قربانی ایک مستقل واجب عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی،
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین، تابعین کرام تبع تابعین
آئمہ مجتہدین واسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ غرض پوری امت متوارث و مسلسل عمل
بھی قربانی کرنے کا ہے آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص
سمجھا ہے اور نہ ہی صدقہ و خیرات کو اس کے قائم مقام قرار دیا ہے-
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ ہم نے(جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت
کیلئے قربانی کرنا اس غرض کیلئے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپاؤں پر
اللہ کا نام لیں جو اس نے انکو عطا فرمائے تھے‘‘ (القرآن) اور فرمایا’’ہم
نے ہر امت کیلئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا
کرتے تھے’’(سورہ حج آیت نمبر ۶۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ
منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی حالانکہ حج آپ نے صرف آخری
سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ مکرمہ کے
ساتھ ورنہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں ۹ سال قربانی کیوں فرماتے؟
صحا بہ کرامؓ نے نبی پاکﷺ سے سوال کیا کہ یہ قربانی
کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب
ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی،
مسند احمد، الترغیب والترھیب)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں
قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ
میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۱۲۳، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی، حاکم ۲/۹۸۳)
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے
فاطمہ! جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ
گرے گاتمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے
خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور پھر اسے ستر گنا (بھاری
کرکے)تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابوسعید الخدریؓ نے عرض کیا کہ
یا رسول اللہ! کیا یہ (فضیلت) آل محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہے یا آل محمد ﷺ اور
تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ فضیلت آل محمد کے
لئے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے۔
قربانی کرنے کی فضیلت:
امّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ذی
الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون
بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا
اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ (اور یہ چیزیں
اجروثواب کا سبب بنیں گی)۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے
پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہذا تم خوش دلی کے
ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی ۱/ابن ماجہ)
قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا:
عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور،
ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک
نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو،
کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
بھینس کی قربانی کا حکم:
جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس پر بھی قربانی کی
جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک
ہوسکتے ہیں۔
خود قربانی کرنا افضل ہے:
نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا
خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے، جیساکہ حدیث میں
گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر
حاضررہنے کو فرمایا۔
قربانی کا گوشت:
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں
اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماء کرام نے بعض آثار کی وجہ سے
تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے
لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین کے لئے،
لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں بلکہ مستحب ہیں اگر فیملی بڑی ہو
اور سارا گوشت خود ہی رکھ لیا جائے تو جائز ہے۔ |