نبی رحمت ﷺ کے در پر

میں مسجد نبوی ﷺ کے با غیچہ جنت (ریا ض الجنہ ) میں نشے سرور میں غرق لطف و سرشاری کی بلندیوں کو چھو رہا تھا طاقتور ائر کنڈیشنڈ نرم گداز مخملی قالین اور برقی قمقموں نے ماحول کو اور خوبصورت اور آرام دہ بنا دیا تھا میں معصوم بچے کی طرح حیران خو شگوار حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا میرا جسم و دل و دماغ خاص ایما نی کیفیت میں جکڑا ہوا تھا میرے با طن کے نہاں خا نوں میں نور روشنی اور سرشاری کے سینکڑوں فوارے پھوٹے پڑے تھے میری نس نس میں مستی اور کیف انگیز لہریں دوڑ رہی تھیں سر شاری کی ایسی حالت تھی کہ جس کو میں لفظوں کا لبا س پہنا نے سے قاصر تھا یقینا کچھ تبد یلیاں اور کیفیتیں ایسی ہو تی ہیں کہ جب علم ، شعور اور آگہی آپس میں گڈ مڈ ہو جا تی ہیں آگہی کا آئینہ دھندلا پڑ جا تا ہے فلسفہ بے زبان اور یا داشت کی سطح کو ری سلیٹ کی طرح ہو جا تی ہے شعور لا شعور کے سارے خدوخال پھیکے پڑ جا تے ہیں انسان عالم محویت میں خو د فراموشی کی سحر انگیز حالت میں مبہوت سا ہو کر رہ جا تا ہے با طن کے عمیق ترین گوشوں سے سرشاری والی کیفیت اِس طرح بیدار ہو تی ہے کہ اکاش بیل کی طرف اندر باہر سے جکڑ کر سر شاری کے اعلی درجے تک پہنچا دیتی ہے عقیدت و محبت کی نرم نرم پھوار سے انسان جل تھل میں اندر تک بھیگتا اور شرابور ہو جا تا ہے پتہ نہیں کتنی دیر حیرتوں کے سمندر میں غوطاں رہنے کے بعد میرے حواس آہستہ آہستہ بحالی کا سفر کر نے لگے تو میں روضہ رسول ﷺ، سر چشمہ نو ر کی طرف دیکھنے لگا جس کی جہاں تا ب کر نیں صدیوں سے ابد تک اِسی طرح تا ریکیوں اور ظلمتوں کا جگر چیرتی رہیں گیں۔ نو ر کے فوارے قیا مت تک اِسی طرح پھوٹتے رہیں گے کو ن ہے جو اِس نو ر کو گل کر نے کی جسا رت کر سکے جہالت ظلمت کی تا ریکیاں اِسی طرح اِس لا زوال نور سے شکست کھا تی رہیں گی اور کا ئنات کو منور کر نے والی یہ روشنی اِسی طرح اُجا لے بکھیرتی رہے گی میں یہاں کی ہر ساعت کو انجوائے کر رہا تھا کیونکہ یہاں کا ہر لمحہ اپنا ہی حسن اور سحر رکھتا ہے جس کا دنیا میں کہیں بھی مقا بلہ نہیں کیا جا سکتا میرے چاروں طرف کر ہ ارض کے نیک ترین لو گ محو عبا دت تھے اُن کے معصوم چہروں پر گلابوں کی سی تا زگی آنچ اور بندگی اور عبو دیت کا نورانی سا ہا لا بنا ہوا تھا نو رکی چمک اتنی زیا دہ کے آپ آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہ سکیں دنیا بھر سے آئے ہو ئے عشاقِ رسول ﷺ اپنے اپنے انداز سے عبادت اور دعاؤں میں مصروف تھے میرے ساتھ پا کستانی گا ؤں سے آیا ہوا پنجا بی زبان میں اِسطرح دعائیں کر رہا تھا جیسے نبی رحمت ﷺ سامنے ہوں اور وہ فریاد پر فریا د کئے جا رہا ہو ۔ میں بار بار گنبد ِ خضرا اور روضہ رسول ﷺ کی طرف محبت بھری نگا ہ سے دیکھ رہا تھا دل یہی کہہ رہا تھا کہ با ر بار دیکھوں اور اپنی قسمت پر ناز کروں اور یہی کہ بس دیکھتا ہی رہوں میری آنکھیں جنم جنم کی تشنگی بجھا تی رہیں اور میں سیراب ہو تا رہوں۔ میں اپنے گردو پیش کو محور حالت میں دیکھتا اور لطا فتیں سمیٹتا جا رہا تھا میں جب بھی رو ضہ رسول ﷺ کی طرف جانے کا ارادہ کر تا تو خوف سے میرا بدن بید مجنوں کی طرح لرزنے لگتا کہ میں اِس قا بل نہیں ہو ں کہ جالیوں کے سامنے جا کر سلام کر سکوں مجھے ڈر تھا کہ میرے اعصاب اور حواس میری گرفت میں نہیں رہیں گے یہاں پر آنے والوں کے لیے یہ گو شہ جنت ہے اتنی بڑی زمین پر ایک سے بڑھ کر ایک بڑا جدید شہر آباد ہے جن کی ترقی اور خوبصورتی نے سارے زمانے کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے لیکن اِس چھوٹی سی بستی مدینہ میں ایسا کیا خا ص ہے کہ اربوں انسان اِس شہر کی آرزو میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہتے ہیں ۔ کتنے ہیں جو اِس حوض کو ثر پر بار بار آتے ہیں لیکن اُن کی پیاس بجھتی ہی نہیں اور کتنے ہیں جو زندگی میں صرف ایک ہی بار آتے ہیں اور پھر مر تے دم تک دوبارہ آنے کی آرزو میں سلگتے رہتے ہیں اور کتنے ہیں جو یہاں آنے کی آرزو کی آنچ میں بھسم ہو جاتے ہیں لیکن مدینہ اُن سے دور ہی رہتا ہے یہ سرکار مدینہ ﷺ کا بلا وا ہے یہ نصیب کی بات ہے اور کرم کے فیصلے، کو ئی تو یہاں آگیا اور آکر امر ہو گیا اور کو ئی زندگی بھر دہکتے کو ئلوں پر ننگے پا ؤں چلتا رہا لیکن اُس کی آبلہ پا ئی کو منزل جاناں نہ ملی اویس قرنی بھی توتھے ۔جو آتش آرزو میں مثلِ شمع پگھلتے رہے لیکن حاضری کی ساعت نہ آئی لیکن عشقِ ایسا کہ سردار الانبیا ء ﷺ نے اپنا لبا س مبارک اُن کے لیے وقف کیا اور دعا کا کہا۔ میں بار بار روضہ رسول ﷺ کی طرف جا نے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اٹھ نہیں پا رہا تھا ایک سرور انگیز شبنمی سی پھوار نے مجھے اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا محبت و شفقت کی ریشمی ٹھنڈی پھوار نرم گداز مو تیوں کی طرح مُجھ پر برس رہی تھی درود و سلام کی عطر بیز گو نج سے مسجد نبوی ﷺ کا کونہ کو نہ گونج رہا تھا ۔ میں پروانوں کو دیکھ رہا تھا کہ وہ روضہ رسول ﷺ کی جا لیوں کو دیوانہ وار دیکھتے ہو ئے دربانوں کی سر زنش پر دائیں با ئیں حرکت کر تے پھر رہے تھے وہی ٹکٹکی اورمحویت سے جا لیوں کو دیکھتے تو میں بھی روضہ رسول ﷺ کی طرف جانے کی کو شش میں تھا لیکن اپنی سیا ہ کا ریوں اور گناہوں کی وجہ سے ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن اچانک روضہ رسول ﷺ کی جالیوں سے ایک معطر خو شبو سے بھرا ہوا جھونکا آیا اور ٹھنڈی پھوار کی طرح میرے چہرے سے ٹکرایا اور مجھے لگا جیسے نبی رحمت ﷺ نے کہا ہو اب آگئے ہو تو ڈر رہے ہو اب دور کیوں ہو آؤ میرے پاس میں تو تمہا را انتظار کر رہا ہوں اِس خیال کے ساتھ ہی مجھے چاروں طرف ممتا کی آسودگی کا احساس ہوا مجھے یوں لگا کہ میں کسی بچے کی طرح خوفزد ہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کئے بیٹھا تھا ۔ لیکن سر پر ہوا کا جھونکا اِس طرح لگا جیسا کو ئی دستِ شفقت پھرتا ہو پھر میری آنکھوں سے چھم چھم آنسو بر سنے لگے چہرہ آنسو ؤں سے تر ہو نے لگا میری نظر روضہ رسول ﷺ پر جمی ہو ئی تھی اب میں نے ہمت کی اور اٹھ کھڑا ہوا اب میں سر جھکائے آہستہ آہستہ نرم قدموں سے روضہ رسول ﷺ کی طرف بڑھنے لگا ۔ میری سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں جیسے دل سینے سے با ہر آجا ئے گا میں بہت سارے لوگوں میں چل رہا تھا میں نیم خوابیدگی کے عالم میں دبے قدموں اِسطرح چل رہا تھا کہ کو ئی گستاخی نہ ہو جا ئے چلتے چلتے میں کتنے لوگوں سے ٹکرایا کتنے دھکے لگے مجھے اِس کا احساس نہ تھامیرا جسم سر شاری اور خوف کے ملے جلے احساس میں ڈوبا ہوا تھا میں آہستہ آہستہ سردار الانبیا ء ﷺ کے دربار کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک مجھے لگا مجھے کسی غیر مرئی قوت نے تھام لیا ہو یا مقنا طیسی کشش جس نے میرے حواس کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے مجھے یا د نہیں میں کس طرح شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کے در کے قریب اور سامنے پہنچا میرا سر جھکا ہوا تھا جسم پر لرزا طاری تھا اور چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ۔ جب میں نے بولنے کی کو شش کی تو مجھے لگا میں پتھر کا بت بن چکا ہو جسم پر کیف انگیز فا لجی کیفیت طاری تھی میں گو نگا بہرا بنا کھڑا تھا الفاظ ہو امیں تحلیل ہو چکے تھے میں جو ساری عمر لفظوں سے کھیلتا رہا مجھے کبھی بھی لفظوں کی کمی کا احساس نہ ہوا لیکن شہنشاہ ِ مدینہ ﷺ کے دربا رمیں ایک بھی لفظ نہ مل رہا تھا مجھے اپنے آپ پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں واقعی آقا ﷺ کے دربار کے سامنے ہوں کیونکہ مجھ جیسا رو سیاہ حاضری کی تمنا تو کر سکتا ہے لیکن شاہِ مدینہ ﷺ کے در پر حقیقت میں حاضری پر یقین نہیں آرہا تھا کہ کہاں میں اور کہاں دربا ر رسالت ﷺ کیونکہ یہ وہ دربار ہے جو عرش سے بھی ارفع ہے جہاں جنید و با یزید اور بڑے بڑے ولی کی سانسیں تھم جا تی ہیں میں گم سم کھڑا تھا نہ اپنی خیر نہ کسی کا ہوش ایک سکوت اور فالجی کیفیت کہ کہیں کو ئی غلطی آواز اونچی سسکی نہ نکل جا ئے آواز نہ بلند ہو جا ئے اور جھو لی اِس لیے نہ پھیلا ئی کہ یہاں تو بن مانگے سب مل جا تا ہے صدا بھی نہیں لگا ئی درِ حضور ﷺ پر ندامت اور تشکر کے آنسوؤں کا نذرانہ دے رہا تھا پھر میرے جسم کا رواں رواں آنکھیں بن گیا اور آنکھوں سے مو سلا دھا ر مو تیوں کی لڑی جھڑنے لگی ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 655068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.