تو نے تو فیق دی چلا آیا
(Muhammad Younus Majaz, Haripur)
تو نے توفیق دی چلا آیا ۔۔۔۔میری اوقات کیا
،کرم تیرا
صاحبو !سال 2016کی پہلی ششماہی ذاتی طور پر میرے لئے خوشبختی کی حامل رہی
جہاں جنوری میں میرا پہلاشعری مجموعہ ــ’’جنگلوں میں شام آئی ‘‘چھپ کر منظر
عام پر آیا اور عوامی وادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کی وہاں اﷲ تعالیٰ نے
رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد نبویﷺ میں اعتکاف اور عمرہ کی سعادت سے بہرہ
مندفر ماتے ہوئے میری دلی آرزو پوری کی ،یوں تو ایک عرصہ سے حج بیت اﷲ کا
ارداہ کئے ہوئے تھا لیکن دنیا وی بکھیڑوں میں اس قدرالجھا ہوا تھا کہ ہر
دفعہ زبانی کلامی کوششیں کر تا اور اگلے سال جانے کا مصمم ارادہ کر کے
خاموش ہو جاتا گزشتہ سال بھانجے ملک مہربان علی جو اسوقت وزیراعظم آزاد
کشمیر کے مشیر خصوصی برائے سیاسی امور تھے کے پاس اس کے دفتر میں بروزِ
ہفتہ گیا تو باتوں باتوں میں حج کے حوالے سے گفتگو چل نکلی ملک مہربان نے
فوراً کہا پاسپورٹ دیں حجِ اکبر ہے چلتے ہیں لیکن بیٹا حج میں صرف ایک ہفتہ
رہ گیا تو اس نے کہا یہ بات مجھ پر چھوڑیں ماموں!’’ اندھا کیا چاہے دو
آنکھیں ‘‘ میں نے فووراً گھر میں بہو بیٹی کو فون کیا اسے پاسپورٹ چیک کر
نے کو کہا لیکن بدقسمتی سے پاسپورٹ ایکسپائر ہو چکا تھا شائد بلاوا ابھی
نہیں آیا تھا لیکن ملک مہربا ن صوموار کی شام چھ بجے حج کے لئے روانہ ہو
چکا تھا اپنی اپنی قسمت ہے اﷲ لمبی عمر کرے بہت لکی ہے۔ اس بار اتنا ہوا کہ
حج کے لئے درخواستوں کی وصولی کا اعلان ہوتے ہی درخواست اور پیسے جمع کروا
دئیے قرعہ اندازی پر نام نہ نکلا تو یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لی کہ شائد
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ابھی عرضی قبول ہو نے کا وقت ا نہیں آیا چلو اس بار
پھر گاؤں کی مسجد میں ہی اعتکاف کروں گا کیوں کہ بچپن سے اﷲ کے فضل سے میرا
یہ وطیرہ رہا ہے کہ میں اپنے گاؤں کی مسجد میں اکثر و بیشتر اعتکاف کرتا
رہا ہوں لیکن گزشتہ سال اس سعادت سے بھی محروم رہا میرے گمان میں بھی نہیں
تھا کہ میرا اعتکاف یہاں نہیں مسجد نبوی ,ﷺ میں لکھا جا چکا تھا ’’بن مانگے
موتی ملیں،مانگے نہ ملے بھیک‘‘کسی کام کے سلسلہ میں اسلام آباد(سلمان ٹاؤن
)حاجی ملک رمضان کے ہاں جانا ہوا جو رشتے میں میرا بھانجا اور ملک مہربان
کا بڑا بھائی ہے ملاقات پر اس نے اصرار کیا ماموں پاسپورٹ دیں مسجد نبوی ﷺمیں
اعتکاف اور عمرہ کے لئے کوشش کرتے ہیں چونکہ پاسپورٹ میرے پاس تھا اس کے
حوالے کیا واپس گھرآکر جند روز بعد چھوٹے بھانجے ملک مہربان کو فون کیا تو
اس نے کہا ایک ہفتہ قبل حاجی صاحب نے عمرہ کے لئے ویزے لگوا کر دینے کا ذکر
کیا تھا لیکن ابھی تک پاسپورٹ وغیرہ میرے حوالے نہیں کئے میں ابھی ان سے
پاسپورٹ منگوا کر کوشش کرتا ہوں ویزوں کے لئے کچھ دن بعد دوبارہ ملک مہربان
کو فون کیا تو اس نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا ماموں عمرہ کی تیاری کریں یہ
سنتے ہی ایک انجانی خوشی سارے جسم میں سرائیت کر گئی پاگلوں کی طرح اپنے
کمرے (جو گھر کے بیرونی دروازے کے ساتھ ہے )سے بچوں اور بہو کے کمرے کی طرف
یہ کہتے ہوئے بھاگا ۔۔میرا ویزہ لگ گیا ،میرا ویزہ لگ گیا ،میں عمرے پر جا
رہا ہوں ۔۔کیوں کہ یہ بات سب کے لئے حیرت سے کم نہ تھی سو انتہائی حیرانگی
سے سب سوال کر رہے تھے یہ بیٹھے بیٹھائے کیسے ہو گیا بس اﷲ تعالیٰ نے میرا
اعتکاف گاؤں کی مسجد کے بجائے مسجد نبوی ﷺمیں لکھ دیا ہے اس لئے ملک مہربان
نے ویزے لگوا دئیے ہیں سو اس طرح اﷲ کے گھر جانے کا وسیلہ بن گیا لیکن ابھی
ٹکٹ کا معاملہ باقی تھا سو میرے نواسے اور حاجی رمضان کے بیٹے ملک فیضان نے
یہ مرحلہ بھی طے کر کے مجھے فون کیا نا نا جی(یہ ہر گز نہ تصور کیجئے گا
میں کوئی سو سال کا بوڑھا با با ہوں ابھی اکیاون سال چند ماہ کا ہوا ہوں)
17رمضان کو صبح 7بجے کی فلائٹ ہے لیکن آپ 16 رمضان کی رات ہمارے گھر آ
جائیں سو ہم نے بھی یہی پروگرام ترتیب دیا 16رمضان کی شام گاؤں میں میر ے
ایک دوست ملک ارشد کی طر ف سے افطاری کا پروگرام تھا جس میں اس نے اردگرد
کے تین چار گاؤں سے لوگ بھی بلوائے ہوئے تھے افطاری سے فراغت کے بعد مغرب
کی نماز ادا کی اور ساتھ والے گاؤں منگ میں پولیو انچارج ارشاد کے پاس
پولیو کے قطرے پینے چلا جس کا وعدہ میں نے ڈسٹر کٹ ہسپتال ھری پور میں
پولیو انچارج سے پولیو کارڈ وصول کرتے وقت کیا تھا کیوں کہ دن کو روزہ ہونے
کی وجہ سے یہ قطرے پینا ممکن نہیں تھا اور اس کے بغیر کا رڈکا حصول نا ممکن
تھا یہ مرحلہ طے کر کے گھر واپس آتے آتے کئی بار گھر والوں کی طرف سے فون
آیا کہ جلدی گھر واپس آئیں گاؤں کے لوگ ملنے آئے ہوئے ہیں اور آپ نہ جانے
کہاں غائب ہیں کیوں کہ قطرے پینے کے لئے جاتے وقت گھر والوں کو بتا کر نہیں
گیا تھا دیہات میں اب بھی اور بہت سی اچھی روایا ت کے علاوہ ایک اچھی روایت
یہ بھی ہے کہ جب بھی گاؤں سے کوئی پردیس میں جائے یا پردیس سے واپس آئے(
خصوصا عمرہ اور حج کے لئے) سارے گاؤں سے مردوخواتین ملنے آتے ہیں سو میں
بھی گھر پہنچا تو گھر کا صحن عورتوں اور گھر سے باہر بیٹھک مردوں سے بھری
پڑی تھی ملنے ملانے کا یہ سلسلہ رات بارہ بجے تک چلتا رہا بہت سے دوستوں
اور رشتہ داروں کا خیال تھا کہ مجھے ائیر پورٹ پر الوداع کر کے آتے لیکن
