'عیدوگنپتی قومی یکجہتی کا امتحان'
(nazish huma qasmi, mumbai)
ہمیں بات یہ کرنی ہے کہ دونوں تیوہاروں کے یکجا ہونے کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر خوشیوں کو غم میں تبدیل کرنے کے طرح طرح کے حربے آزمائیں گے ہمیں افواہوں پر دھیان نہ دیتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔ فرقہ پرست عناصر طرح طرح کے افواہوں کے سہارا ایک دوسرے سے بدظن کرنے کے لئے راہیں ہموار کررہے ہیں۔ ہمیں آپسی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولس اور سیکوریٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہرممکن تعاون کرنا ہے تاکہ ان فرقہ پرست کے عزائم ناکام ہوجائیں اور ہمارے تیوہارخوشی ومسرت کے ساتھ گزر جائیں۔ افواہ اڑائی جارہی ہے کہ ملک میں پانچ سو کے قریب مسلح دہشت گرد داخل ہوئے ہیں جو گنپتی وسرجن کے وقت ہنگامہ کرسکتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی خوف میں مبتلا ہیں کہ پتہ نہیں کب آر ایس ایس اور دیگر شدت پسند ہندو تنظمیں مالیگائوں اور پربھنی جیسا واقعہ نماز عید کے دوران رونما کردیں۔ |
|
تیوہار کسی بھی مذاہب کے ہوں اس میں محض
خوشی کا ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ہر مذہب کے ماننے والے اپنا
اپنا تیوہار انتہائی خوشی اور دھوم دھام سے مناتے ہیں، خواہ مسلمانوں کی
عید الفطر ہو یا بقرعید یا برادران وطن کی گنپتی ہو یا ہولی اور دیوالی یا
پھر مذہب عیسائیت کے پیروکاروں کا کرسمس ہر ایک اپنے تیوہار کو اپنے مذہب
کے دائرہ میں رہ کر انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ملک عزیز میں برسوں
سے ایک دوسروں کے ساتھ رہتے آرہے ہندو مسلم نے اپنے اپنے تیوہاروں پر
ہمیشہ اتحاد و یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کا مظاہرہ پیش کیا ہے۔ ایک
دوسروں کو یاد رکھا ، آپس میں ایک دوسرے سے نیک خواہشات کا اظہار کرتے
رہے۔یہاں تک کہ تحفہ تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے ؛ لیکن گزشتہ چند
سالوں سے اس گنگا جمنی تہذیب کو کسی کی نظر لگ گئی۔ حالانکہ ایسا کوئی
ناخوشگوار واقعہ تو رونمانہیں ہوا؛ لیکن پھر بھی ہندو مسلم آپس میں ایک
دوسرے سے کٹتے اور نظریں چراتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ فی الحال کثیر
آبادی والے اپنے ملک عزیز میں دو بڑے تیوہار ایک ساتھ ہیں۔ ایک عیدالاضحی
جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی خوشی ومسرت کا دن ہے اور دوسرے برادران وطن کی
گنپتی جسے برادران وطن نہایت تزک واحتشام اور پورے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
پہلے بھی یہ تیوہار آتے رہے ہیں لیکن دونوں مذہب کے تیوہارکے یکجا ہونے کی
وجہ سے کچھ فکریں لاحق ہوگئی ہیں۔ کچھ خدشات اور انجانا خوف دلوں میں سمایا
ہوا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے ؛کیوں کہ ملک کے حالات پہلے جیسے نہیں
رہے۔ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت اور کجی پیدا ہوگئی ہے۔
حالانکہ اکثریت اس کجی اور نفرت کے خلاف ہے؛ لیکن شرپسند عناصروں کی تعداد
میں روز بروز اضافے اور ملک میں بھگواپسند حکومت کے برسراقتدار ہونے کی وجہ
سے عام شہری خوف میں مبتلا ہیں۔ دعا کررہے ہیں کہ ہمارا تیوہار خوشی وامن
کے ساتھ گزر جائے۔ ملک کی پولس بھی اس امن کوبرقرار رکھنے کیلیے دونوں مذہب
کے رہنمائوں کے ساتھ میٹنگ کر رہی ہے اور یہ رہنما بھی انہیں ہر ممکن تعاون
کی یقین دہانی کرا رہے ہیں اور انشاء اللہ ضرور دونوں تیوہار پرامن
گزرجائیں گے۔ لیکن وقتی طور پر خدشات لاحق ہیں کہ شرپسند عناصر اس خوشی کو
افسردگی میں نہ تبدیل کردیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نفرت کی خلیج مزید بڑھ
جائے گی۔ گنگا جمنی تہذیب تو ملک میں آئے دن رونما ہورہے واقعات سے ختم
ہوہی رہی ہے مزید خراب ہوجائے گی اور اس کا بھر پور فائدہ وہ شر پسند عناصر
اٹھا سکتے ہیں جو ہمیشہ سے اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جو عوام کے دلوں
میں دوری پیدا کرکے اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس موقع پر
ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے اپنے تیوہاروں کو خوشی وامن کے
ساتھ گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم نفرت سے
نہیں بلکہ آپس میں محبت سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ساتھ دیں گے۔ کسی
دبائو میں آکر نہیں؛ بلکہ خوشی سے جبھی ہم فرقہ پرستوں کے منہ پر کاری ضرب
لگا سکیں گے اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں بات
یہ کرنی ہے کہ دونوں تیوہاروں کے یکجا ہونے کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر
خوشیوں کو غم میں تبدیل کرنے کے طرح طرح کے حربے آزمائیں گے ہمیں افواہوں
پر دھیان نہ دیتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔ فرقہ پرست عناصر طرح طرح
کے افواہوں کے سہارا ایک دوسرے سے بدظن کرنے کے لئے راہیں ہموار کررہے ہیں۔
ہمیں آپسی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولس اور سیکوریٹی ایجنسیوں کے ساتھ
ہرممکن تعاون کرنا ہے تاکہ ان فرقہ پرست کے عزائم ناکام ہوجائیں اور ہمارے
تیوہارخوشی ومسرت کے ساتھ گزر جائیں۔ افواہ اڑائی جارہی ہے کہ ملک میں پانچ
سو کے قریب مسلح دہشت گرد داخل ہوئے ہیں جو گنپتی وسرجن کے وقت ہنگامہ
کرسکتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی خوف میں مبتلا ہیں کہ پتہ نہیں کب آر ایس
ایس اور دیگر شدت پسند ہندو تنظمیں مالیگائوں اور پربھنی جیسا واقعہ نماز
عید کے دوران رونما کردیں۔ مسلمانوں سے یہ بات عرض کرنی ہے کہ وہ اپنے
تیوہار کو حسب سابق منائیں لیکن چھری اور دیگر ذبح کے آلات کو نمائش کے
لئے نہیں بلکہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے استعمال کریں۔ ان تین ایام
میں خون آلود کپڑوں میں ملبوس ہوکر ٹرینوں اور دیگر عوامی جگہوں پر جانے
سے احتراز کریں۔کیوں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اس حالت میں رہنا پاکیزگی
کے خلاف ہے برادران وطن کو شاید یہ ناگوار بھی گزرے اور گزرنابھی چاہئے۔
کوئی آپ کے سامنے اس طرح کے کپڑوں میں ملبوس ہوکر آئے تو آپ بھی یقینا
ناک سکوڑنے پر مجبور ہوں گے لہذا مناسب بھی یہی ہے کہ ہر ممکن طریقے سے صاف
صفائی کا خیال رکھتے ہوئے تیوہار کو گزارنے کی کوشش کریں۔ قربانی کے بکروں
اور بھینسوں کی خون آلود تصاویر سوشیل میڈیا پر نہ شیئر کریں، ہوسکتا ہے
اس طرح سے غلط فہمی ہو اور نا م نہاد گئو رکشک والے بھینسوں کو گائے اور
بیل بنا کر پیش کرے اور ماحول خراب کردے۔ برادران وطن سے بھی یہ عرض کرناہے
کہ آپ بھی دل آزار نعرے لگانے والوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے پولس کو
انفارم کریں اور ان کے خلاف خود ہی معاملہ درج کروائیں؛کیو ں کہ اکثر دیکھا
گیا ہے گنپتی وسرجن کے وقت کچھ شرپسند عناصر ملک میں برسوں سے بسنے والے
مسلمانوں کے خلاف اپنی زبانیں آلودہ کرتے نظر آئے ہیں۔ اتنا یاد رکھیں یہ
ہندوستان جتناآپ کا ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارا ہے ہم نے لہو دے کر اسے
سینچا ہے اور آگے بھی اگر ضرورت پڑے گی تو ہم اسے خون جگر سے سینچنے میں
دریغ نہ کریں گے۔ ہم آر ایس ایس ا ور اس کی دیگر ہمنوا شد ت پسندتنظیموں
کے اراکین نہیں ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا
تھا، جب ہندوستان میں آزادی کی خاطر ہندو مسلم سب یکجا تھے، انگریزوں کا
ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا، ہندوستان کے اصل باشندے اپنی آزادی کی
خاطر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار تھے یہ وہ تنظیم تھی جو مجاہدین آزادی کو
دھوکہ دیکر انگریزوں کو گارڈ آف آنر پیش کررہے تھے جن کا جنگ آزادی میں
کوئی کردار نہیں رہا، کردار بھی ادا کیا تو ایسا کہ باپو کو اس دنیا سے
رخصت کرکے ابتدا میں ہی امن کے پیغام کو ڈھاکر اپنی اوقات بتادیا تھا، تمام
برادران وطن سے قوی امید ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور ان شر پسند عناصر کی
فتنہ انگیزی کو سمجھیں اور انہیں یہ بتادیں کہ ہم آج بھی ایک ہیں، ہم محبت
کے خوگر ہیں نفرت کی تجارت ہم سے کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
|
|