جو شروع ہو جائے ۔۔۔۔۔۔پھر رکنے نہ پائے

ایک بار جو بے موقع شروع ہو جائے اور پھر آسانی سے رکنے بھی نہ پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا تو برسات کی بارش ہوتی ہے یا عورت کے آنسو برسات کی بارش انسان کو اتنا ہی خوار کرتی ہے جتنا کہ انسان کسی سرکاری دفتر میں ہو سکتا ہے۔ نہ کہیں آنے کا راستہ نہ کہیں سےجانے کا راستہ ہر قدم آہستہ آہستہ کہ نہ جانے آگے کیا صورتحال کی شکل ہو گی۔ اگر بارش کوئی راستہ چھوڑ دے اور اسکو نہ بھرے تو وہ کسی وزیرا اعلی ہاؤس کا باغ ہی ہو سکتا ہے ایک عام شہری کی گزرگاہ تو ہر گز نہیں۔

برسات کا مہینہ کسی زمانے میں تو اگست میں شروع ہوتا تھا اور حساب کتاب سے ہوتا تھا کہ بارش اب بادل ہیں تو برسے گی اب رکے گی مگر اب وہ وقت آگیا ہے کہ برسات کا موسم شروع بہت جلدی ہو جاتا ہے جون یا جولائی کے وسط تک ہی شروع ہو جائے گا جس کو اب پری مون سون کا نام بھی دیا جاتا ہے اور خاصا بے وقت بھی شروع رہے گا۔ بادل آسمان پر ہوں حتی کہ نہ بھی ہوں بارش تب بھی شروع ہو سکتی ہے۔
بارش شروع ہو گی ایک دم سے ٹپا ٹپ یوں شروع ہو گی کہ آپکو یقین نہ آئے کہ بارش ہونے کا امکان بھلا کب تھا جو یہ شروع ہو گئی ہے۔

رک جائے تو یوں رکے کہ سانس لینے کو بھی ہوا نہ ملے پھر شروع ہو تو یوں برسے کہ بکھرے کپڑے اور بچے تک نہ سمیٹنے دے۔

بارش جو کبھی بہت ذیادہ برستی ہے کہ شہری انتظامیہ کا پول کھول کر ہر جگہ سوئمنگ پول بنا دیتی ہے کبھی رکتی ہے تو یوں رکتی ہے کہ تھر کی گرمی انسان کو یاد کرا دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اگر بجلی نہ جائے اور بارش ہی آئے تو بارش کا موسم نا مکمل سا سمجھا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے گلوبل وارمنگ اور درختوں کی کٹائی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ اب ہمیں اتنی بے قاعدہ سی بارش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سچ بھی ہے کہ آخر درخت ہی تو بارش برسانے کا موجب بنتے ہیں تو اگر ہم انھی کو نہیں چھوڑیں گے تو یہ بارشیں کہاں سے دیں گے۔

بارش کے سیزن میں آپ جتنا بھی اپنا ٹائم ٹیبل بنا لیں چاہے آفس یا سکول جانے کا وقت ہو یا خالہ جی کے گھر چکر لگانے کا موڈ بارش آپکت تمام پلانز پر پانی ڈالنے کی خوبی رکھتی ہے پھر راستوں کا بھی وہ حال کہ انسان دس منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے کر کے بھی خود کو سکندر سمجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے تو باش کے دنوں کے لئے شعر ہے کہ جو بارش میں گھر پہنچا وہ سکندر ورنہ پانی کے اندر ویسے تو جھولتے ہوئے بجلی کے تار جن میں چوبیس گھنٹے بجلی جاری رہے ہمارے ہاں ایک خواب سی بات لگتی ہے مگر بارش کے موسم میں یہ اپنے اندر اتنا کرنٹ سمو لیتے ہیں کہ آپ خدانخواستہ انکے ساتھ لگ گئے تو انکے ساتھ ہی رہ جائیں گے اس برسات سیزن میں ہم نے یہ بھی بہت سے واقعات میڈیا پر دیکھے۔

لاہور کا تو خاص طور پر بارش میں ارمان اور خون اسلئے ذیادہ بہتا ہے کہ لاہور کو امید تھی کبھی کہ یہ پیرس بنے گا اور لاہوری یہ نہیں جانتے کہ پیرس کی سڑکیں کتنی پانی میں ڈوبتی ہیں سو جب سڑکوں پر اتنا پانی جمع ہو جائے کہ گاڑی کی بجائے کشتی چلائی جا سکے تو خوش ہونے کی بجائے سوشل میڈیا پر اپنا دکھڑا رونے لگتے ہیں کہ پیرس کی سڑکیں پانی میں ڈوب گئیں۔

بارشیں ہوں اور مچھر نہ ہوں بلاکل ایسے ہی ہے جیسے مٹھائی ہو اور مکھیاں نہ آئیں۔ مچھر کی افزائش کے لئے جو انتہائی آئیڈیل مہینہ سمجھا جاتا ہے وہ برسات کا مہینہ ہے مچھر پورا سال یلغار کے لئے اسی مہینے کے انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ کب انسانوں پر فوج در فوج حملہ آور ہو سکیں اسس کام کے لئے پھر برسات کے دن ہی منتخب کئے جاتے ہیں -

کبھی کوئی زمانہ تھا جب برسات کے دنوں میں طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے تھے مگر اب وہ وقت ہے کہ صرف کھانا بھی بنا لیا جائے تو غنیمت لگتا ہے طرح طرح کے پکوانوں کے لئے ریسٹورنٹ آباد کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح کی جہگوں پر کھانوں میں مچھر بھی باخوبی مکس ہو جاتے ہیں اور کھانوں کا ستیا ناس مارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس طرح کے موسم میں اگر بیماری پیچھالے لے تو پھر اس سے بچنا بھی آسان نہیں ہوتا سو احتیاط لازم ہے ورنہ بستر پکڑ لینا ہی مجبوری ہو گا ۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 272553 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More