میں نے منع کر دیا کیوں کہ میں نے ڈائریکٹ ایئر پورٹ جانے کے بجائے پہلے
اپنے بھانجوں کے گھر جانا تھا جہاں سحری کھانے کے بعد دیگر دوستوں کے ہمراہ
سعودی عرب کے لئے روانگی کا پروگرام تھا اس لئے ہمارا د وگاڑیوں پر مشتمل
مختصر قافلہ جس میں میرے دوست ملک ارشد ، ملک عدیل،بیٹا عدنان یو نس اور
داماد ملک سجاد شامل تھے تقریباْ ایک بجے کے قریب گاؤں سے اسلام آباد کے
لئے روانہ ہوا دو بجے سلمان ٹاؤن پہنچے جہاں حاجی رمضان نے سحری کا اہتمام
کیا ہوا تھا سحری کے بعد غسل کر کے فجر کی نماز ادا کی راقم( یونس
مجاز)حاجی رمضان اور پٹھان ما ما ابراہیم تین لوگ ہم یہاں سے ملک مہربان کی
گاڑی پر ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے گولڑہ موڑ سے آگے جی ٹی روڈ پر ملک
خالدشہزاد ایڈوکیٹ اور حاجی عبدالوہاب صاحب بھی شامل ہو گئے جو اس پاکیزہ
سفر میں ہمارے ہمراہی تھے ائیر پورٹ پہنچ کر فورا ْہم پانچوں لوگ امیگریشن
کے مراحل طے کرنے کے لئے ائیر پورٹ کے اندر چلے گئے اورہمیں الودع کہنے کے
لئے ائیر پورٹ آنے والے ملک مہربان علی ،ملک فیضان ،ملک قاسم ،فہد ،عمر
اورملک ریاض واپس آگئے ایک آدھ گھنٹے میں کاغذات کی ضروری چیککنگ اور سامان
کی بکنگ کے بعد ہم اوپر ویٹنگ ایریا میں چلے گئے سات بجے فلائٹ کا ٹائم تھا
اور ابھی پانچ بجے تھے چونکہ ہم پانچوں لوگوں کا روزہ تھا حالانکہ میرا
خیال تھا اس طویل سفر میں روزہ نہ رکھا جائے لیکن اکثریت کی یہ رائے تھی
عمرہ کی سعادت حاصل کرنے مقدس سر زمین پر جا رہے ہیں سو سفر روزہ ہی میں طے
کیا جائے ملک خالد شہزاد اور ابراہیم ماما سے پہلی ملاقات تھی جب کہ حاجی
عبدالواہاب سے پہلے ملاقات تو تھی لیکن گل بات نہ تھی سو ہم لوگ جلد ہی آپس
میں گل مل گئے اور ملک خالد کو تمام سفروخضر کے لئے متفقہ طور پر امیر مقرر
کر لیا اور یہ فریضہ انھوں نے واپس پاکستان پہنچنے تک بخوبی سر انجام دیا
جہاز کی روانگی میں ابھی وقت تھا اس لئے گپ شپ کے ساتھ سہانی صبح کے منظر
سے لطف اندوز ہوئے اسلام آباد کی پہاڑیوں سے نکلتے سور ج کی سنہری کرنیں
بھلی معلوم ہو رہی تھیں ساڑھے چھ بجے کے قریب جہاز کے لئے ائیر پورٹ کی
گاڑیوں پر سوار ہونے کا اعلان ہوا ہم لوگ بحرین جانے کے لئے گاڑیوں کے
ذریعے جہاز پر پہنچے تو گلف ائیر لائن کے عملہ نے ہمارا استقبال کیا ٹھیک
سات بجے جہاز رن وے پر دوڑنے لگا اورپھر ایک جٹکے کے ساتھ عرض ِپاک کی مٹی
کو چھوڑ گیا وطن کی مٹی کو چھوڑنے کا یہ پہلا موقع تھا جوں جوں جہاز بلندی
کو چھوتا جا رہا تھاوطن کی مٹی کی خوشبو ماند اور مقدس مقامات کے دیدار کا
تصور غالب آرہا تھا بحرین کے وقت کے مطابق تقریباْ گیارہ بجے کے قریب ہمارا
جہاز جزیرہ نما بحرین انٹرنیشنل ائیر پورٹ جو انتہائی خوبصورت دکھ رہا تھا
پر اترا باہر شدید دھوپ تھی لیکن جہاز ائیر پورٹ ٹرمینل کے ساتھ جوڑ کر لگا
یا گیا یوں ہم جہاز سے نکلے تو ائیرپورٹ کی فیبریکیٹڈبلڈنگ جو مکمل ائیر
کنڈیشن تھی میں داخل ہو گئے سیکورٹی پراسس سے گزر کر ہم لوگ ائیر پورٹ کی
بلڈنگ میں موجودایک چھوٹی مسجد میں چلے گئے جہاں وضو کے بعدعمرہ کی نیت سے
احرام باندھنے کا مرحلہ طے کیا دورکات نفل ادا کئے اور تکبیر( تلبیہ․؛ لبیک
اﷲ ھم لبیک۔۔) کا ورد کرتے ہوئے جدہ جانے والی فلائٹ کی طرف چل پڑھے جو
تیار کھڑی تھی کیونکہ یہاں ایک گھنٹے کا ٹھہراؤ (سٹے) تھا اب کی بار بھی
جہاز بلڈنگ کے ساتھ لگایا گیا تھا ائیر پورٹ کی بلڈنگ سے سیدھے جہاز میں جا
نکلے جہاں فلپائینی ائیر ہوسٹس مسافروں کو اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کے
لئے گائیڈ کر رہی تھیں کچھ دیر بعد سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان ہوا اور پھر
جہاز رن وے کو چھوڑ کر فضا میں بلند ہوا کچھ دیر تک میں اورحاجی وہاب کھڑکی
سے نیچے عرب کے لق دق صحرا کا نظارہ کرتے رہے جوں جوں جیاز اونچائی کے جانب
بڑھتا جا رہا تھا نیچے کا کا منظر دھندلا ہوتا جا رہا تھا بحرین سے اگلی
منزل جدہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ تھی جسے دنیا کا سب سے بڑا ائیر پورٹ تسلیم
کیا جا چکا ہے جس پر ہر لمحے کوئی نہ کوئی جہاز لینڈنگ یا پھر اڑان بھر رہا
ہو تا ہے ہم نے بحرین ائیر پورٹ پر ہی احرام باندھ لیا تھا لیکن جن لوگوں
نے احرام نہیں باندھا تھا ان کے لئے ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا کہ جہاز ابھی
کچھ دیر میں میقات سے گزرے گا اس لئے حاجی احرام باندھ لیں -
صاحبو! نبی کرم ﷺنے مکہ معظّمہ کے چاروں طرف کچھ مقامات متعین فرمائے ہیں
جنھیں میقات کہتے ہیں جہاں پہنچ کر مکہ جانے والوں پر احرام باندھنا واجب
ہے بغیر احرام باندھے وہاں سے تجاوز جائز نہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے گھر کے
اردگرد تین دائرے مقرر فرمائے ہیں اور ہر ایک سے متعلق کچھ مخصوص احکامات
بتلائے ہیں تاکہ میرا بندہ جب میرے گھر کے پاس آئے تو ان دائروں سے متعلق
احکامات کو بجا لاتے ہوئے مکمل ادب وتعظیم کے ساتھ آئے پہلا دائرہ میقاتوں
کا ہے ،یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو حدودِ میقات سے باہر ساری دنیا میں کہیں
بھی رہتے ہیں میقاتوں سے باہر ساری دنیا کو آفاق اور ایسے لوگوں کو آفاقی
کہتے ہیں دوسرا دائرہ حرم کا ہے ،یہ دائرہ ان لوگوں کو پابند کرنے کے لئے
ہے جو میقاتوں کے اندر رہتے ہیں اس کے حدود مکہ مکرمہ کے چاروں طرف مختلف
