,زمانہ طالبعلمی نے عمران خان بطور کرکٹر
میرا آئیڈیل ہو کرتے تھے،مجھے یاد ہے میں نے اپنے کمرے میں ایک پوٹریٹ
عمران خان کا لگا رکھا تھا،1992کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان کی
مقبولیت کاگراف اور بھی بڑھ گیا،اور وہ بہت بڑا سٹار بن گئے،کرکٹ کے دوران
اور کرکٹ سے علیحدگی کے بعد متعدد بار عمران خان سے صحافیوں نے پوچھا کیا
آپ سیاست میں آئینگے یا نہیں،تو انکا جواب نفی میں ہوا کرتا تھا،خصوصاََ
مجھے انکا مجیب الرحمن شامی کے میگزین ’’زندگی‘‘کو دیے گئے انٹرویو کی خاص
بات ابھی بھی یاد ہے،کہ سیاست ایک گند ہے اور میں اس گند میں نہیں پڑنا
چاہتا،مگر پھر باقاعدہ اپنی جماعت بنائی،اور اسی گند کا حصہ بن گئے،جس سے
وہ نفرت کرتے تھے،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس گند کو انہوں
نے مزید گندا کر دیا،میری بطور کالم نویس عمران خان سے دو ،تین ملاقاتیں
ہوئیں،عمران خان اور طاہر القادری کو اﷲ کی ذات نے سنہری موقع دیا تھا،مگر
یہ دونوں سیاسی کزن اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے،1988کے عام انتخابات میں اگر
قادری کے جلسے جلوس دیکھیں،تو حیرت ہوتی تھی مگر اکثر حلقوں سے ضمانتیں ضبط
ہو گئیں،اسی طرح 2013کے الیکشن میں اگر عمران خان کے الیکشن مہم دیکھیں یا
پھر انکے انتخابی جلسوں کو دیکھیں اور پھر نتائج کو دیکھیں تو حیرت کی
انتہا ہو گی یہی حال جماعت اسلامی کا ہے جلسے بڑے بڑے مگر سیٹیں نہ ہونے کے
برابر ہے عمران اگر واقعاتاََ نئی ٹیم رکھتے بلکہ ایسی نئی ٹیم کہ جس نے
پہلے کوئی میچ نہ کھیلا ہو تو وہ یقینا انکو اچھے نتائج دے سکتی تھی،مگر
انہوں نے پھر استعمال شدہ مہرے لینا شروع کر دیے،ایسے لوگوں کو ٹیم میں
شامل کر لیا جن پر عوام کے بہت اعتراضات تھے،عوام سوچ میں پڑ گئی،کہ عمران
خان کی تحریک انصاف اور باقی جماعتوں میں کیا فرق رہ گیا ہے سو ایک سنہری
موقع ضائع کر دیا۔2013کے عام انتخابات کے نتائج اگر قبول نہیں کرنا تھے تو
پھر اسمبلیوں میں حلف ہی نہیں لینا تھا،صوبائی حکومت بھی بنا لی،مگر پھر
دھاندلی کا شور شرابا شروع کر دیا اگر سارا دھیان اپنی خیبر پختون خواہ
حکومت پر کرتے تو شاید لوگوں کی سوچ بدل سکتی تھی،مگر خیبر پختون خواہ میں
زرا برابر بھی تبدیلی نظر نہ آئی،عمران خان کو سب سے زیادہ نقصان یوٹرن اور
VIPپروٹوکول نے دیا۔ان دونوں چیزوں سے عمران خان کو دور رہنا چاہیے تھا،وہ
باتیں کرتے ہیں گورڈن براؤن کی ،مثالیں ترقیاتی یافتہ ممالک کی دیتے
ہے،پارلیمنٹ میں سائیکل پر جانے والوں کی مثالیں دیتے ہیں، اور خود اس
انداز میں سفر کرتے ہے جیسے وہ حکومت کے سربراہ ہو،کئی درجن گاڑیوں کا جلوس
لیکر سارے ٹریفک نظام کو درہم برہم کر کے وہ VIPپروٹوکول کے ساتھ وہ سفر
کرتے ہیں، اور انکے زیر استعمال ہیلی کپٹر اس طرح ہوتا ہے جیسے عام آدمی
موٹرسائیکل استعمال کرتا ہو۔صبح جو بیان دیتے ہے شام کو اس سے ہٹ کر بیان
آجاتا ہے،35پنگچر کی بات کریں یا سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی
دھاندلی کی بات کریں ،الطاف حسین کو لندن کی عدالتوں میں گھسیٹنے کی بات
کریں،یا وزیراعظم کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جاؤنگا کی بات کریں
،امپائر انگلی اٹھائے گا کی بات کریں،یا پارلیمنٹ کو غلیظ زبان میں تنقید
کی بات کریں،سول نافرمانی کی بات کریں،یا ہونڈی کے زریعے بیرونی ملک
پاکستانیوں کو رقوم پاکستان بھیجنے کے سبق کی بات کریں،جس پارلیمنٹ سے
استعفے دے دیے پھر اسی پارلیمنٹ میں جانے کی بات کریں،کس کس یو ٹرن کی بات
کریں،بے شمار ایسی باتیں ہے جو کہ انہوں نے کیں،اور پھر یوٹرن لے لیا،اب
ایک بار پھر رائیونڈ جانے کی بات کر رہے ہیں اور رائے ونڈ میں رہتا کون ہے
