ایک جیسے غلام

حیرت ہے ‘ یہ مسلم حکمران اب کہتے ہیں کہ امریکہ انہیں برباد کرنا چاہتا ہے ۔ تب وہ خاموش تماشائی تھے‘ جب عالمی غنڈہ عراق کو برباد کر رہا تھا ‘ ہزاروں کلومیٹر دور سے آ کر بغداد کا امن تاراج کر رہا تھا۔جب امریکہ نہتے بے گناہ افغانیوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہا تھا ‘ جب ڈیزی کٹر اور نیپام بم افغانستان کی بستیوں کو بھسم کر رہے تھے‘ تو را بورا میں انسانی جسموں کا قیمہ بنایا جا رہا تھا اور قلعہ جنگی میں افغانی مٹائے جا رہے تھے ‘ ابو غریب جیل میں انسانیت کی تذلیل کی جا رہی تھی ۔ بگرام کے ایئر بیس پر انسانوں کی کھال ادھیڑی جا رہی تھی اور گوانتاناموبے میں نازی مظالم شرما رہے تھے۔ تب یہ مسلم حکمران تماشادیکھ رہے تھے ۔عراق اور افغانستان کے چاروں اطراف پھیلے مسلم ممالک کے بے حس حکمران جنہیں اس جرم کو روکنا تھا ‘ عملاً عالمی غنڈے کے دست و بازو بن گئے تھے ۔وہ دور حاضر کے فرعون کو اپنے کندھے پیش کرتے چلے گئے۔ امریکہ ہر قسم کے قانون اور اخلاق سے عاری ان مسلم ممالک کو نشانہ بناتا رہا۔ ہزاروں کلومیٹر دور سے آ کر وہ مسلم ممالک کی سر زمین مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے لگا ۔ تب بھی یہ مسلم حکمران خاموش تماشائی بنے رہے ۔وہ کون سا خلیجی ملک تھا جس نے اپنی سر زمین ‘ سمندر اورفضائیں فخر کے ساتھ امریکہ کو پیش نہیں کیں۔ایک فرد (صدام )کی دشمنی میں ان حکمرانوں نے لاکھوں انسانوں کا لہو اپنی گردنوں کا ہار بنا لیا ‘ یہاں تک کہ امریکہ ہمارے ان حکمرانوں کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر ان کے شہروں کو تہہ تیغ کرتا چلا گیا لیکن احتجاج کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی ۔
کہنے کو یہ سب مسلمان ملک ہیں ‘ ایک مسلم امہ کے ارکان ہیں لیکن خود مسلم امہ ایک واہمے سے زیادہ نہیں رہی ‘ایک سراب سے کم نہیں۔ اس کا وجود ہے بھی اور نہیں بھی۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ایک ارب سے زیادہ مسلمان ایک ہی امہ کے افراد ہیں ۔ انہیں جگہ جگہ ‘ ظلم اور ناانصافی کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں کفر کی طاقتیں مسلمانوں کو مٹانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہیں لیکن ایک ارب سے زاید مسلمان ہونے کے باوجود اپنے بچاؤ کے لیے متحد نہیں ہیں ۔ ان کے اندر کوئی دور اندیش قیادت موجود نہیں ‘ ان کے حکمران بزدل ‘ عیش پسند اور مفاد پرست ہیں ‘ وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی مسلمان ملک اپنی جان بچانے کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور حکمران اپنی کھال بچانے کی فکر میں ہیں ۔ عراق کا صدام حسین ہوں یا تیونس کا زین العابدین یا مصر کا حسنی مبارک ہو‘اسی نظریے پر گامزن رہے ہیں اور برسوں تک عالمی بد معاش کی چاکری کرتے رہے ۔صدام نے بدمعاش کے اشاروں پر ایران کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ‘ دس سال تک عالمی بد معاش کے چیلے کی حیثیت سے ایران کے خلاف لڑتا رہا ۔ پھر اس نے اس کی شہ پر کویت کو نشانہ بنایا لیکن یہ ایک جال تھا جو خود اس نے اپنے لیے تیار کیا تھا اور عالمی بد معاش نے اسے فوراً اپنے شکنجے میں کس لیا ۔ عالمی بدمعاش نے پہلے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی پھر اس پر بد ترین اقتصادی پابندیاں لگا کر صدام حسین کو نمونہ عبرت بنا دیا لیکن شاید اس کے لیے اتنی سزا کافی نہ تھی ۔ا ب وہ عراق کو مزید سزا دے رہا ہے اور اس پر قابض بھی ہو چکا ہے ۔ عراقی تیل پر اس کی رال ٹپک رہی تھی۔ وہ پوری دنیا کے احتجاج کے باوجود عراق کے تیل کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے تباہی و بربادی کا شیطانی کھیل کھیل رہا ہے ۔ اس نے عراقی عوام کو صدام حسین کے چنگل سے رہائی دلانے کا ناٹک رچایا ہے ۔ ایک ایسی رہائی جس میں عراقی عوام زندگی کی قید سے رہا ہو گئے ‘ ان پر وہ تمام مہلک ہتھیار آزمائے جا رہے ہیں ‘ جو افغانستان میں چلنے سے رہ گئے تھے ‘ان کے لیے بائیس ہزار پونڈ وزنی ’’ بموں کی ماں‘‘ کا تجربہ کیاگیا ۔ عالم اسلام میں صرف ایک ہی صدام نہیں تھا تیونس سے مصر اور وہاں سے دیگر عرب ریاستوں کی طرف بڑھتا عوامی طوفان امریکی مہروں کے خلاف ہی تو ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عالمی بد معاش نے ہر ملک میں اپنے صدام بٹھا رکھے تھے ‘ کوئی بڑا صدام ہے کوئی چھوٹا صدام ہے کسی نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے کوئی آمریت کے تخت پر بیٹھا ہے ‘ کوئی بادشاہت میں کھیل رہا ہے ۔ سب ایک جیسے ہیں ‘ ایک ہی آقا کے غلام ‘ ایک ہی مالک کے تابع فرمان ‘ ایک جیسے غلام ۔ وہ بس اسی فکر میں تھے کہ ان کی باری نہ آنے پائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بھیڑ وں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں اور بھیڑیا انہیں کھانے سے احتراز کرے۔آخر سب کی باری آگئی۔بکرے کی ماں کب تک خیر مانگتی۔

