عید الاضحی اور قربانی کے احکام
(Pir Usman Afzal Qadri, Gujrat)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قرآن مجید پارہ نمبر 30سورہ کوثر، آیت نمبر 2میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘
ترجمہ: ’’تو تم اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘
مفسر قرآن حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس آیت مبارکہ سے
نماز عید اور قربانی کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ وہ آیت بالا
کے تحت تفسیر مظہری میں مفسر قرآن حضرت عبداﷲ بن عباس جیسے صحابہ کے
شاگردوں حضرت عکرمہ حضرت قتادہ اور حضرت عطاء رضی اﷲ عنہم کی روایت بیان
کرتے ہیں کہ وہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ یعنی تم قربانی کے روز اپنے
رب کیلئے نماز عید پڑھو اور قربانیوں کے جانوروں کو ذبح کرو۔‘‘ تفسیر قرطبی
اور تفسیر جلالین میں بھی اس آیت کے تحت ایس ہی تحریر ہے۔ جبکہ تفسیر ابی
سعود اور کشاف میں ہے: ’’کہا گیا ہے کہ اس آیت میں نماز عید اور قربانی
کرنا مراد ہے۔‘‘
الغرض مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بتوں کے نام کی قربانی دیتے تھے۔
اس آیت مبارکہ میں نبی اکرمﷺ کی وساطت سے آپ کی امت کو توحید خالص کا حکم
دیا گیا کہ وہ رب العالمین جل جلالہ و عم نوالہ کے لئے عبادت کریں اور اسی
کیلئے قربانی دیں۔ نیز اس آیت مبارکہ میں اخلاص و ﷲیت کا حکم بھی دیا گیا
ہے کہ مسلمان کے کسی عمل میں ریاء وسمعہ (دکھاوا اور شہرت حاصل کرنا) نہیں
ہونا چاہئے بلکہ نیت میں یہ ہوکہ یہ کام محض اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے
کیا جارہا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید پارہ نمبر 3، سورہ بقرہ، آیت نمبر 264 میں
ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو
احسان جتا کر اور طعنے دے کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو اپنا مال دکھاوے
کیلئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ جبکہ ’’سنن
ابن ماجہ‘‘ کتاب الزھد، باب الریا والسمعۃ، حدیث نمبر 4194 میں نبی اکرمﷺ
نے فرمایا: ترجمہ: ’’کیا میں تمہیں اس چیز سے آگاہ نہ کروں جو میرے نزدیک
تمہارے لئے دجال کے فتنہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: ہاں!
فرمایا: وہ شرک خفی ہے کہ ایک آدمی نماز کیلئے کھڑا ہو اور خوب اچھی طرح
پڑھے اس لئے کہ کوئی دوسرا شخص اسے دیکھ رہا ہے‘‘ اسی طرح مسلم شریف کتاب
الامارہ میں ایک لمبی حدیث مبارک ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے روز سب
سے پہلے جو فیصلہ ہوگا۔ ایک شخص جو بظاہر شہید ہوا دوسرا جس نے قرآن پڑھا
اور پڑھایا اور تیسرا جس نے بظاہر فی سبیل اﷲ مال خرچ کیا۔ ان تینوں کو
اخلاص و ﷲیت نہ ہونے بلکہ دکھاوے اور شہرت پانے کیلئے یہ عظیم کارنامے
انجام دینے کی وجہ سے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دینے کا حکم ہوگا۔ العیاذ
باللّٰہ!
یاد رہے کہ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، آزاد، مقیم، مالک نصاب پر ماہ ذوالحج کی
دسویں تاریخ کے دن شروع ہونے پر قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
قربانی کیلئے یہ حکم ہے کہ جانور خوب صحت مند اور بے عیب ہو۔ جبکہ خصی
جانور زیادہ پسندیدہ ہے۔ لنگڑا، اپاہج، کانا اور جسکا کوئی عضو مثلاََ کان
وغیرہ تیسرے حصہ سے زیادہ کٹا ہوا ہو، اس کی قربانی جائز نہیں۔
جس شہر میں نماز جمعہ و عید پڑھی جاتی ہے، قبل نماز کے قربانی نہ کرے۔ عید
کے روز قربانی کرنے تک کچھ نہ کھائے پیئے۔ قربانی کرکے وہ ہی گوشت کھائے،
یہ مستحب ہے۔ ذبح خود کرے یا کسی دوسرے مومن کو اجازت دے کر اپنے سامنے
کرائے، مگر اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔ اگر کوئی کسی اور کی طرف سے
قربانی کرے یا قربانی کا ثواب میت کو بخشے تو جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ
کی قربانی کے متعلق صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، اور مسند امام احمد میں حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک مینڈھا کی قربانی
کی اور عرض کیا:
ترجمہ: ’’اے اﷲ! میری طرف سے میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے
قبول فرما۔‘‘
جبکہ جامع ترمذی و صحیح ابو داؤد میں حضرت حنش رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
’’میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو قربانیاں دیتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ
آپ دو قربانیاں کیوں کررہے ہیں؟ تو فرمایا: رسول اﷲﷺ نے مجھے وصیت فرمائی
تھی کہ میں ایک قربانی آپکی طرف سے کیا کروں لہٰذا میں ایک قربانی آپکی طرف
سے کرتا ہوں.‘‘ حوالہ: ’’سنن ابو داؤد‘‘ کتاب الضحایا، باب الاضحیۃ من
المیت، حدیث نمبر 2408۔
قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ آپنے اور اہل و عیال کیلئے رکھے،
دوسرا رشتہ داروں میں، تیسرا مساکین و فقراء میں تقسیم کرے۔ جبکہ قربانی کے
