاص کی جانب سفر جاری رکھنے کی تلقین
جاری رکھی اور بالآخر دو گھنٹے بعد میر پور خاص کے سِول اسپتال پُہنچ گیا
میرا دوست ڈاکٹر اپنے طرز عمل پر شرمندہ تھا لیکن اُسکے کُفارے میں اُس نے
بِلاشُبہ میری وہ خِدمت کی کہ جِسے میں زندگی بھر نہ بُھلا پاؤں گا۔
اِس حادثے میں میرے داہنے پاؤں کی ایک ہڈی بھی ٹوٹ گئی اور ایک گولی کولھے
کی پلیٹ سے ٹکرا کر مثانے کو پھاڑ گئی ڈاکٹر نے بتایا کہ اکثر اِس مُقام پر
گولی لگنے کے بعد گُردوں کی جانب مُوؤ کر جاتی ہے جس سے فوری موت واقع
ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ میں تقریباً 20 دن اسپتال میں داخل رہا دوست
احباب اِس کثرت سے تیمارداری کیلئے تشریف لاتے کہ اسپتال کے بجائے دوستوں
کی محفل کا سماں ہوتا ڈاکٹر صاحب نے میرا بیڈ ایک نسبتاً پرسکون گوشے میں
لگوا دِیا تھا جِس کے سبب دوسرے مریض بھی اِس آمدورفت سے مُتاثر نہ ہُوتے
تھے۔
محترم قارئین ابتدائی دِنوں میں ڈاکٹر میری زندگی سے زیادہ پُرامید نہیں
تھے لیکن مجھ پر کبھی کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب میں اپنی زندگی
سے نا اُمید ہُوا ہُوں میرے ایک دوست نے جب اِس بات کا تذکرہ مجھ سے اسپتال
میں کیا اور کہنے لگے کہ اقبال بھائی جب ہم ابتدائی دِنوں میں کِسی بھی
ڈاکٹر سے آپکی صحت کی بابت دریافت کرتے تھے تُو وہ زیادہ پُر اُمید نہیں
دِکھائی دئیے لیکن آپ ہمیشہ آنے والوں کو بڑی خُود اعتمادی سے یہی بتاتے
تھے کہ آپ بُہت جلد صحتیاب ہوجائیں گے اور بالاآخر آپکی قوتِ اِرادی نے آپ
کو پھر سے ایک صحت مند اِنسان بنا دِیا تب میں نے اپنے اُس رفیق کو بتایا
کہ یہ کوئی قُوتِ اِرادی کی جیت نہیں تھی بلکہ اِس کے پیچھے ایک کہانی ہے
جِس کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ ابھی میری زندگی کا ( دی اینڈ) ہونے میں
وقت باقی ہے۔
وہ اصرار کرنے لگے کہ ہمیں بھی وہ کہانی ضرور سُنائیں جِس کے سبب آپکو ایسا
کامِل یقین تھا کہ ہم نے یقینی موت بھی زندگی میں بدلتی دیکھی ہے دوستوں کے
بے حد اصرار پر میں نے یہ واقعہ اپنے دوستوں کو سُنانا شروع کیا ۔ یہ
تقریباً 10 برس پُرانی بات ہے ایک رات میں اپنے مُرشد کریم سیدنا سراج
الدین وارثی دامتُ برکاتِہم عالیہ کی خِدمت میں حاضر تھا میرے مُرشد کریم
اکثر اپنا بچا ہُوا کھانا یا پانی مجھے عطا فرما دیتے جِسے کھانے کے بعد
میں خُود میں کافی زیادہ روحانی قُوت محسوس کیا کرتا تھا اُس رات بابا صاحب
بُہت خُوش دکھائی دے رہے تھے اچانک بابا صاحب انگھیٹی کے پاس پُہنچے جِس پر
ایک چھوٹی سی گَڑوی میں بابا صاحب کیلئے دودھ گرم ہُورہا تھا بابا صاحب نے
انگھیٹی کی نیچے موجود راکھ کو ہٹایا تو اُس میں ایک دیسی مرغی کا انڈہ
دَبا ہوا تھا بابا صاحب، اُس انڈے کو نکال کر اُس پر جَمی راکھ کو ہَٹا کر
چھیلنے لگے میرے لئے یہ معاملہ انتہائی دِلچسپی کا حامِل تھا جِسے میں بصد
شوق سے دیکھ رہا تھا بابا صاحب نے آدھے سا زیادہ انڈہ کھانے کے بعد مجھے
قریب آنے کا اِشارہ کیا میں جونہی بابا صاحب کے نزدیک پُہنچا بابا صاحب نے
مُسکراتے ہُوئے وہ انڈہ میری جانب بڑھا دِیا میں نے بڑے احترام سے وہ انڈہ
لیا اور کھا لیا اِسکا ذائقہ بالکل بوائل انڈے جیسا تھا لیکن جونہی وہ انڈہ
میرے حلق سے نیچے اُترا مجھ پر غشی طاری ہُوگئی چاروں جانب ایسا محسوس ہونے
