ڈاکٹر طاہرا لقادری کیاکہتے ہیں۔۔؟؟

آج میں نےاپنے کالم کا عنوان علامہ طاہر القادری کے بیانات کی روشنی میں پاکستان کی سیاسی صورتحال پر روشنی ڈالنےکی کوشش کرونگا۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ آرمی چیف کا خطاب پوری قوم کیلئے انتہائی توجہ کا متقاضی ہے ،سنگین جرائم ،کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ نہ ٹوٹا تو آپریشن ضرب عضب کے ثمرات اور اثرات برقرار نہیں رہ سکیں گے ، خطرات ختم نہیں ہوئے بیرونی خطرات تو واضح ہوئے جبکہ اندرونی خطرات یہ ہیں جرائم کی سرپرستی اور دہشتگردی کو فروغ دینے والے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں ،جو نیشنل ایکشن پلان تھا اسکی روح کے مطابق عمل نہیں ہونے دے رہے،انہوں نے کہاکہ آپریشن ضرب عضب ختم ہوا تو بچے کچھے دہشتگرد پھر اکٹھے ہوں گے جب تک دہشتگردی کی جڑوں کو نہیں کاٹا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو گی ۔آپریشن ضرب عضب کو کامیابی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانے والے سو چیں پنجاب میں رینجرز کو آپریشن کیوں نہیں کرنے دیا جا رہا ،دہشتگردوں کو جب کہیں جگہ نہیں ملتی تو وہ پنجاب میں آ کر چھپ جاتے ہیں ،پنجاب میں رینجرز کو آپریشن اس لئے نہیں کرنے دیا جا رہا کہ دہشتگرد پکڑے گئے تو وزراء سے ہوتا ہوا نواز شریف اور شہباز شریف کے در دولت تک جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کی ایجنسیوں کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلائے جانے کے متعلق آرمی چیف نے اپنے خطاب میں جو نشاندہی کی ہے وہ لمحہ فکریہ ہے،کیونکہ پانچ ستمبر کو ایک بار پھر حکومتی سینیٹرز نے سانحہ کوئٹہ کا ذمہ دار ملکی سلامتی کی محافظ ایجنسیوں کو ٹھہرایا ہے ،سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے انتہائی اہم بحث کے موقع پر کوئی حکومتی وزیر ایوان میں موجود نہیں تھا ، حکومتی ایوانوں سے مسلسل قومی سلامتی کے اداروں پر حملے ہو رہے ہیں،حکمران پاک فوج کو اپنی آنکھ کا کانٹا سمجھتے ہیں ،آرمی چیف دہشتگردی کے اسباب بننے والے عناصر کے خلاف بھی آپریشن کا آغاز کریں۔انہوں نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کا نام سندھ یا کراچی ایکشن پلان نہیں ہے اگر یہ قومی ایکشن پلان ہے تو اس کے تحت پنجاب میں بھی فی الفور آپریشن کیا جائے ،دوسری جانب کرپٹ سیاست دانوں پر الزامات کی روشن دلیل ہمیں قومی احتساب بیورو کی اُس رپورٹ سے بھی ملتی ہے جس میں ڈاکٹر طاہر القادری نے الزامات لگائے تھے!!قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے سن دوہزار چھ میں ملک میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سےاپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اُن سیاستدانوں اور ان کی شوگر ملوں کے نام اور ان ملوں میں اس وقت کی گئی بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے معلومات پیش کی تھیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف ، وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف اورپرویز مشرف کی حمائتی جماعت پاکستان مسلم لیگ قاف کے صدر اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین بھی شامل تھے۔ نیب کی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ سیاست دان نے جو مختلف شوگر ملوں کے مالکان بھی ہیں قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چینی کی ذخیرہ اندوزی کی تھی، چینی کی سب سے زیادہ ذخیرہ اندوزی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر خان اور اُن کے خاندان نے کی تھی جوننانوے ہزار چار سو چونسٹھ میٹرک ٹن تھی،ہمایوں اختر اُن کے بھائی سینیٹر ہارون اختر اور اُن کے رشتہ دار شمیم کی چار شوگر ملیں ہیں جن میں کمالیہ شوگر ملز، تاندلیانوالا شوگر ملز، والہ میران شوگر ملز، اور لیہ شوگر ملز شامل ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف، اُن کے بھائی وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف اور اُن کے ایک رشتہ دار کی چار شوگر ملیں ہیں جنہوں نے مجموعی طور پراٹھہتر ہزار نو سو بیانوے میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی، ان شوگر ملوں میں حمزہ شوگر ملز،ایچ وقاص شوگر ملز، رمضان شوگر ملز اور شریف برادران کے رشتہ دار کی اتفاق شوگر ملز ہے،سابق صدر آصف علی زرداری تین شوگر ملوں کے مالک ہیں جنہوں نے پندرہ ہزار چار سو پینسٹھ میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی، ان کی شوگر ملوں کے نام انصاری شوگر ملز، سکرنڈ شوگر ملز اور پنجریو شوگر ملز بھی شامل ہیں،سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین پنجاب شوگر ملز کے مالک ہیں جنہوں نے پانچ ہزار چار سو انسٹھ میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی،سابق وفاقی وزیر جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کے مالک ہیں جنہوں نے چھیالیس ہزار نو سو بیس میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر پتوکی شوگر ملز کے مالک ہیں جنہوں نے چار ہزار آٹھ سو اسی میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی،پاکستان مسلم لیگ قاف سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی نصراللہ دریشک انڈس شوگر ملز کے مالک ہیں جنہوں نے بیس ہزار دو سو اٹھاسی میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی اس کے علاوہ اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی انور چیمہ نیشنل شوگر ملز کے مالک ہیں اور انہوں نےایک ہزار پانچ سو پچھہتر میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کی تھی۔رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 اور 2004 میں ترپپن ملین میٹرک ٹن گنا کاشت ہوا اورچارملین میٹرک ٹن چینی کی پیداوار ہوئی، سن 2004 اور 2005 میںسینتالیس ملین میٹرک ٹن گنا کاشت کیا گیا اورتین اعشاریہ ایک ملین میٹرک ٹن چینی کی پیدوار ہوئی، سن 2005 اور 2006 میںاکتالیس ملین میٹرک ٹن گنا کاشت کیا گیا جبکہ چینی کی پیدوار صرف دو اعشاریہ چار ملین ہوئی جبکہ اُس سال چینی کی مانگ تین اعشاریہ آٹھ ملین تھی گنے کی پیداور میں کمی اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہواتھا۔یہ تو صرف ایک رپورٹ اپنے قائرین کے سامنے پیش کی ہے اس طرح کی ہزاروں نہیں لاکھوں کرپشن ہمارے ملک کے اشرفیہ نے بے خوف ہوکر کیا ہے اور کر رہے ہیں ، عدالتوں اور تھانوں کے ناقص نظام سے پاکستان میں ہر کوئی مجرم آزاد رہتا ہے اور ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ شریف النفس انسان بے جا تھانوں اور عدالتوں کی ذلت کو برداشت کرتے ہیں ۔علامہ طاہرا لقادری بار بار چلا کر شور مچا کر ان بڑے بڑے چوروں، ڈاکوؤں کی نشادہی کررہے ہیں مگر نہ عوام ان کی بات پر توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی کے ادارے حرکت میں آرہے ہیں گویا جیسےسب کے سب بیہوش ہوگئے ہوں، ڈر اس بات کا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کی سلامتی کو بہت بڑا نا تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا جس کی ذمہ داری نہ صرف عوام کی ہوگی بلکہ تمام ادارے بری ذمہ نہیں ہونگے۔۔۔!! علامہ طاہرا لقادری نے آج پریس کانفرنس کی، ان کے مطابق یہ پریس کانفرنس انکی زندگی کی چندایک اہم پریس کانفرنس میں سےہے،علامہ طاہرالقادری نے کہا کہ آج سنگل پوائنٹ پریس کانفرنس ہے، کیا قوم اورقومی ادارے پاکستان کوبچاناچاہتے۔۔؟؟؟پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اختتام پرنہایت اہم بات کرونگا،آج کی پریس کانفرنس ایک نکاتی ایجنڈے پرمشتمل ہے،کیا قومی ادارے ملک کو بچانا چاہتے ہیں یا نہیں،بھارت اور پاکستان کے شہری جس شہرجائیں گے، پولیس کورپورٹ کرینگے،بھارتی شہری کہاں آرہے ہیں کہاں جارہے ہیں کسی کوکچھ پتہ نہیں،انھوں نے کہا کہ بھارتی شہریوں کاویزا پاکستانی قوانین معطل کرکے لگایا جاتا ہے،شریف برادران کی شوگرملوں میں جن کوبلایاجاتا ہے انکی کلیئرنس مطلوب نہیں، دہلی میں عملے کو ہدایت ہے صرف اسٹمپ کردیں، واہگہ بارڈر کا عملہ بھی بھارتی شہریوں کا سامان چیک نہیں کرسکتا،بھارتی شہریوں کو پروٹوکول کے ساتھ لایا جاتا ہے،قوم گواہ ہے شریف برادران نے میری بات کی تردید نہیں کی،شریف برادران نے خاموش رہ کر میری بات کو تسلیم کرلیا،آج پہلی قسط کے طور پرپچاس بھارتی شہریوں کے نام دے رہاہوں،بھارتی شہریوں کو انجینئرز،ویلڈر، مکینیکل کے طورپربلایاجاتا ہے،آئی ٹی ماہرین، ٹیکنیشن کے نام پرلوگوں کوبلایا جارہا ہے، حکمرانوں میں میری بات کی تردید کرنے کی جرات نہیں ہے، باقیوں کیلئے پابندی ہے توحکمران خاندان بھارتی شہری کیسے بلاسکتے ہیں،پہلی قسط کے طور پر پچاس بھارتی شہریوں کے نام دے رہا ہوں اورپاکستان آنے والے بھارتی شہریوں کے پاسپورٹ نمبرپردے رہا ہوں،تصدیق اس وقت ہوگی جب شریف خاندان کو گرفتارکرلیا جائے،بھارتی شہری شریف خاندان کی شوگرملوں میں کام کرتے ہیں،بھارتی شہری اہم اسائنمنٹ پر پاکستان میں لائے گئے،بھارتی شہریوں کوپاکستان لانے کیلئے دہلی ہائی کمیشن میں لیٹرجاتا ہے،بھارتی شہریوں کو کراچی تک کا ویزا دلایا جاتا ہے، بھارتی شہریوں کوبلانے کے لئے رمضان شوگرمل کالیٹرجاتا ہے،مختلف کمپنیوں کے نام پر بھارتی شہریوں کوپاکستان بلایاجاتا ہے،گرین سول پاور کمپنی کے نام پر لوگوں کو بلایا گیا ،لیٹرمیں لکھا گیا ہمارادوسال کیلئے کنٹریکٹ ہے،ہم بجلی پیداکررہے ہیں،کیا پاکستان میں ان کیٹیگریز کے ملازمین موجود نہیں ہیں،ڈاکٹرطاہرالقادری نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے ماتھے پر بھی جاسوس نہیں لکھا ہوا تھا ،اگر بھارتی شہری جاسوس نہیں تو ان کی چیکنگ کیوں روکی جارہی ہے،پاکستانی اداروں کو اس سہولت کا نوٹس لینا چاہئے، وفاقی حکومت نے خاموش رہ کر میری باتیں تسلیم کرلیں، شریف خاندان کی شوگرملوں میں کسی کوجانے کی اجازت نہیں،جوبات میں کررہاہوں وہ پارلیمنٹ،اداروں کوکرنی چاہئے تھی،اگرحکمران خاندان کے لئے استثنیٰ ہے توپھرسب کیلئے ہونی چاہئے،واضح طور پر بلوچستان کو توڑنے کی سازش ہورہی ہے، ملک میں سانحات ہورہے ہیں، فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے،ہر دہشت گردی میں ہمسایہ ملک کا ہاتھ نکلتا ہے، حکمران خاندان بھارتی شہریوں کو درآمد کررہا ہے، بعض لیڈرایجنسیوں کے پیرول پر اسمبلی میں بیٹھے ہیں،حکمران خاندان براہ راست سازش میں ملوث ہے، ہمارے الزامات کا جواب وزیراعظم پارلیمنٹ کے فلور پر دیں،وہ کہہ دیں میری باتیں غلط ہیں تو قوم کے سامنے معذرت کروں گا،بھارتی شہریوں کے ریکاڈ کی پوری ٹریول ہسٹری چیک کی جائے،ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب، اسٹیٹ بینک ان کے ماتحت ہے،ان کے دوراقتدار میں کسی ادارے کے پاس اختیار نہیں ہے،پنجاب کا وزیراعلیٰ صوبے میں آپریشن کی اجازت رد کردیتا ہے،پنجاب میں آپریشن کیوں نہیں ہورہا ہے، پنجاب کےپچیس شہروں میں آپریشن کریں،دو سودہشت گرداٹھالیں،دہشت گردوں کوپکڑیں لنک سلطنت شریفہ کا نکلے گا،پنجاب میں فوج اور