گوشت یا کھال کو اجرت قصاب میں دینا جائز نہیں۔ ہاں کھال خود استعمال
کرسکتا ہے، موزہ بنوائے یا جائے نماز وغیرہ، اگر بیچے تو قیمت خود پر خرچ
نہیں کرسکتا بلکہ کسی مستحق کو دے دینا لازم ہے۔
قربانی دس، گیارہ، بارہ ذوالحج تک کی جاسکتی ہے۔ نویں تاریخ کی صبح کی نماز
کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیرات تشریق:
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر
وللّٰہ الحمد‘‘
تیرہویں تاریخ کی عصر کی نماز تک پانچ دن پڑھتے رہنا چاہئے۔ دسویں تاریخ کو
چاشت کے وقت نماز کیلئے عید گاہ جائیں اور جاتے آتے ہوئے باآواز بلند یہی
درج بالا تکبیر پڑھتے رہیں۔ اور جس راستہ سے جائیں واپسی اس کے سوا دوسرے
راستہ سے آنا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ کی کتاب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ، حدیث: 3118 میں ہے:
’’حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ کے صحابہ نے عرض
کیا: یارسول اﷲ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم
علیہ السلام کی سنت۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ان میں ہمیں کیا ملے گا؟
فرمایا: ہر بال کے عوض نیکی۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اون؟ تو آپ نے
فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض نیکی۔
جبکہ سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص دل کی خوشی سے اور ثواب پانے کی نیت سے قربانی کرے تو قربانی اس
شخص کیلئے آگ سے رکاوٹ بن جائیگی‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ’’قربانی کے جانوروں کو خوب پالو! کہ وہ پل صراط پر
تمہارے لیے سواری ہوں گے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے : ’’قیامت کے روز
قربانی ایک خوبصورت جانور کی شکل میں قبر پر کھڑی ہوگی اور قربانی دینے
والے کو اپنے اوپر سوار کرکے عرش معلی کے سایہ تلے پہنچائے گی‘‘
بہتر یہ ہے کہ خود ذبح کرے اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان
کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کیلئے کہے۔ اور بوقت ذبح خود موجود رہنا زیادہ
بہتر ہے۔ ذبح کرنے والے کیلئے تکبیر ذبح ’’ بسم اﷲ، اﷲ اکبر‘‘ کہنا لازم ہے
اور یہ کلمات کہنا مسنون ہے:
’’اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ
حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن․ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ
وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن․ لاَشَرِیْکَ لَہٗ
وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن․ اَللّٰھُمَّ لَکَ
وَمِنْکَ، بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ۔
مسئلہ : اونٹ کیلئے پانچ سال، گائے بھینس کے لیے دو سال، بکری کیلئے ایک
سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر عمر اس سے ایک دن بھی کم ہو تو قربانی جائز نہیں
ہوگی۔ بھیڑ بھی ایک سال کی ہونی چاہئے، لیکن اس میں یہ تخفیف فرما دی گئی
کہ چھ ماہ سے زیادہ عمر کی بھیڑ (بشرطیکہ اتنی صحتمند ہو کہ دیکھنے میں ایک
سال کی محسوس ہوتی ہو۔) اس کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ : اندھے، کانے، لنگڑے، نہایت لاغر، ایک تہائی سے زیادہ کان یا دم
کٹے، جس کا سینگ جڑ سے مع گودے کے ٹوٹ گیا ہو، جو جانور گندگی کھاتا ہو اور
اسکے جسم سے بدبو آتی ہو، جسکے نصف یا زیادہ دودھ والے اعضا سوکھ چکے ہوں،
جسکے زیادہ دانت نہ ہوں اور ناک کٹے کی قربانی جائز نہیں۔
مسئلہ :گائے، بھینس اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ چاہے سب
قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے
والے۔ لیکن کسی ایسے شخص کو شامل نہ کیا جائے جو بد مذہب ہو ورنہ کسی کی
بھی قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ : قربانی کی کھال کوباقی رکھتے ہوئے مصلی، مشکیزہ یا ڈول وغیرہ بنا
کرخود بھی استعمال کرسکتا ہے اور کسی کار خیر میں بھی دے سکتا ہے۔ لیکن
قربانی کی کھال کو بیچ دینے کی صورت میں اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
سکول، نالی، قبرستان، یا مسجد میں اسے خرچ نہ کیا جائے۔ ایسے ہی قربانی کی
کھال قصاب کو معاوضے میں نہ دے اور نہ ہی امام کو امامت کے صلہ میں دے۔
البتہ اگر امام مسجد ضرورت مند ہو تواس بناء پر دے سکتا ہے۔ نوٹ: اس پر فتن
دور میں چرم قربانی، زکوۃ وصدقات کا بہترین مصرف دینی مدارس کے طلبہ ہیں۔
اس میں دوہرا ثواب ہے، ایک صدقہ جاریہ کا اور دوسرا دین مصطفیﷺ کی خدمت اور
اشاعت وترویج کا۔
مسئلہ : کچھ لوگوں کا یہ وسوسہ کہ قربانی سے مویشیوں میں کمی آتی ہے درست
نہیں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن جانوروں کی قربانی نہیں کی جاتی، وہ
جانور کم ہیں لیکن قربانی والے جانوروں کی ہمیشہ بہتات رہتی ہے۔ دراصل جب
یہ جانور اﷲ کی محبت میں اﷲ کے نام پر قربانی کر دیے جاتے ہیں تو ان میں بے
پناہ برکت ڈال دی جاتی ہے۔
|
|