لگا جیسے آسمان پر ہزاروں چاند نِکل آئے ہُوں اور اُن سے نور کی برسات
ہورہی ہو میرے پیر بھائی گھبرا کے میرے نزدیک جمع ہوگئے تبھی بابا صاحب نے
اِرشاد فرمایا کہ گھبراؤ مت ابھی ہوش میں آجائے گا پھر ایک جملہ اِرشاد
فرمایا، شوق بہت زیادہ ہے مگر ابھی برداشت کا وقت نہیں آیا، یہ کہہ کر کُچھ
دودھ گَڑوی سے نکال کر میرے حَلق میں ٹپکایا جیسے ہی دودھ کا ذائقہ زُبان
پر محسوس ہُوا تمام روشنی غائب ہوگئی اور میں نارمل ہُوگیا اُسکے بعد کافی
دِیر تک بابا صاحب میری جانب مُحبت بھری نِگاہُوں سے دیکھتے رہے۔
رات ایک بجے کے قریب بابا صاحب پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہونے لگی بابا
صاحب نے میرا ہاتھ تھاما اور آستانہ مُبارک سے باہر نِکل آئے دوسرے پِیر
بھائیوں نے ساتھ آنا چاہا تو اُنہیں ہاتھ کے اِشارے سے منع فرمادِیا اِسکے
بعد بابا صاحب میرا ہاتھ تھامے سنسان شاہراہوں پر چلتے ہُوئے مجھ سے کہنے
لگے اقبال جانتے ہُو اگلے برس تُمہاری شادی ہُوجائیگی بُہت اچھی شریک حیات
مِلے گی تُمہیں پہلے بیٹی آئے گی اور پھر بیٹا آئے گا لیکن یہ سفر چار سال
سے زیادہ نہیں چلے گا، اُسکے بعد تُم مکہ اور مدینہ دیکھو گے ایک برس بعد
تُمہارا دوسرا نکاح ہُوگا اور اِسطرح کم وبیش بیس برس تک آئندہ پیش آنے
والے واقعات کو بیان فرماتے رہے پھر اچانک نہ جانے کیا ہُوا کہ بابا صاحب
نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے بُہت رات بیت گئی ہے گھر جاؤ تُمہاری
ماں پریشان ہُورہی ہے میں بابا صاحب کی باتوں میں ایسا کھویا ہُوا تھا کہ
بھول ہی گیا تھا کہ میرا ایک گھر بھی ہے جہاں میری ماں میرا انتظار کر رہی
ہُوگی اُسکے بعد بابا صاحب ایک لمحہ بھی نہیں ٹہرے اور واپس آستانے کی جانب
چل دیئے اور میں اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
دوستوں بابا صاحب نے جو کچھ اُس رات مجھے بتایا تھا خُدا کی قسم ایک بات
بھی اُس کے خِلاف واقع نہیں ہوئی اسلئے جب سارے لوگ میری زندگی سے مایوس
ہورہے تھے تبھی مجھے یقین کامل تھا کہ جن آئندہ آنے والے واقعات کا بابا
صاحب نے ذکر فرمایا ہے وہ بھی ضرور پیش آکر رہیں گے جِسکے لئے میرا زندہ
رہنا شرطِ اولین ہے اِسی لئے میں سب سے کہہ رہا تھا کہ ابھی مجھے کُچھ نہیں
ہُوگا کیونکہ ایک اللہ کا ولی مجھے کم از کم 20 برس کی زندگی کی نوید سُنا
چُکا ہے جس میں سے 10 برس گُزر چُکے ہیں اور 10 برس کے واقعات کو ابھی ظہور
میں آنا باقی ہے اور اللہ کریم کبھی نہیں چاہے گا کہ اُسکا کوئی دوست دُنیا
میں جھوٹا ثابت ہُو اور محترم قارئین آج اِس واقعہ کو 22 برس گُزر چُکے ہیں
اور وہ تمام باتیں جو ایک مرد قلندر حضرت سیدنا سراج الدین وارثی دامتُ
برکاتہم عالیہ جو میرے پِیرومُرشد بھی ہیں نے میرے مُتعلق اِرشاد فرمائی
تھیں لفظ بہ لفظ ،، حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئیں آجکل آپ دامتُ برکاتہم عالیہ
اکثر حالتِ وجد کی کیفیت میں رِہتے ہیں آپکی پیدائش ہندوستان کے ضلع
مانکپور میں 1860 میں ہوئی تھی اِسطرح آپ کی عمر مُبارک آج 2010 میں
تقریباً 150 برس بنتی ہے اللہ کریم سے دُعا ہے کہ میرے مُرشد کریم کا سایہ
مسلمانوں پر تادیر قائم رہے تاکہ لوگ اُن کے دریائے فیض سے مستفید ہُوتے
رہیں۔
(آمین بِجاہِ سید الرسلین وصلی اللہُ علیہ وسلم)۔ |