فاصلوں پر متعین ہیں اس دائرے میں شکار کرنا ہری گھاس کاٹنا وغیرہ احرام کی
حالت کے بغیر بھی حرام ہے ا س کے رہنے والوں کو اہلِ حرم کہتے ہیں تیسرا
دائرہ مسجد حرام کا ہے ،یہ ان لوگوں کو پابند کرنے کے لئے ہے جو حدود حرم
میں رہتے ہیں’’ حدیث شریف میں ہے مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک
لاکھ نمازوں کے برابر ہے‘‘ میقات کی تین قسمیں ہیں ،۱۔اہلِ آفاق کامیقات
(میقاتوں سے باہر رہنے والوں کا میقات)۲۔اہلِ حل کا میقات (میقات کے اندر
اور حرم سے باہر رہنے والوں کا )۳۔اہلِ حرم کا میقات (مکہ مکرمہ اورحدودِ
حرم میں رہنے والوں کا )آفاقی میقاتیں پانچ ہیں ۱۔ذات عرق (یہ عراق کی طرف
سے آنے والوں کا میقات ہے) ۲۔ذوالحلیفہ(یہ مدینہ منورہ اور اس کے راستے سے
آنے والوں کا میقات ہے مدینہ سے چھ میل دور مکہ کے راستے میں مقامِ بیرِعلی
کے مقام پر ایک مسجد بنی ہے) ۳۔جحفۃ(یہ ملک شام اور مصر کی طرف سے آنے
والوں کا میقات ہے) ۴۔قرن المنازل (یہ نجد کے راستے سے آنے والوں کا میقات
ہے) ۵۔یلملم(یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کے لئے ہے) پہلے پاک وہند سے
بذریعہ بحری جہاز آنے والوں کے لئے بھی میقات تھا ،پاکستان ،روستان اور
بنگلہ دیش سے جدہ جانے والا جہاز اہلِ نجد یا اہلِ عراق کے میقات یا ان
محاذات سے گزرتا ہوا بلکہ بعض اوقات حدودِ حرم کے قریب سے گزرتا ہوا جدہ
پہنچتا ہے اس لئے ان ممالک سے بذریعہ ہوائی جہاز مکہ جانے والوں کے لئے اس
سے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے خلاف ورزی کی صورت میں دم لازم آئے گا۔
اسی اثنا میں جہاز جدہ ائیر پورٹ کی حدود میں داخل ہونے کو تھا تو ائیر
ہوسٹس مسافروں کو بیلٹ بندھوانے میں مصروف ہو گئیں جہاز لینڈنگ کے لئے جدہ
کے وسیع ائیر پورٹ کے چکر کاٹ رہا تھا اور ہم سرزمین ِعرب پر موجود اس
خوبصورت اوروسیع ائیر پورٹ پر کھڑے بے شمار جہازوں کا نظارا کرنے کے ساتھ
ساتھ بلند آواز سے تلبیہ (تکبیر،لبیک اﷲ الھم لبیک۔۔۔) کا ورد کر رہے تھے
ایک ہی ردھم اور ایک ہی آواز کے ساتھ اﷲ کا ذکر لطف دے رہا تھا اتنے میں
جہاز لینڈ کر گیا اور جھٹکے کے ساتھ رکا مسافروں نے سیٹوں کو چھوڑا جو اپنا
اپنا سامان اٹھا کر مقدس سرزمین پر اترنے کے لئے بے تاب تھے جہاز کے دروازے
کھلے سیڑھی لگ گئی ائیر پورٹ کی گاڑیاں آکھڑی ہوئیں اﷲ اکبر کہہ کر سرزمین
مقدس پر قدم دھرے اجتماعی تلبیہ بلند سے بلند تر ہوتی گئی (لبیک اﷲ الھم
لبیک۔۔۔۔) گاڑیوں پر سوار ہوئے تو عرب کی شدید گرمی کا احساس ہوا جو ہمیں
دس منٹ کی مسافت کے بعد ائیر پورٹ کی بلڈنگ کے گیٹ پر اتار رہی تھیں بلڈنگ
میں داخل ہوئے تو ایئر کنڈیشن کی وجہ سے گرمی کا احساس کم ہو ا لائنیں بن
گئی کاغذات کی چیکنگ کا صبر آزما مرحلہ شروع ہوا چیکنگ کرنے والے عربی
نوجوان انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ حاجیوں کے کاغذات چیک کرنے کے
ساتھ ساتھ کیمرے سے تصاویر بھی بنا رہے تھے نہ وہ ہماری زبان سمجھتے تھے نہ
ہم ان کی بس اشاروں کناوں سے کام چلایا جا رہا تھا کاغذی کاروائی مکمل ہوئی
تو اگلا مرحلہ سامان کی وصولی کا تھا ہم سب لوگوں کے سامان تو مل گئے لیکن
خالد بھائی کا اٹیچی غائب تھا تلاش بسیار کے باوجود نہ ملا تو ائیر پورٹ پر
موجود دفتر شکایات سے رابطہ کیا حکم ملا انتظار کیجئے کچھ دیر میں آجائے گا
کیونکہ رسید کے بغیر جو سامان جمع کرواتے وقت دی جاتی سامان ائیر پورٹ سے
باہر نہیں لے جایاجا سکتا سو انتظار مجبوری تھی چونکہ ظہر کی نماز کا وقت
ہو چکا تھا اسلئے ظہر کی نماز کے لئے وضو کیا ائیر پورٹ پر بچھی چٹایوں پر
نماز ادا کی اتنے میں خالد بھائی کا اٹیچی بھی آگیا ائیر پورت سے باہر نکلے
توشدید دھوپ کے ساتھ ساتھ ایک طویل قطار کھجوروں کے درختوں کی نظر آئی جیسے
ہمارے ہاں سرو کے درخت لگے ہوتے ہیں تو احساس ہوا ہم سرزمین عرب پر موجود
ہیں پہلے پرائیویٹ ٹیکسی میں جانے کا قصد کیا کرایہ طے کرنے کے بعد سامان
بھی ٹیکسی میں رکھ دیا لیکن ٹیکسی کا ٹائر پنچر نکلا پھر سامان اتارا اور
تھوڑی بہت لیت ولعل کے بعد ایجنٹ کی فراہم کردہ بس پر ہی جانے کا فیصلہ ہو
گیا مژدہ بس میں سوار ہوئے سامان لوڈ کیا اور بس جدہ سے مکہ کے لئے روانہ
ہو گئی ’’جدہ سے مسجدا حرام تک تقریباًاسی(۸۰)کلو میٹر کا فاصلہ ہے جبکہ
حدودِحر م کی ابتدا ء سے مسجداِ حرام تک کا فاصلہ تئیس (۲۳) کلو میٹر ہے
حدودِ حرم سے تقریباًدو کلو میٹر پہلے چیک پوسٹ ہے یہاں سے ایک سڑک الگ
ہوتی ہے جو غیر مسلموں کے لئے مختص ہے اس پر ایک بورڈ ہے جس پر ’’لغیر
ِالمسلمین‘‘ لکھا ہواہے اس سے تقریباًدو کلو میٹر بعدحدودحرم شروع ہو تا ہے
یہاں سڑک کے دونوں طر ف آغازِ حدودِ حرم کی علامت کے طور پر محراب نما ستون
بنے ہوئے ہیں اورعربی میں حدود حرم کا بورڈ لگا ہوا ہے ‘‘ جدہ ائیر پورٹ کو
گاڑی نے چھوڑا تو مکہ جانے والی شاہراہ پر فراٹے بھرنے لگی گاڑی ائیر
کنڈیشن تھی لیکن شدید گرمی کی وجہ سے ائیر کندیشن کی کولنگ واجبی ہی تھی
میں کھڑکی سے باہر اردگرد کی عمارتوں اور ان کے طرزِ تعمیر کا نظارا کرنے
لگا دراصل میں اپنے دل اور دماغ کو آنکھوں کے راستے باہم اس یقین پر راضی
کر رہا تھا کہ میں عرضِ مقدس پر ہوں اور یہ حقیقت ہے کوئی خواب نہیں مکہ
مکرمہ پہنچنے سے قبل مجھے اندازہ نہ تھا جدہ سے مکہ کدھر ہے اور کتنے فاصلے
پر ہے سو ہر گھڑی یہی د ھڑکا لگا ہوا تھا ابھی مکہ کا شہر آ جائے گا ابھی
