مرزا غلام احمد قادیانی 1835 ءمیں متحدہ
ہندوستان میں گورداسپور کے قصبہ قادیان میں پیدا ہوا 1889ءمیں مرزا نے
اعلان کیا کہ اس پہ وحی نازل ہوتی ہے اور لوگوں سے بیعت لینے کا کہا گیا ہے
1891ءمیں مسیح موعود ھونے کا دعوی کیا اور اسکے ساتھ ہی راسخ العقیدہ
مسلمانوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سلسلہ شروع ہوگیا1908میں یہ جھوٹا
مدعئی نبوت کاینات کی غلیظ ترین جگہ یعنی بیت الخلاء میں اپنے بدترین انجام
کو پہنچامگر فتنہ قادیانیت جڑ پکڑ چکا تھا یہ پہلا موقع نہ تھا جب اس
خاندان کا خبث باطن سامنے آیا تھا اس سے پہلے 1857کی جنگ آزادی میں مرزا کا
خاندان کھل کر انگریز وں کےساتھ اپنی وفاداری کا اظہارکر چکا تھا اپنے ہم
وطنوں سے غداری کے صلے میں انگریزجنرل نکولسن مرزا کے بھائی مرزا غلام قادر
کو سند اور جاگیر سے نواز چکا تھا برطانوی سرکار سے وفاداری قادیانیوں کا
ابتداء سے دورحاضر تک خاصہ رہی ہے بدلے میں برطانوی سرکار نے ہمیشہ ان کی
سرپرستی کی بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ قادیانی فتنہ درحقیقت
انگریزوں کی ناجایز اولاد ہے جس نے اسلام کے لبادے میں گھس کر عالم اسلام
کو نقصان پہنچانا چاہامحسن کاینات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب
العالمین نے ساری دنیا کے لیے رحمت اور ہدایت کا زریعہ بنا کے بھیجا تاکہ
آپ بھٹکی ہویی انسانیت کو صحیح راہ پہ لا سکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
آخری نبی ہیں آپ کے بعد کویی نبی نہی آپ کی اطاعت کرنے والے ہر شخص کے لیے
اس بات پہ ایمان رکھنا ضروری ہے کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی
نہیں ہے جو اس عقیدہ ختم نبوت پہ یقین نہیں رکھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق
نہیں خواہ وہ شخص یا جماعت کسی بھی نام سے ہو فتنہ قادیانیت کی داغ بیل
برطانوی سرکار نے درحقیقت اسلام کا تشخص بگاڑنے کے لیے ڈالی ایسے میں علماء
امت نے یکجاء اور متحد ہو کر اس فتنے کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی قیام
پاکستان کے بعد قادیانی پہلے دن سے اس نوزایدہ ریاست کو نقصان پہنچانے کی
تگ ودو میں تھے تاہم علماء حق اورکچھ بابصیرت سیاستدان بھی اس بات سےاچھی
طرح آگاہ تھے قیام پاکستان کے ساتھ ہی قادیانیوں کے خلاف انہیں غیرمسلم
اقلیت قرار دینے کے لیے زبردست تحریک کا آغاز کر دیا گیا تھا-
1953ءتحریک ختم نبوت کےحوالے سے بہت اہم ہےاس سال باقاعدہ تحریک تحفظ ختم
نبوت کا آغاز کیا گیا جس میں بلا تفریق مسلک تمام مسالک کے علماء کرام نے
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قربانیاں دیں 22 مئی 1974ءکو نشتر میڈیکل کالج
ملتان کے طلبہ چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ
ربوہ ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ غیور
طلباء کے منع کرنےپرجھگڑا ہوا ۔جس پر طلبہ نے مشتعل ہو کر ختم نبوت زندہ
باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر 29 مئی کو طلبہ کی گاڑی زبردستی ربوہ ریلوے
سٹیشن پر روک لی گئی ، مرزا طاہرقادیانی کی قیادت میں سینکڑوں مسلح افرادنے
لاٹھیوں‘ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے نہتے طلبہ کو شدید زخمی
کردیا۔یہ واقعہ جلتی پہ تیل ڈالنے کے مصداق ثابت ہوا اِس واقعہ کا پورے ملک
میں زبردست ردِعمل شروع ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف
شہروں میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور
پکڑتا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔ واقعہ کے رد عمل
میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل دے دی گئی ۔30 جون
1974ءکو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے
متفقہ طور پر ایک قرارداد پیش کی گئی جبکہ چوالیس ممبران قومی اسمبلی کے
دستخطوں سے پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل بھی
پیش کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع
ہوئی تو قادیانی رہنماءمرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلا کر اُن
پر جرح کی گئی۔ ایوان میں طویل بحث کے بعدآخرکارقومی اسمبلی نے قادیانیوں
کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے متفقہ طور پر وزیر قانون عبدالحفیظ پیر
زادہ کے ذریعے آئینی ترمیم پیش کی اسلام کے نام پہ حاصل کیے گیے اس پاک وطن
کو اللہ تعالی نے یہ شرف عطا کیا کہ عالم اسلام کے جزبات کی ترجمانی
کرتےہوے علماء کرام اور عوام کی پرزور کوششوں اور قربانیوں سے منتخب
نمایندوں نے پرامن طریقے سے اس فتنے کی سرکوبی کی ۔7ستمبر 1974 کے مبارک دن
شام 4بجے اس کا فیصلہ کن اجلاس شروع ہوا اور ،4 بجکر 35 ، منٹ پر ملک کے
منتخب ادارے کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ۔جس کی رو سے
یہ خود کو مسلمان نہیں کہلا سکتے قادیانی آج بھی کسی بھیڑئیے کی طرح چھپ کر
اسلام اور پاکستان کے درپے آزار ے ہیں یہودی اور قادیانی دنیا کے کسی بھی
گوشے سے تعلق رکھتا ہو ا سے اسلام اور پاکستان سے شدید نفرت ورثے میں ملتی
ہے- |