الوداع……میرے محسن و مربی…… الوداع

یہ دنیا آنے اور جانے کی جگہ ہے، یہاں کسی کو دوام نہیں۔ روزانہ کتنے لوگ رب کے پاس لوٹ جاتے ہیں اور کتنے نئے وارد ہوتے ہیں۔ کسی آنے والے کے بارے میں تو نیک تمناوں کا اظہار کیا جاسکتا ہے لیکن جانے والا تو پوری تاریخ چھوڑ کر جاتا ہے۔ یوں تو دنیا میں آنے والا ہر فرد اشرف المخلوق میں شامل ہوتا ہے اور پھر مسلمان تو "حزب اﷲ" میں شمار ہوتا ہے۔یہاں کیسے کیسے لوگ آئے، جنہوں نے انسانیت کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔ میرے چچا جی بھی ایسی ہی جیدشخصیات میں سے تھے، جن پر انسانیت ناز کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ان سے محبت کرنے والے بہت ہیں لیکن نفرت کرنے والا کوئی نہیں۔ یہی ان کی شخصیت کا کمال تھا۔

علامہ عبد العزیز حنیف، سنیئر نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نو ستمبر کو مرکزی جامع مسجد اہل حدیث اسلام آباد میں خطبہ جمعہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے ممبر رسول ﷺ پر جان جان آفرین کے سپرد کرگئے۔ وہ ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں چلتے پھرتے اور دین کی خدمت کرتے ہوئے اپنے پاس بلائے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ ان کا بیٹا حافظ ابوبکر صدیق فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کے سفر پر تھا تو علامہ صاحب نے خطبہ جمعہ المبارک خود دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلا خطبہ مکمل کرہی پائے تھے کہ لرز کر ممبر پر گر پڑے، ہسپتا ل منتقل ہوئے اور چند لمحوں بعد جان جان آفریں کے سپر دکر گئے حالانکہ وہ صحت کی خرابی کی باعث کئی سالوں سے خطبہ جمعہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان کی نماز جنازہ دس ستمبر کو مرکز اہل حدیث اسلام آباد میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد کی شرکت اور بالخصوص جماعت اسلامی، جماعتہ الدعوہ ،جماعت اہل سنت (دیوبند) اور جماعت اہل سنت (بریلوی ) مکاتب فکر کے قائدین کی شرکت نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس پرفتن دور میں بھی اتحاد امت کے نہ صرف داعی تھے بلکہ عملی تصویر بھی تھے۔ اس موقعہ پر علامہ سینیٹر ساجد میر، عبدالرشید ترابی امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر و ممبر قانون ساز اسمبلی، مولانا محمد نذیر فاروقی (دیوبندی مکتب فکر) ، مولانا علامہ ضمیر احمد (بریلوی مکتب فکر) ، حافظ عبدالرحمن مکی جماعت الدعوہ تعزیتی کلمات میں علامہ مرحوم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاا کہ وہ اتحاد امت کے داعی اور غلبہ دین کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والے مجاہد تھے۔یاد رہے کہ اسلام آباد کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے درمیان وہ متفق علیہ راہنماء تھے، جس کی رائے پر ہمیشہ سب ہی علماء متفق ہوجایا کرتے تھے۔

انسان تین دائروں میں بہت قریب سے پہچانا چاتا ہے، پہلا خاندان، دوسرا پڑوس، تیسرا جس جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔ علامہ صاحب جس قدر اپنے خاندان میں مقبول تھے ایسا کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے خاندان کے معصوم بچوں کو بھی اشک بار دیکھا اور ہر بزرگ وجواں بے ساختہ اور ٹوٹ ٹوٹ کر اپنے کرب کا اظہار کررہا تھا۔آج اسلام آباد اور راولپنڈی میں ان کے خاندان کے ایک سو سے زائد افراد مقیم ہیں، اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور کچھ بہت اچھے کاروبار کرتے ہیں۔ یہ سب ان کی شفقت اور خاندان سے محبت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ورنہ کچھ لوگ کسی مقام اور مرتبہ پر پہنچ کر اپنے خاندان اور عزیز و اقارب سے فاصلہ اختیار کرلیتے ہیں۔ خاندان میں حسد بھی ہوتا ہے اور شریک بھی ہوتے ہیں۔ جو دوسرے کی ترقی دیکھ نہیں پاتے لیکن حضرت علامہ کی عالی ظرفی کے باعث ہر ایک ان کا احترام ہی نہیں بلکہ ان سے عقید ت بھی رکھتا تھا۔

انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتروقت جی سکس (سیکٹر) اسلام آباد میں گزارا۔جہاں کے بزرگ، جوان، خواتین اور بچہ بچہ نماز جنازہ میں شامل تھا اور ہم سے اظہار افسوس کررہا تھا۔تاجر، ملازم پیشہ حضرات، افسران، اہل کاران، چھابڑی والے، ہاکر اور مزدور بھی ان کے ایسے ہی غمخوار تھے جیسے ان کی قریب ترین احباب اور اعزاء۔ میں نے ان کے پڑوسیوں کو کس تیزی سے دین کی طرف پلٹے ہوئے دیکھا، یہ ان کی شب و روز محنت کا عملی ثبوت تھا۔ کتنے ہی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ وہ جہاں ملک بھر میں مقبول تھے ویسے ہی اپنے محلے اور پڑوس میں بچوں، بوڑھوں اور جوانوں میں مقبول رہے ہیں۔ جہاں ان کا تعلق قائدین سے تھا وہاں ہی وہ محلے کے دوکانداروں، ریڑی والوں اور مزدوروں سے بھی دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ان کا جسد خاکی جب جی سکس پہنچا تو سب سے پہلے میں نے ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا، جو فون پر مسلسل اپنے پولیس کے ملازمین کو علامہ صاحب کی رحلت کی اطلاع دئیے جارہا تھا۔

تیسرا دائرہ وہ تنظیم ہوتی ہے جس میں انسان بخوبی پہچانا جاتا ہے، جہاں مختلف مراحل میں انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو نمایاں ہوتے رہتے ہیں۔ آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سابق ناظم اعلیٰ اور پھر سنیئر نائب امیر رہے۔ ان ذمہ داریوں کے باعث ان کا حلقہ احباب پاکستان بھر اور بیرون ملک تک وسیع تھا۔ نمازہ جنازہ کی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سینٹر پروفیسر ساجد میر نے ان کی زندگی کا ایک فقر ے میں احاطہ کرتے ہوئے کہا "میں علماء کرام سے ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ وہ علامہ عبدالعزیز حنیف سے ممیز حاصل کریں" انہوں نے کہا کہ وہ اپنے لباس، تراش خراش کی طرح اندر سے بھی پاک صاف انسان تھے۔ ایسے پاک صاف کہ عصر حاضر میں تلاش کرنے پر بھی ثانی نہ رکھتے ہوں۔

میں ذاتی طور پر ان کی شفقت سے مستفید ہوا۔ زندگی کے بارہ سال توان کے گھر میں گزارے۔ میری پرورش انہوں نے کی، میری تعلیم و تربیت ان کی مرہون منت ہے۔ میں نے انہیں ہر روپ میں دیکھا۔ وہ اپنے چچا اور ہمارے نانا جی مولانا عبد الرحمن رحمتہ اﷲ علیہ اور اپنے استاد علامہ محمد یوسف کلکتوی رحمتہ اﷲ علیہ کا اکثر ذکر فرماتے تھے ان کی شفقت اور راہنمائی پر نازاں تھے۔ وہ ہمارے لیے مشعل راہ تھے اور ہیں۔ ان سے اپنی نسبت پر فخر تھا، وہ ہمیں ایک ایسی پہچان دے گئے ہیں، جس پر ہم تا حیات فخرکرتے رہیں گے بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس نسبت پر نازاں رہیں گی اور ان کے نقوش قلم پر چلیں گی۔

ان کے بچوں نے جس طرح ان کی خدمت کی وہ بے مثال ہے۔ جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ ان کی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد نے جس طرح انہیں رخصت کیا اور جس طرح اہل اسلام آباد اور بیرون شہر سے آنے والے احباب نے ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ہم ان سب کے شکرگزار ہیں اور ان کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے، ہم اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ آپ سب کو اجر عظیم سے نوازے۔ (آمین)
آج میں جس کرب سے دوچار ہوں، اس کیفیت میں ڈھنگ سے لکھنا بھی ممکن نہیں، تاہم اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ ہمارے سروں کا سایہ چھٹ گیا، ہم ایک ایسے شخص کی شفقت سے محروم ہوگئے، جس کا دل اور دامن بہت وسیع تھا۔ رب العالمین انہیں جس شان سے ممبر رسول صلی اﷲ وعلیہ وسلم سے اٹھا کر اپنے حضور لے گیا ہے، یا رب العالمین اپنی جنت میں بھی انہیں اسی شان اور شوکت سے رکھیے۔۔۔۔ ان کی زندگی ہمارے لیے جس اعزار کا باعث تھی، ان کی رحلت بھی ہمارے لیے ایک لازوال اعزاز سے نواز گئی۔ الوداع، میرے مربی، میرے محسن، الوداع، میرے آنکھوں سے برستے آنسو ور لرزتی انگلیوں سے نکلنے والے بت ڈھنگ الفاظ میرے احساسات کی ترجمانی نہیں کرسکتے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117341 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More