ہمیں صرف مسلم ممالک کے ان حکمرانوں کا نوحہ پڑھنے کے بجائے پوری امت مسلمہ کا نوحہ پڑھنا چاہیے کہ اس نے اپنے وجود کو عدم وجود میں بدل دیا ہے ‘ اس نے خود اپنے ہونے کی نفی کر دی ہے ‘ وہ عزت کی موت کو گلے لگانے کے بجائے ذلت کی موت کو خوش آمدید کہہ رہی ہے ‘ اگر مرنا ہی اس کے مقدر میں لکھا ہے تو وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے کیوں کترا رہی ہے ‘ وہ سسک سسک کر مرنے کے بجائے بہادری کے ساتھ مرنے سے کیوں گریزاں ہے ؟

جب تک ہم ڈرتے رہیں گے‘ پتھر کے دور میں داخل ہونے کے خوف میں مبتلا رہیں گے ‘بھوک کا خوف ہمیں ستاتا رہے گا ‘تب تک ہم مرتے بھی رہیں گے اور ذلت کا شکار بھی رہیں گے۔ ہماری بستیوں پر اسی طرح آتش و آہن کی بارش ہوتی رہے گی ۔ ہمارے شہروں میں اسی طرح ریمنڈ ڈیوس دندناتے پھریں گے۔ ہمارے ملکوں کی خود مختاری اور آزادیاں یوں ہی پامال ہوتی رہے گی ۔ ریت میں سر چھپانے سے خطرات ٹل نہیں جاتے ۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھ کر اب قبول کر لینا چاہیے کہ ستم کی سیاہ راتیں ہماری جانب بڑھتی چلی آ رہی ہیں ۔

دنیا میں وہ کون سا قانون ہے جو امریکہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جہاں چاہے گُھس جائے ۔امن قائم کرنا اس کے ذمے داری کیسے ہو سکتی ہے جو خود امن کا دشمن ہو؟ جس نے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار ا ہو ‘ وہ کیوں کر زندگی کا پیامبر ہو سکتا ہے؟بچے کھچے چند مسلم ممالک کے لیے لازمی ہے کہ وہ دیوار پر لکھا پڑھ لیں ‘قبل اس کے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے ۔ عالمی غنڈے کی منصوبہ بندی کی چند جھلکیاں وکی لیکس میں آشکار ہو چکی ہیں ‘ کچھ اس کے عالمی اقدامات میں جھلک رہی ہیں ۔ اسلامی ملکوں کو بنجر بنانے ‘ خاشاک کرنے اور افراتفری برپا کرنے ‘ حکمرانوں کو اپنا پٹھو بنانے کی امریکی مشق کے مقابل ہماری تگ وتاز شروع نہیں ہوگی تو یہ ایک ایک کر کے سب کو ریمنڈ ڈیوسوں کے ذریعے ’’ اپنے دفاع‘‘ میں پار کر دے گا۔
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 33954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.