رینجرز آپریشن کرے، دہشت گرد اور جاسوس حکمرانوں کی ملوں سے نکلتے ہیں،فیصلہ کرنا ہوگا پاکستان چاہئے یا حکمران خاندان،شریف خاندان کی ملوں سے دہشت گردی کا نیٹ ورک نکلے گا،سن دو ہزار تیرہ کےبعدچار سو سترارب روپے پاکستان سے بھارت گئے،حکمرانوں اور ان کے وزرا کو فوری طور پرگرفتارکیاجائے، ان کوگرفتار نہ کیا تو سارے ریکارڈ جل جائیں گے،جس معاملے کی تفتیش کاخطرہ ہوتا ہے اس کاریکارڈ جل جاتا ہے ابھی ان کی پریس کانفرنس ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ رمضان شوگر ملز کے ریکارڈ آفس میں آگ بھڑک اٹھی جس سے تمام ریکارڈ خاکستر ہوگیااور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا شک حقیقت میں بدل گیا۔

معزز قائرین!! میرے صحافی برادری کے دوست اکثر مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے نالاں ہوں اور کسی ایک پر بھی اعتبار نہیں کرتا کہ وہ خالصتاً پاکستان اور عوام کی خدمت کرتے ہیں میرے نزدیک یہاں ملکی خزانے کو لوٹنے، ملکی دولت کا زیاں کرنے کے علاوہ ان سب کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں!!سیاسی جماعتوں کے منشورہوںصرف اور صرف کاغزات کی خانہ پوری کیلئے ہوتے ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کا اگر احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے صرف اپنے دور میں آمر حکومتوں کو برا بھلا کہا اور خود ان سے کہیں زیادہ لوٹنے میں لگے رہے،پاکستان کی دولت کو غیروں کی جھولی میں ڈال کر اچھے غلام بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، یہ نہ صرف ظالم ہیں بلکہ قاتل بھی۔۔!! کہیں اقتدار کیلئے ایک دوسرے کا قتل کیا جاتا رہا ہے تو کہیں دولت کی ہوس کو پورا کرنے کیلئے کرائے کے قاتل لیئے جاتے رہے ہیں اور اپنے ان مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے اداروں کی بربادی اس طرح کی کہ تمام قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من پسند نا اہل لوگوں کو اہم ترین منصب پر فائز کردیا گیا ہےاور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے!! پاک فوج کو اب صرف اپنی عزت و وقار کی فکر ہے وہ پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات، عدم سیکیورٹی کی صورتحال،لاقانونیت پر چپ سادھ لی ہے۔!! عوام پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقائے کار سے سوال کرتی ہے کہ کیا پاک فوج پاکستان کو تباہ و برباد ہوتا دیکھی گی؟؟ کیا ہماری خفیہ ایجنسیاں جن میں آئی بی، آئی ایس آئی ہمارے درمیان دشمنان پاکستان کے خفیہ اداروں کے کارندوں کی موجودگی پر خاموش رہے گی؟؟ کیا اس ملک کاوزیراعظم سمیت دیگروزرا کی منفی کاروائیوں پر ملکی حساس ادارے تکتے رہیں گے ؟؟پاکستان کے خلاف منتخب یا غیر منتخب لوگوں کا محاسبہ نہیں کیا جائیگا؟؟ تو پھر ہم کہاں جارہے ہیں !! مہنگائی کے پہاڑ تلے تو دبے ہوئے ہی تھے اور اب ان ظالم سیاست دانوں کے ہاتھوں عوام زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں، اب ہمارا پاکستانی معاشرے کیا ہوگیا ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں خود کشی، بہرہ روی، زناکاری، لوٹ مار، قتل و غارت گری،ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت، کرپشن، بدعنوانی جیسے موذی معاشرتی امراض انتہا کو پہنچ چکے ہیں یہ تمام امراض سیاست دانوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔۔!! اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اندرونی و بیرونی سازشوں سے آمین ثما آمین۔۔۔۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! !
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.