مسجد حرام کے مینار نظر آنے لگیں گے کیونکہ اپنے ساتھی ذرا دور بیٹھے تھے
کسی دوسرے سے پوچھنے کی انا اجازت نہیں دے رہی تھی اسی اثنا میں جدہ کی
عمارتوں کا سلسلہ ختم اور سڑ ک کے ودنوں جانب لق دق صحرا کے ساتھ چٹیل اور
پتھریلے پہاڑوں کو سلسلہ شروع ہوا تو مجھے اندازہ لگانے میں دیرنہ لگی مکہ
مکرمہ کا علاقہ کیسا ہو گا جبکہ سڑک کے کنارے لگے جا بجا سائن بورڈ پر لکھے
فاصلہ سے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ ابھی مسجد حرام پہنچنے میں وقت لگے گا سو
میں اردگرد پھیلے صحرا میں کہیں کہیں اونٹوں کے بھاڑے اور ان کے پاس کھڑی
کیبن نما گاڑیاں دیکھکر یہ سوچ رہا تھا کہ عرب میں اب بھی اونٹوں کی پرورش
اورفارم موجود ہیں چھوٹے بڑے سخت پتھریلے پہاڑوں کو کاٹ کر بلڈنگیں بناننے
کے لئے جہاں ہموار کیا جا رہا تھا وہاں جدہ سے مکہ مکرمہ تک ریلوے ٹریک
بناننے کے لئے بھی کام جاری تھا جوں جوں ہم مکہ کے قریب ہوتے جارہے تھے
صحرا کی دونوں جانب سے صحرا کی وسعت کم اور پہاڑ سڑک کے قریب آتے دیکھ کر
دل کی دھڑکن میں تیزی آرہی تھی اب مکہ شہر کی عمارتیں بھی نظر آنے لگیں
پہاڑیوں کو کاٹ کاٹ کر بنائے گئے بلند وبالا پلازوں کی شا ن و شوکت اپنی
بہار دکھلا رہی تھی قربِ بیت اﷲ کا احساس بڑھ رہا تھاتلبیہ (تکبیر، لبیک اﷲ
الھم لبیک۔۔)پڑھنے کی طرف دھیان لگ گیا جو دعائیں یاد تھیں پڑھنا شروع کرد
یں دل میں یہ خیال جاں گزیں ہو نے لگا اب شہنشاہ ِ ذولجلال کا شہر اور اس
کا گھر قریب ہے یہ مرکز جلال ہے اور یہاں کے درودیوار سے عاشقی نمایاں ہے
یہاں عاشقانہ طور پر آنے کی ضرورت ہے ’’اے اﷲ !مجھے اپنے اس پاک اور مبارک
شہر میں سکون و اطمینان سے رہنا نصیب فرما‘‘گاڑی شہر میں داخل ہونے لگے تو
یہ دعا وردِ زباں ہو تو لطف ہے ’’اے اﷲ میں تیرا بندہ ہوں ،تیرا فرض ادا
کرنے اور تیری رضا اور تیری رحمت کا طالب بن کر آیا ہوں ،تو میرے لئے اپنی
رحمت کے دروازے کھول دے اور قیامت کے دن معافی اور بخشش میرے لئے مقدر فرما
اور میرا عمرہ صحیح طور پر ادا کر دے ‘‘ میں ان ہی دعائیہ خیالات میں گم
تھا کہ گاڑی ایک طویل چڑھائی پر چڑ کر نیچے اترائی میں نیم دائروی شکل میں
موڑ کاٹتی ہوئی پل( کبری) کے نیچے سے گزر کر اڈہ سے پہلے جسے کبوتر چوک بھی
کہتے ہیں ہی رک گئی جہاں ہمارے ایجنٹ کے آدمی کھڑے تھے باری باری سب کا نام
پکارا اور پاسپورٹ لے لئے تا کہ کوئی آدمی غائب نہ ہو سکے عموماًلوگ حج کے
قریب کے دنوں میں عمرہ کے لئے آتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں بعدازاں اڈہ پر
پہنچ کر گاڑی سے اترے تو روزے کی حالت میں شدید دھوپ نے خوب تڑپایا سامان
اتارا چونکہ ایک دن مکہ میں رہائش ایجنٹ کے ذمہ تھی سو اس کا نمائندہ ہمیں
ہوتل پہنچانے کے لئے ہمارے آگے آگے چل پڑا اور ہم اپنے اپنے اٹیچی گسیٹتے
ہوئے اس کے پیچھے تھے میرے اٹیچی کا پکڑنے والا ہینڈل پٹھان ماما نے جدہ
ائیر پورٹ پر ہی اپنی نادانی کی وجہ سے توڑ دیا تھا سومجھے اسے گسیٹنے میں
سخت مشکل درپیش تھی شکر ہے ہوٹل زیادہ دور نہیں تھا لیکن چڑھائی پر ہونے کی
وجہ سے چلنا دشوار تھا چونکہ ہم نے پاکستان کے مطابق ۱۷وں روزہ کی۲ببجے
سحری کھائی اور ۳بجے روزے کی نیت باندھ کر گھر سے نکلے تھے جبکہ سعودیہ میں
۱۸ واں روزہ تھا اور سعودی وقت کے مطابق ۴ بجے تھے دو گھنٹے کے فرق سے یہ
طوالت اور بڑھ جاتی ہے بقول کسے ۔۔۔’’کج تے راواں وی اوکھیاسن ۔۔کج سانوں
مرن دا شوق وی سی ‘‘کے مترادف جب یہاں ۷ بجے کے قریب روزہ افطار ہو نا تھا
پاکستان میں رات کے ۹ بجے کا وقت ہو گااس طرح ہماری زندگی کا طویل ترین
روزہ ۱۸گھنٹے کا تھا با برکت اور مقدس سفر کی وجہ سے پیاس تو نہ تھی لیکن
روزے کا دورانیہ طویل ہونے کی وجہ سے جسم میں ناتوانی کا غلبہ تھا اس لئے
فوراً عمرہ کی ادائیگی ملتوی کر دی ہوٹل پہنچے کمرے میں سامان رکھا تھوڑی
دیر سستانے کے لئے اپنے اپنے بیڈ پر دراز ہو گئے حاجی رمضان اور حاجی
عبدالوہاب مجھ سے کم عمر ہونے کے باوجودچونکہ شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے
زیادہ تھک چکے تھے بیڈ پر دراز ہوتے ہی نیند کی وادی میں پہنچ گئے خالد
شہزاد اور میں نے کچھ دیر سستانے کے بعد وضوکیا پانی گرم تھا جس نے ساری
تھکاوٹ د ور کر کردی یا د رہے گرمی کے اس موسم میں آپ مکہ اور مدینہ منورہ
میں ہوٹل ہو یا مسجد جہاں بھی جائیں گے آپ کو پانی گرم ہی ملے گا جس کا
درجہ حرارت تقریباً ایک ہی جیسا ہوتا ہے جو نہاننے اور وضو کے لئے قابلِ
برداشت ہو تا ہے پھر ماما پٹھان نے و ضو کیا آخر میں حاجی وہاب اور حاجی
رمضان کو جگایا ان کے وضوکے بعد خانہ کعبہ جانے کا قصد کر کے نیچے ہوٹل کی
لابی میں ہی نماز عصر ادا کی کیوں کہ نماز کا وقت کم ہو تا جا رہا تھا۔
صاحبو!ہم تلبیہ(لبیک اﷲ الھم لبیک۔۔۔) پڑھتے ہوئے ہوٹل سے نکل کر بائیں
جانب چڑھائی اتر کر الخلیل روڈ پر بائیں جانب ہی چلنے لگے اﷲ کے گھر کی
جانب بڑھتے ہر قدم کے ساتھ دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں ماما پٹھان
۔خالد شہزاد اور راقم کے لئے د یدار ِخانہ خدا کی سعادت حاصل کرنے کایہ
پہلا موقع تھا جبکہ د یگر دو حاجی صاحبان اس سعادت سے پہلے بھی کئی بار
پہرہ مندہو چکے تھے ہمارے ساتھ لوگوں کا ایک اژدھام مسجد حرام کی جانب بڑھ
رہا تھا افطاری اور نماز مغرب کے لئے جوں ہی قریب پہنچے سامنے والا گیٹ بند
ہوتا نظر آیا تو ہم اگلے گیٹ کی طرف بڑھنے لگے ایک جگہ سے پانی کی پوتلیں
لینے کے لئے رکا تو دوستوں سے جدا ہو گیا کوشش کے باوجود دست نہ ملے تو
مسجد نبوی میں داخل ہو نے کے لئے ایک بیرونی گیٹ سے اندرصحن میں پہنچ گیا
یہ غالباًبابِ عبدالعزیز کے سامنے والے غسل خانوں کیجانب اترتی سیڑھیوں کے
باہر والی کھلی جگہ تھی اتنے میں اذان مغرب شروع ہوگئی اور سب لوگ روزہ
افطاری میں لگ گئے یہ اﷲ تعالیٰ کے گھر میں میری زندگی کی پہلی اور اب تک
آخری افطاری تھی کیوں کہ ایک دن کے مختصراً قیام کے دوران عمرہ کی ادائیگی
اور دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد مدینہ منورہ روانگی کا پروگرام تھا جہاں
مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھنا تھا نماز عید کی ادائیگی کے بعدد وبارہ مکہ
مکرمہ آنا پروگرام میں شامل تھا افطاری سے فراغت کے بعد مسجد حرام میں
زندگی کی پہلی نمازمغرب ادا کرنے کی سعادت کا اپنا ہی لطف تھا نماز سے فارغ
ہوا تو اب وہ مرحلہ آگیا جس کے انتظار کی شدت تاب لانے کی ہمت جواب دینے
لگی تھی یعنی اﷲ کے گھر کا طواف سو تازہ وضو کی غرض سے انڈر گراؤنڈ بنے وضو
خانوں کا رخ کیا جہاں استنجا خانوں کا لامتناہی سلسلہ میرے سامنے تھا جن کے
سامنے لوگوں کی قطاریں لگی تھیں میں بھی ایک لائن میں کھڑا ہو گیا استنجا
اور چاردام یعنی وضو سے فراغت کے بعد اوپر صحن میں آگیااپنے جذبات و خیالات
کو مجتمع کرتے ہوئے باب السلام کی طرف بڑھنے لگا جہاں سے ابتدا میں مسجد
نبوی میں داخل ہونا افضل ہے تاکہ طواف کی سعادت حاصل کر سکوں کیوں کہ ا
حرام کی حالت مسجدالحرام میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے عمرہ کا طواف لازم
ہے ’’طواف کا لفظی معنی کسی چیز کے اردگرد گھومنے کے ہے،شریعت کی اصطلاح
میں بیت اﷲ کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں‘‘ایک حدیث میں عبداﷲ بن
عمرؓ کی روایت ہے نبی کریمﷺنے فرمایا’’ جو شخص بیت اﷲ کے گرد سات مرتبہ چکر
لگاتا ہے تو وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے ہر قدم
پر ایک گناہ معاف کر کے اس کی جگہ ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور اس کا ایک
مرتبہ بلند کرتے ہیں ‘‘بابُ السّلام کے سامنے پہنچ کر جوتے اتار کر ایک
شاپر میں ڈالے جووہاں عربی لباس میں ملبوس ایک شخص ہر ایک کو رول سے پھاڑ
پھاڑ کر دے رہا تھا میں بے خودی کے عالم میں اﷲ کا نام لے کردرواذے سے داخل
ہوا اور نظریں نیچی کر کے تلبیہ (لبیک اﷲ الھم لبیک۔۔۔کا ورد کرتے ہوئے
دیگر لوگوں کے ساتھ دھیمے دھیمے قدم اٹھا رہا تھا تصور میں خانہ کعبہ کو لا
رہا تھا کہ میں اپنے اﷲ سے ملنے جا رہا تھا کہتے ہیں خانہ کعبہ پر پہلی نطر
پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے لیکن مجھے یقین ہے اﷲ کے گھر جہاں
،جب ،جس وقت چاہوجو مانگو ملتا ہے اسی خیال میں آگے بڑھ رہا تھا نہ جانے کس
لمحے ’ ’ نظر آخر نظر ہے بے ارداہ اٹھ گئی ‘‘کے مترادف میری نظر بھی اچانک
اٹھی( جس کے لئے میں پوری طرح تیار نہ تھاکہ شائد خانہ کعبہ نظر آنے کا
مقام ابھی نہیں آیا) اور خانہ کعبہ سے جا ٹکرائی ادب کا تقاضا تھا ٹھہر گیا
بے اختیار منہ سے اﷲ اکبرسبخان اﷲ الخمداﷲ کے الفاظ ادا ہوئے ہاتھ اٹھا کر
اﷲ تعالیٰ سے اپنی تمام جائز دعاؤں کی قبولیت کی دعا مانگی اور پھر جو کچھ
یاد تھا پڑھ ڈالا جتنی دعائیں لب پر آرہی تھیں مانگے جا رہا تھا سیڑیوں
پرپہنچ کر اترتے ہوئے تلبیہ کا ورد پھر شروع کر دیا سیڑھیاں اتر کر مطاف
(جہاں سے طواف کا دائرہ نما ایریا شروع ہوتا ہے )کے پاس دو رکات نفل ادا
کئے (حالانکہ مجھے برائے راست طواف کی طرف جانا چائیے تھا کہ میرا تحیہ
نماز کے بجائے طواف تھا )نماز کے بعد طواف کے دائرے میں شامل ہو کر دائیں
طرف اس مقام کی جانب چل پڑا جہاں حجرِ اسودکے سامنے سبز لائٹیں جل رہی تھیں
میرے ساتھ ایک مولانا صاحب بھی چل رہے تھے جو پاکستانی تھے تعارف کے بعد ان
سے طواف اور عمرہ سے متعلق جلدی جلد ی ضروری معلومات حاصل کیں عمرہ کے لئے
احرام باندھنے کے بعد جو تلبیہ شروع کیا تھا موقف کر دیاکہ وہ عمرہ کا طواف
شروع ہونے پر ختم ہو جاتا ہے اضطباع کرتے ہوئے (جو مرد وں کے لئے لازم
ہے)یعنی احرام کی چادر کے دائیں پلو کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں
کندے پر اس طرح ڈال دیا کہ دائینا کندہ اور بازو ننگے ہو گئے اب میں اس
مقام پر پہنچ گیا جہاں مجھے طواف کی نیت کرنی تھی قبلہ رخ منہ کر کے اس طرح
کھڑا ہو گیا کہ حجرِ اسود میرے دائیں جانب بلکل سامنے تھا پھر طواف کی نیت
کی جو فرض ہے جس کے بغیر جتنے بھی چکر لگا لو طواف نہیں ہوتا ’’اے اﷲ میں
تیری رضا کے لئے عمرہ کے طواف کی نیت کرتا ہوں اسے قبول فرما اورمیرے لئے
آسان کر دے ‘‘پھر ہاتھوں کی ہتھیلیوں کا رخ حجرِاسود کے سامنے رکھتے ہوئے
کانوں تک اس طرح لے گیا جیسے نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھائے جاتے
ہیں(خواتین کندھوں تک ہاتھ اٹھاتی ہیں) اور یہ دعا پڑھی’’ بسمِ اﷲ اﷲ اکبر
لا الہ الااﷲ واﷲ اکبرو اﷲ الحمد‘‘اس کے بعد استلام کیا استلام کا درست
طریقہ یہ ہے ’’ دونوں ہاتھ حجرِ اسود پر اس طرح رکھیں جیسے سجدہ میں رکھے
جاتے ہیں پھر دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سر رکھ کر حجرِ اسود کو ادب کے ساتھ
بوسہ دیں ہجوم کی وجہ سے بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو حجرِ اسود کو دونوں
ہاتھوں یا داہنے ہاتھ سے چھو کر ہاتھوں کو بوسہ دے لیں ہاتھ بھی نہ پہنچ
سکے تو لکڑی یا کسی دوسری چیز سے حجرِ اسود کو چھو کر اس چیز کو بوسہ دے
لیں یہ بھی ممکن نہ ہو اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک تو رش کی وجہ سے کمزور
لوگوں کا وہاں تک پہنچنا مشکل ہو تا ہے دوسرا احرام کی حالت میں ویسے بھی
ان مقامات سے دور رہا جاتا ہے جہاں خوشبو لگی ہو تی ہے ورنہ کم خوشبو لگنے
کی صورت میں صدقہ اور زیادہ کی صورت میں دم لازم آجاتا ہے رکن یمانی اور
حجرِ اسود پر خوشبو کا لگا ہونا لازمی ہوتا ہے اور پھر بوسے کی خاطر کسی
دوسرے کو تکلیف دینا جائز نہیں اس لئے بہتر طریقہ یہی ہے کہ دونوں ہاتھ
حجرِاسود کی طرف اس طرح اٹھائیں کہ گویا حجرِ اسود پر رکھے ہوئے ہیں اور
پشت کو اپنی جانب رکھیں پھر ہاتھوں کی ہتھیلیوں کا رخ اپنی طرف کر کے
ہاتھوں کو بوسہ دیں اور بسم اﷲ اﷲ اکبر کا ورد کریں،میں نے بھی شدید خواہش
کے باوجود پہلی دفعہ یہی طریقہ استلام کا اپنایا کیونکہ رش کی وجہ سے ہمت
نہیں بندھ رہی تھی (لیکن مدینہ سے واپسی پر اﷲ تعالیٰ نے مجھے تین دفعہ
موقع عطا کیا کہ میں نے حجرِ اسود کو بوسے دئیے جن کی دلچسب تفصیل آگے آئی
گی )استلام کے بعد دائیں طرف بیت اﷲ کے دروازہ کی جانب رمل کرتے ہوئے چل
پڑا رمل سے مراد پہلے تین چکروں میں مردوں کا اکڑ کر شانے مٹکاتے ہوئے قریب
قریب قدم اٹھاتے ہوئے قدرے تیزی سے چلنا ہے جب د شمنوں نے مسلمانوں کی کم
تعداد اور کمزور ہونے کا طعنہ دیا تو میرے نبی ﷺ نے ساتھیوں کو حکم دیا تھا
کہ وہ خوب اکڑا کڑ کر چلیں تاکہ دشمنوں پر رعب پڑے ،میں اسی خیال سے اکڑ کر
چل رہا تھا آنسو رواں تھے( رب غفر ورحم وانت خیرالراحمین) پڑھے جا رہا تھا
کبھی دوسری کبھی تیسر ے اور کبھی چوتھے کلمہ کا ورد بھی کرتا رہا کہ یہی
مسنون دعائیں بھی ہیں کیونکہ اس کے لئے کوئی دعا مخصوص نہیں طواف کے دوران
ذکر اﷲ میں مشغول رہنا اور دعا مانگنا افضل ہے کہ حالت طواف میں دعا قبول
ہوتی ہے بغیر ہاتھ اٹھائے دعا مانگنی چائیے بعض لوگ خصوصاً عورتیں کتابوں
سے دیکھ دیکھ کر دعائیں مانگ رہی تھیں جو درست نہیں کیونکہ دعا پڑھنا مقصود
نہیں دعا مانگنا ہے خشوع خضوع کے ساتھ دل سے مانگی ہوئی دعا یقیناً قبولیت
کو پہنچتی ہے جو دیکھ کر پڑھنے سے ممکن نہیں میں نے دیکھا بعض لوگ ٹولیوں
کی صورت میں اکثریت عورتوں کی تھی شائد مصری اور نائجرین تھے ایک آدمی دعا
پڑھتا جا رہا تھا دوسرے اس کو دوہرا رہے تھے جیسے چھوٹے بچوں کو قائدہ
پڑھایا جاتا ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کیا مانگ رہا ہے رقت قلب پیدا
نہیں ہوتی حجرِ اسود سے آگے بیت اﷲ کے دروازے کے سامنے مقامِ ِبراہیم ہے
جہاں ایک ستون مینار کی صورت نصب ہے جس میں وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر
حضرت ابراہیمٖ ؑنے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور ان کے پاؤں کے نشانات اس
پر ثبت ہوگئے تھے جو آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں(اس کی تفصیل آگے چل کر
آئے گی خانہ کعبہ کب ،کیسے اور کتنی بار تعمیر ہوا؟)تھوڑا آگے جا کر کعبہ
کے شمالی حصہ میں انسانی قد کے برابر قوس کی شکل میں ایک دیوار آتی ہے اس
کو’’ حطیم ‘‘کہتے ہیں یہ جگہ بیت اﷲ شریف کا حصّہ ہے ظہور اسلام سے کچھ
عرصہ قبل اہلِ مکہ نے کعبہ کی تعمیر کے دوران حلال خرچ کی کمی کی وجہ سے یہ
جگہ باہر چھوڑ دی تھی یہاں نفل کی ادئیگی کے لئے بہت رش ہو تا ہے اس کے
باہر سے آگے گزر کرمغرب اور جنوبی حصہ کے درمیان رکن یمانی آتا ہے ( رکن ِ
یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان (ربّنا آتنا فی دنیا۔۔۔) والی مسنون دعا
وردِ زباں رہی جس کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ رکنِ یمانی پر ستر(
۷۰ )ہزار فرشتے مقرر ہیں جب کوئی شخص یہ دعا پڑھتا ہے تو وہ فرشتے اس کی ا
دعا پر آمین کہتے ہیں)اس پر خوشبو نہ ملی ہو تو اس کو دونوں ہاتھوں یا
داہنے ہاتھ سے چھو لینا چائیے تاہم بوسہ دینا اور بائیں ہاتھ سے چھونا
خلافِ سنت ہے ہاتھ لگانے کا موقع نہ ملے تو ویسے گزر جانا چائیے حجرِ اسود
کی طرح دور سے استلام نہ کیا جائے حجرِ اسود کے سامنے پہنچ کر ایک چکر مکمل
ہوا تو دوسرے چکر کے لئے استلام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا رش بڑھتا جا رہا تھا
کچھ ہی دیر میں’’ کھوے سے کھوہ چلنے لگا ‘‘ کسی کو کسی کا ہوش نہیں مردو زن
کی تمیز کے بغیر سب کے سب اﷲ کے حضور حاضری میں مگن، طواف میں ادھر ادھر
دیکھنے کے بجائے ناک کی سیدھ میں دیکھنا چائیے اور یہ خیال رہے خانہ کعبہ
کی طرف منہ یا پیٹھ نہ ہوغالباً میرا پانچواں چکر تھا کہ عشاء کی نماز کے
لئے صفیں باندھنی شروع کر دی گئیں واضح ہو کہ نماز کے وقت طواف رک جاتا
لیکن باقی وقتوں میں طواف جاری رہتا ہے سو میں بھی بیت اﷲ شریف کے دروازے
کے سامنے رک گیا دھکم پیل یہاں بھی نوجوانوں کی جاری رہی امام کے پیچھے
دوسری صف میں نمازپڑھنے کی سعادت حاصل کی جن کا مصلہ خانہ کعبہ کے دروازے
کے سامنے بچھا تھا نماز کے بعد دوبارہ طوا ف شروع ہو گیا پہلی اور آٹھویں
مرتبہ استلام سنت موکدہ ہے باقی بیچ والے چکروں میں مستحب ہے سات چکر مکمل
کر کے آٹھویں دفعہ استلام کے بعد اضطباع کی حالت ختم کر دی تاہم سر بدستور
کھلا رہا اور مقامِ ابراہیم کی طرف آگیا تاکہ دو رکعات نماز طواف ادا کروں
(جوواجب ہے خواہ طواف فرض ہو یا واجب ،سنت ہو یانفل) مقا مِ ابراہیم کے
پیچھے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا سنت اور افضل ہے لیکن حرم کے
اندر کسی جگہ بھی پڑھ لی واجب ادا ہو جاتا ہے تاہم نمازِفجر کے بعد طلوع
آفتاب اور نمازِ عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور ممنوع اوقات میں نماز ادا
کرنا مکروہ ہے جبکہ طواف کے فوراً بعد ادا کرنا سنت لیکن بلا عذر تاخیر
مکروہ ہے البتہ ممنوع اوقات ہوں تو ان کے گزرنے کا انتظار جائز ہے، رش
زیادہ ہونے کی وجہ سے مقامِ ابراہیم کے پاس نماز ادا کرنا میرے لئے ممکن نہ
تھا اس لئے مطاف سے باہر نکل گیا کنارے پر تھوڑی سی جگہ مقامِ ابراہیم کے
سامنے مل گئی نماز ادا کی جس کے بعد دعاکی کہ طواف کے نفل پڑھنے کے بعد دعا
مانگنا مستحب ہے جس کے بعد ملتزم پر جانا سنت ہے لیکن پہلے عمرہ میں رش کی
وجہ سے ملتزم پر نہ جاسکا تاہم مدینہ سے واپسی پر ادا کئے گئے دو عمرہ میں
یہ سعادت بھی حاصل کی ـ’’ بیت اﷲ شریف کا وہ حصّّہ جو حجرِ اسود اور
دروازہٗ بیت اﷲ کے درمیان ہے ملتزم کہلاتا ہے اس مقام پر خاص طور پر دعا
قبول ہوتی ہے ،ملتزم سے رسول اﷲ ﷺاس طرح لپٹ جاتے تھے جس طرح بچہ ماں کے
سینہ سے لپٹ جاتا ہے اس جگہ لوگوں کو چمٹ کر روتے دیکھا اور خود بھی لطف
پایا ’’یا ربِ البیت ،یا ربِ البیت ،،،اے گھر والے اے گھر کے مالک کی پکار
دل کو چیرتی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا احسا س ہونے لگتا ہے لیکن ہجوم
زیادہ ہو تو کچھ دور کھڑے ہو کر خشوع وخضوع کے ساتھ دعا مانگی جا سکتی ہے
کیونکہ ربِ کریم کے آستانہ پر پہنچ گئے ہیں وہ سب جانتا اور سنتا ہے ملتزم
سے فارغ ہو کر آبِ زم زم پینا مستحب ہے بسم ا ﷲ پڑھ کر تین سانس میں خوب
پیٹ بھرکر پینا چائیے اور یہ دعا کرنا چائیے ’’اے اﷲ! میں آپ سے نفع دینے
والا علم ،کشادہ روزی اور ہر بیماری سے شفا مانگتا ہوں ‘‘ سو میں نے بھی
پیاس بجھائی اور الحمداﷲ کہہ کر مزکورہ دعا پڑھی۔
صاحبو! عمرہ میں احرام کے بعد تین چیزیں فرض ہوتی ہیں ایک طواف جو میں کر
چکا تھا دوسرا صفا ومروہ کے درمیان سعی جس کی طرف مجھے اب جا نا تھا لیکن
طواف کرنے اور دوگانہ نفل ادا کرنے کے بعد اور سعی سے پہلے نویں بار استلام
کرنا مستحب ہے اس لئے استلام کرتے ہوئے اﷲ اکبر ،لا الہ الااﷲ کا ورد کیا
اور نبی کریمﷺپر درود شریف بھیجتے ہوئے صفا ومروہ کی طرف چل دیا باب
الصفاکی طرف سے صفا پر پہنچ کر بیت اﷲ کی طرف منہ کرکے سعی کی نیت کی ’’اے
اﷲ میں تیری رضا کے لئے صفا مروہ کے درمیان سعی کا ارادہ کرتا ہوں اس کو
میرے لئے آسان کر دے‘‘اس کے بعد دونوں ہاتھ کندوں تک اس طرح اٹھائے جس طرح
دعا میں اٹھائے جاتے ہیں پھر اﷲ اکبر ،لا الہ الااﷲ ،الحمداﷲ اور درود شریف
پڑھ کر کوئی بھی دعا مانگی جاسکتی ہے تاہم مسنون اور آسان یہی ہے کہ( لا
الہ الااﷲ وحدہ لا شریک لہ۔۔۔)پڑھی جائے کیونکہ یہ قبولیت کی جگہ ہے جو بھی
دعا یاد ہو یا اﷲ سے لو لگانے کا سبب بنے پڑھ لی جائے ، اب میں صفا سے
دائینی طرف مروہ کی جانب گامزن تھا اور لب پر( ربِ غفر وارحم ۔۔۔)کا ورد
بھی کہ یہی مسنون ہے سبز ستونوں کے قریب پہنچ کر دوڑ لگا دی دیگر مرد حاجی
بھی بھاگ رہے تھے جو سبز ستونوں کی حد سے گزر کر پھر دھیمی چال چلنے لگے
کہ’’یہی سنت ہے حضرت اسماعیل ؑکی ماں حضرت ہاجرہ کی ،ہم سب کی ماں نے بیٹے
کی محبت میں پانی کی تلاش میں ایسا ہی کیا تھا جس کی تفصیل اآگے آئے گی‘‘
دورانِ سعی دنیا کے گوشے گوشے سے توحید کے پروانے کھچے چلے آئے تھے اﷲ کے
بندے اور بندیا ں سب اپنی اپنی چال اور حال میں مست سر جھکائے چلے جا رہے
تھے کسی کو کسی کی خبر نہیں عربی وعجمی سرخ و سفید سیاہ حبشی تیری سرکار
میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے رنگ ونسل قوم وملک کی حد بندیا ں ٹوٹنے لگتی
ہیں اسلام کی محبت میں سرشار عشاق کے قافلے دیکھ کر وحدت ِ کلمہ اور دینی
وحدت کا احساس ابھرنے لگتا ہے ایسے میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا احسا س
آنسوؤں کی جاری لڑی قبولیت کی ایسی گھڑی خدا سب کود کھائے کہ یہ کیفیت
سنائے نہیں بنتی ،مروہ پر پہنچ کر ایک چکر مکمل ہوا مروہ پر کھڑے ہو کر
کعبہ کی طرف منہ کر کے وہی تہلیل و تکبیر اور دعا اور پھر ایک بار صٖفا کی
طرف چل پڑا اس طرح صفا پر پہنچ کر دوسرا چکر مکمل ہوا پھربات ساتویں چکر تک
پہنچ گئی جو مروہ پر پہنچ کر مکمل ہوا اور سعی ختم ہوئی حج اور عمرہ میں
سعی واجب ہے دورکعات نفل شکرانہ ادا کئے گڑگڑا کر دعائیں مانگی یہ نفل مطاف
کے کنارے ادا کئے جائیں تو زیادہ اجر کا باعث ہے جب سعی مکمل کر کے فارغ
ہوا تو رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے بدن تھکاوٹ سے چور ہو چکا تھا ننگے
پاؤں کے تلوے سوجن کے باعث زمین پر رکھنا محال ہو چکا تھا کہ جیسے اﷲ
تعالیٰ نے سعی کے مقام پر تھکاوٹ رکھ دی ہے کیونکہ میں نے محسوس کیا آپ
جتنے بھی طواف کر لیں وہ تھکاٹ نہیں ہو گی جو سعی کے سات چکر لگانے کے بعد
آپ محسوس کرتے ہیں بابِ فہد کے راستے مسجد حرام سے باہر آیا پاؤں میں چپل
پہنے تو کچھ راحت محسوس ہوئی اب مرحلہ تھا عمرہ کے تیسرے فرض یعنی سر کے
بال منڈوانے کا (حلق سر کے سارے بال استرا سے کٹوانے کو کہتے ہیں اور قصر
ایک پور کے بقدر کتروانے کو )مسجد نبوی کے سامنے والے پلازہ کی تیسری منزل
پر حجام کی تلاش میں پہنچا تو حجام کی دوکان پر کھڑے ایک پاکستانی کاریگر
نے بتایا ہم تیس ریال لیں گے نیچے پہلے فلور پر چلے جاؤ دس ریال میں کام ہو
جائے گا بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر کے نیچے والی منزل پر پہنچا تو وہاں
کھڑے حجاموں کی قطار اپنی اپنی جانب متوجہ کرتے دکھائی دی ایک پاکستانی کے
ساتھ ہو لیا اپنی دوکان پر لے گیا جو ایک عربی کی ملکیت تھی لیکن پاکستانی
اس کے پاس کاریگر کے طور پر کام کرتے تھے سر پر ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی
بار استرا پھرواتے ہوئے بڑا مزہ آرہا تھا اور تھکاوٹ کی وجہ سے نیند بھی
،سر منڈوا کر فارغ ہوا تو اب جہاں احرام کی پابندیوں سے آزاد تھا وہاں بھوک
کی شدت اور ساتھیوں کا خیال ستانے لگا کہ پتہ نہیں عمرہ کر کے واپس ڈیرے پر
چلے گئے یا ابھی تک یہی ہیں وقت دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے کھانا کھا
کر جانا ہی مناسب خیال کیا کہ پھر کون بازار آئے گا ساتھی اب تک کھانا کھا
چکے ہوں گے سو ایک دوکان سے پلاؤ کی پلیٹ اور جوس کا ڈبہ لے کر مسجد حرام
کی طر ف جانے والی سیڑیوں پر ہی کھانے بیٹھ گیا طعام کا پیٹ میں جانا تھا
کہ کلام کی سکت لوٹنے لگی لیکن پاؤں پر کھڑا ہونا محال تھا جیسے تیسے اٹھا
اور لڑکھڑاتے قدموں سے ڈیرے کی طرف چل پڑا جو الخلیل روڈ پر پل کے ساتھ
دائیں جانب مڑنے والی اوپر چڑھتی سڑک پرتھوڑا اوپر واقع تھاہوٹل پہنچا تو
سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر دراز تھے لیکن پٹھان ماما نہیں تھا پوچھنے
پرحاجی وہاب نے بتایا ماما بغیر سعی کے آگیا تھا اس کو واپس’’ سعی ‘‘کے لئے
بھیجا ہے دراصل مغرب کے وقت بیت اﷲ شریف جاتے ہم سب لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ
گئے تھے جو رش میں معمول کی بات ہے مزے کی بات یہ تھی ایک دوسرے کے فون
نمبر بھی نہیں تھے کیونکہ کسی نے بھی سمز نہیں خرید کی تھیں لیکن مدینہ میں
جاکر سب سے پہلے یہی کام کیا کمرے میں موجود لوگوں نے ابھی تک کھانا نہیں
کھایا تھا میرا انتظار کر رہے تھے لیکن جب میں نے بتا یا کہ دیر ہوجانے کی
وجہ سے میں نے کھانا اس لئے کھا لیا تھا کہ باقی لوگ شائد کھانا کھا چکے
ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا مجھے بڑی ندامت ہو رہی تھی ـــــــ’’ مرتے
کیا، نہ کرتے ‘‘سب نے جوس پر ہی اکتفا کیا کہ سحری کے وقت ایک بار ہی کھانا
کھا لیا جائے گا اب کھائیں گے تو سحری کیوقت پھر نہیں کھایاجاے گا معظم
نامی لڑکا جو حاجی رمضان کا جاننے والا تھا مکہ ٹاور میں کام کرتا ہے اور
گجر خان کا رہنے والا ہے بھی ملنے آیا ہوا تھا جاتے ہوئے یہ کہہ کر گیا کہ
آپ لوگ سو جائیں میں سحری میں فون کر کے اٹھا دوں گا ہم لوگ تھکاوٹ کی وجہ
سے جلد سو گئے اور ایسی گہری نیند سوئے کہ جب آنکھ کھلی تو سحری کی آذان ہو
رہی تھی اور حاجی وہاب صاحب کہہ رہے تھے رات کے کھائے پیئے پر ہی روزہ کی
نیت کر لیں مجبوری ہے سب نے اٹھ کے وضو کر کے صبح کی نماز ادا کی اور کچھ
دیر کے لئے پھر سو گئے نو بجے کے قریب نیند سے بیدار ہوئے سب نے نماز جمعہ
کے لئے غسل کیا ہوٹل سے نکل کر الخلیل روڈ پر آئے توحاجی رمضان نے سب
دوستوں کو مکہ معظمہ کے بازار کی ایک دوکان سے ٹوپیاں لے کر دیں یہ مقدس
دھرتی سے ہماری پہلی خریداری تھی ہم لوگ گیارہ بجے کے قریب مسجد الحرام میں
پہنچ گئے مجھے فلور گراؤنڈ پر خانہ کعبہ کے سامنے جگہ مل گئی خطبہ میں ابھی
کافی وقت تھا میں نے کچھ دیر تلاوت کلام کی پھر خانہ کعبہ کو حسرت بھری
نگاہ سے دیکھنے کی سعادت حاصل کرتا رہا کہ خانہ کعبہ کو دیکھنا بھی باعثِ
ثواب ہے نماز کا وقت قریب ہوا تو امام کعبہ نے مختصر خطاب کے بعدخطبہ پڑھا
نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہم لوگ واپس اپنی رہائش گاہ پر آگئے کیونکہ آج
مدینہ کے لئے روانگی کا پروگرام طے تھا ہوٹل آکر مدینہ منورہ کے لئے روانگی
کا پروگرام معلوم کیا تو پتہ چلا چار بجے کے قریب گاڑی ہوٹل کے پاس کبری
(عربی میں پل کو کہتے ہیں)کے نیچے آجائے گی سوسامان سمیٹ کر تیاری میں لگ
گئے وہاب بھائی کے ساتھ جاکر خالد شہزاد نے ہوٹل والوں سے پاسپورٹ کی واپسی
کا مطالبہ کیا تو وہ صاف انکاری ہوگئے کہ پاسپورٹ واپس جاتے ہوئے جدہ ائیر
پورٹ پر ہی ملیں گے کیونکہ سختی سے منع کیا گیا ہے جس کی منطق یہ بتائی گئی
کہ لوگ غائب ہو جاتے ہیں اور جس ایجنٹ کا بندہ غائب ہوگا اسکا لائسنس کینسل
ہونے کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی ادا کرے گا حاجی رمضان اس پر بھڑک اٹھا کہ
ابھی فون کر کے اپنے ایجنٹ کی کلاس لیتا ہوں ہمیں پاسپورٹ مدینہ میں اعتکاف
کا کارڈ حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہیں لیکن سعی لاحاصل رہی البتہ ہمارے پاس
سب پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں موجود تھیں جس سے کام چلایا جا سکتا تھا اسی
دوران گاڑی کی آمد کی خبر ملی سامان کمرے سے نیچے لائے لیکن گاڑی ابھی نہیں
پہنچی تھی سو نماز عصر ہوٹل ہی میں ادا کی اور انتظار میں بیٹھ گئے پانچ
بجے کے قریب پھربتایا گیا گاڑی نیچے کبری کے پاس آگئی ہے سامان لے کر وہاں
پہنچ جائیں سب گاڑی کے پاس پہنچے سامان لوڈ کیا گیا اور ہم لوگ گاڑی میں
بیٹھ گئے جو ایک آدھ گھنٹے میں مدینہ منورہ کے روانہ ہوئی جس کا حوال اگلے
کالم میں پیش کروں گا ۔ |
|