جو کہ 20کروڑ پاکستانیوں کی آواز اور اعتماد کا مظہر یعنی میاں محمد نواز
شریف وزیر اعظم پاکستان ۔یاد رہے یہی وہی نواز شریف ہیں،جنہوں نے مشرف کی
آمریت کے دور میں لاہور سے نکلے اور پھر ابھی گجرانوالہ ہی پہنچے تھے کہ
تمام ججز بحال ہو گئے اور انکی تاریخی لانگ مارچ کو ہمیشہ یاد رکھا
جائیگا۔یہ پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے سربراہ ہے ،کیا انکے
پاس یوتھ فورس نہیں ہے؟ کیا انہوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہے،اگر عمران خان
بطور ایک پارلیمانی پارٹی کے چیئرمین اس طرح کے بیانات دینگے،تو پھر بات
دور تک جائیگی۔کیا بنی گالہ کا راستہ کسی نہیں آتا،اگر شریف برادران شرافت
کی سیاست کر رہے ہیں تو انکو کرنے دیں، ورنہ انکے پاس جانثاروں کی کمی نہیں
ہے۔اگر خان صاحب آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو آپ پارلیمنٹ سے رجوع کر سکتے
ہیں،آپ ہر مسئلے کو سڑکوں پر ہی حل کیوں کرنا چاہتے ہے،اب جب پاکستان ترقی
کی شاہراہ پر لگ چکا ہے،حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں ،عالمی سرمایہ کار
پاکستان کی طرف رجوع کر رہے ہیں،سی پیک پر کام شروع ہو چکا ہے امن و امان
کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے،کراچی ظالموں سے آزاد ہو چکا ہے،تو پھر اس تمام
تر اچھے ماحول میں رخنہ کیوں ڈال رہے ہیں ،آخر آپ چاہتے کیا ہیں،آپ اپنے
صوبے پر دھیان دیں،2018ء کے الیکشن کی تیاری کریں،اپنی جماعت کو مضبوط کرے
اپنی جماعت کے اندرونی اختلافات کو ختم کریں،آپ کو ضمنی الیکشن کی شکست اور
کشمیر میں شکست سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔مگر افسوس صد افسوس کہ آپ ایسا
نہیں کر پائے،آخر آپ کی قائدانہ صلاحیتیں کس قسم کا پاکستان چاہتی ہے جس
میں ہر کوئی ایک دوسرے کے دست گریباں ہو،گالی گلوچ ،بے ہودگی اور لوگوں کے
گھروں میں پتھر پھینکنے ۔۔۔آخر آپ کس طرح کا ماحول چاہتے ہے،خان صاحب ہوش
کے ناخن لیں۔میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر دھرنے کے دوران حکومت کے چھ
ماہ ضائع نہ کیے جاتے ،روزانہ یہ احتجاجی ریلیاں،جلسے جلوس،توڑپھوڑ نہ کی
جاتی تو آج پاکستان اس سے زیادہ ترقی کی راہ پر ہوتا۔مگر آپ نے گزرے ہوئے
لمحات سے کچھ بھی نہیں سیکھا ،آپ ہر مسئلے کو احتجاج کے ذریعے حل کرنا
چاہتے ہے جبکہ آپ کو اﷲ نے پارلیمنٹ میں بولنے کا موقع دیا ہے،آپ وہاں اپنا
موقف پیش کر کے اپنی بات منوا سکتے ہیں،اگر آج حکومت اور اپوزیشن مل کر
پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کریں تو یقینا پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے،وہ
دشمن کہ جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں
ڈالنا چاہتے ہیں،اور جو نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے۔آپ کو پاکستان کے
دشمنوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے،جبکہ آپ ہر وقت اپنی توانائیاں حکومت
پاکستان کے خلاف لگا کر ضائع کر رہے ہیں،جس کو عوام نے پانچ سال کے لیے
منتخب کیا ہے ،اور 2018 ء کے الیکشن میں عوام نے ایک بار پھر فیصلہ دینا
ہے،اگر آپ کا موقف درست ہوا ،اور عوام نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا تو پھر
یقینا آپ کا دیرنہ خواب پورا ہو گا،یعنی آپ بھی وزیر اعظم پاکستان بن
جائینگے،لیکن فیصلہ بہر حال عوام نے کرنا ہے،عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار
حاصل ہے،لیکن اس طرح لوگوں کی رہائش گاہوں پر حملے کرنے کا اعلان کرنا کسی
طرح بھی دانشمندانہ نہیں۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو |