بھارت کب تک دنیا کو دھوکہ دے گا

وسط ایشیا کو پاکستان کے لئے بند کرنے کی دھمکی اپنی جگہ ۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان اور آزادا کشمیر کے مقبوضہ کشمیر سے حالات یکسر مختلف ہیں۔ ان کا آپس میں کوئی میل نہیں۔ بھارت دنیا کے دباؤ سے بچنے کے لئے بلوچستان اور آزاد کشمیر کا ذکر کر رہا ہے۔ دہلی کی شروع سے یہی پالیسی رہی ہے۔ جب بھارتی فوج کشمیر میں قتل عام اور نسل کشی تیز کر دیتی ہے۔ تب بھارت پر فوج کم کرنے یا اسے بارکوں میں واپس بھیجنے کا دباؤپڑتاہے۔ بھار ت اس دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے مزید فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل کرتا ہے۔ وہ دباؤ سے نکلنے کے لئے کشمیریوں پر بندوق اور طاقت سے اور پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالنا شروع کرتا ہے۔ اس کے پاس اب کئی کارڈز ہیں۔ یہ پتے وہ تکنیکی انداز میں کھیلتا ہے۔

افغانستان اور ایران کو بھی ساتھ ملانے کی حکمت عملی دہلی کی نئی چالیں ہیں۔ چابہار بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے میں لانے کے تناظر میں ایرا ن کا کردار ایک الگ موضوع ہے۔ ایران اور پاکستان مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ بھارت کی کوشش کے باوجود ایران اپنا وزن دلی کے پلڑے میں نہیں ڈالتا۔ یہی افغانستان کا معاملہ ہے۔ آج افغان صدر اشرف غنی بھارت کے دورے پر ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے لئے اپنی منڈیاں اور وسائل پیش کئے ہیں۔ اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں۔ بارڈر منیجمنٹ کا معاملہ بھارتی اعانت یافتہ دہشتگردوں کی در اندازی کو روکناہے۔ بھارت نے پاک افغان تعلق میں دراڑیں ڈالنے کے لئے سب آپشن استعمال کئے۔ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ وہاں اپنے اڈے قائم کئے۔ یہ بھی ایک دن پتہ چلے گا کہ پاکستانی چوکیوں پر حملے افغانو ں نے نہیں بلکہ بھارتی کمانڈوز نے کئے۔ اسلام آباد کو کابل سے کاٹدینا مقصد ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ نظریاتی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے آر پار دوست و احباب کا مسکن ہے۔ یہ لوگ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان نے افغانستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ دونوں کے مفادات ایک ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ شمالی اتحاد کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دہلی سے متعلق نرم رویہ کسی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ مگر یہ سب دیر پا یا پائیدار نہیں رہ سکتا ۔ عوام حکمرانوں کے زاتی مفاد کے لئے پاکستان کے خلاف صف آراء نہیں ہو سکتے۔ کم از کم بھارت کے لئے ایسا نہیں ہو سکتا۔ ملکی سلامتی اور دفاع کے بارے میں کسی خوش فہمی یا سستی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اعتماد سازی کے اقدامات بھی الرٹ رہنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ سفر کھائیوں کی چوٹیوں سے جاری ہے۔لمحہ بھر کے لئے بھی آنکھ لگ گئی تو گہری کھائی مقدر بن سکتی ہے۔

ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ بھی ایک بار پھر ابھر رہا ہے۔ بھارت اس راہداری خاص طور پر واہگہ سرحد کو افغانستان کے لئے زیر کار لانا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد چاکلیٹ یا ٹافیاں افغان بچوں کو سپلائی کرنا نہیں بلکہ اس راستے وہ وسط ایشیا اور ایران تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مقصد اپنا ہے۔ اشرف غنی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان غلط فہمیاں اسی طرح پیدا ہوں گی۔ جیسا کہ بھارت نے پروپگنڈہ شروع کر دیا۔ اشرف غنی کہتے ہیں کہ پاکستان نے واہگہ راستہ اس پر بند کیا تو وہ وسط ایشیا کو پاکستان پر بند کر دے گا۔ یہ دھمکی انہوں نے دہلی میں بیٹھ کر جاری اس لئے کی کہ نریندر مودی کی اسی میں خوشنودی تھی۔ جب کہ بھارت ٹرانزٹ ٹریڈ کو افغانستان کی امداد کے لئے استعمال کرنے کا لالی پپ افغانوں کو دے رہا ہے۔ یہ راستے اس نے افغانستان میں اپنے فوجی اڈوں اور جنگی سامان کی ترسیل کے لئے استعمال کرنے ہیں۔ یہ ایک بہتر آپشن ہے کہ بھارت کا انحصار پاکستان پر کسی طور پر بھی رہنا چاہیئے۔ گیس پائپ لائن یا کسی دیگر وجہ سے یہ ممکن بنے۔ تا کہ بارگین کی راہ کھل سکے۔ ایسا ہوا تو یہ کہنا ممکن ہو گا کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ تا ہم یہ تاثر جو بھارت نے عام کیا ہے کہ وہ کابل کا ہمدرد وخیر خواہ اور پاکستان اس کے مفادات کو زکھ پہنچاتا ہے، زائل ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ وہ اب بھی یہاں موجود ہیں۔ وہ امن کے اور پاکستان کے بارے میں اچھا تاثر اپنے عوام میں پھیلا سکتے ہیں۔ افغانستان کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کی حوصلہ شکنی اور ا س کا مداوا ضروری ہے۔

افغانستان کے پاکستان کے تعلقات کی بنیاد پر بھارت کو بلوچستان میں کھلی مداخلت کا موقع ملا ہے۔ دنیا کا ہر ایک ملک اپنے حریف یا پڑوسی ملک کو اگر کمزور اور تقسیم کرتا ہے تو پہلے پہل یہ کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی تھی۔آج کا زمانہ کمزور اور نادار پڑوسی کا نہیں۔ بلکہ آج پڑوسی جتنا پر امن اور خوشحال ، ترق یافتہ ہو، اتنا دونوں عوام کے لئے زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔ پڑوسیوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ اگر کسی بھی شعبے میں افغانستان کی پیداوار زیادہ ہوتی تو سر پلس مال کی پاکستان میں کھپت ہو سکتی ہے۔ در آمدات اور برآمدات کا بھی تعلق اسی سے ہے۔

چین اگر نیپال میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس کے بھی معاشی مقاصد ہیں۔دہلی کی کوشش بیجنگ کو کھٹمنڈو سے دور رکھنے کی ہے۔ اسی طرح بھارت جاپان سے مل کر چین کے مفادات پر ضرب لگانے کے درپے ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی محاذ آرائی سرحد پار دہشت گردی اور دراندازی میں پاکستان کو ملوث کرنے اور پھنسانے کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر میں اپ رائزنگ یا تحریک مزاحمت کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ اس کے لئے وہ قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے کو کچلنے کے لئے نسل کشی کی جا رہی ہے۔بھارت نے عید کے دن بھی کرفیو، پابندیاں، مار دھاڑ، توڑ پھوڑ، گرفتاریاں۔مسلمانوں کو کسی بھی عید گاہ اور میدان یا جامع مسجد میں نماز عید ادا کرنے سے روکا گیا۔یہی نہیں دو نوجوانوں کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ اس لئے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین نے کشمیر میں قتل عام کی انٹرنیشنل انکوائری کرانا ضروری قرار دیا۔ بھارت عالمی اداروں کو کشمیر تک رسائی نہیں دیتا۔ تا کہ وہ بے نقاب نہ ہوسکے اور حقائق کا دنیا کو پتہ نہ چل جائے۔ یو این کمشنر کو کشمیر میں آزاد، منصفانہ اور انٹرنیشل مشن قائم کرنے کے اپنے مطالبے کو شدت سے پیش کرنا چاہیئے۔ پاکستان عالمی اداروں کو خود آزاد کشمیر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں اس مشن کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اگرانسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بھارتی اقدامات کا بھی سخت نوٹس لے تو اس سے بھارت پر کچھ دباؤ پڑ سکتا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور نسل کشی پالیسی کے ساتھ ریاستی دہشت گردی تیز ہو رہی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ غیر جانبدار مبصرین کشمیریوں کی ریفرنڈم یا حق خود ارادیت کی تحریک کو قتل عام اور ریاستی تشدد سے کچلنے کی بھارتی پالیسی کا نوٹس لے کر انکوائری کریں تو سچ سامنے آ سکتا ہے۔ بھارتی جموریت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستان پر الزمات لگا کر یا دنیا کو دھوکہ دے کربھارت کب تک اپنی فورسز کے قتل عام کو چھپاتا رہے گا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488922 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More