معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے خواجہ
اظہار الحسن کو جس تضحیک آمیز انداز سے گرفتار کیا اس سے عام خیال یہی ہے
کہ کراچی سمیت سندھ بھر کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے گراف میں اضافہ
ہوا ہے اور ایم کیوایم نے عوام کی ہمدردیاں سمیٹیں ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی
سوال اٹھ رہے ہیں کہ راؤ انوار نے جو کچھ کیا اس میں اپنی مرضی تھی یا کسی
کے کہنے پر انھوں نے اچانک یہ اقدام اٹھایا۔ ایک ایسے ماحول میں کہ جب ایم
کیو ایم شدید سیاسی اور اخلاقی دباؤ میں ہے ، اس کے کسی مرکزی رہنما کے
ساتھ بد سلوکی کی جائے یا اسے تضحیک آمیز انداز سے گرفتار کیا جائے تو پھر
ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم کو ہمدردیاں ہی ملیں گے۔ راؤ انوار نے اپنی معطلی
کے بعد میڈیا ٹاک میں حکومت کے لئے جو الفاظ استعمال کئے انھیں سن کر یہ
اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اتنی جرات کسی ایسے ہی شخض کی ہو سکتی ہے کہ جس
کی بیکنگ پر کوئی اہم اور فیصلہ ساز قوت بیٹھی ہو۔ گریڈ 19کے ایک پولیس ایس
ایس پی نے پوری حکومت کی رٹ کا چینلج کیا لیکن اس کے باوجود اس پولیس افسر
کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا کوئی امکان نہیں۔ اس سے قبل بھی راؤ انوار اسی
قسم کی ایک کارروائی کے بعد معطل ہو چکے ہیں لیکن بعد میں انھیں بحال کر
دیا گیا تھا ۔ ماضی میں راؤ انوار کے حوالے سے یہ بھی تاثر عام تھا کہ
انھیں پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ پیپلز پارٹی
کی دبئی میں بیٹھی قیادت کے احکامات کے تابع ہیں۔ لیکن جس طرح انھوں نے
گزشتہ روز میڈیا ٹاک میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور وزیراعلی کے خلا ف باتیں
کیں اور الزامات لگائے انھیں سن کر یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ جیسے اب وہ
پیپلزپارٹی کے نیٹ ورک میں نہیں رہے ۔ ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ
اب راؤ انوار کسی اور کے نیٹ ورک میں آ چکے ہیں ۔ اس پورے معاملے میں ایک
اور بات جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ خواجہ اظہار الحسن کے معاملے میں
ملک بھر کی زیادہ تر سیاسی قوتیں اور پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آ چکی ہیں
اور ملک میں موجود غیر سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے
کہ جمہوریت، جمہوری اداروں اور منتخب نمائندوں کی تضحیک بر داشت نہیں کی
جائے گی۔ اس معاملے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا فوری طور پر نوٹس
لینا اور وزیراعلی سندھ کی طرف سے اگلے ہی گھنٹے میں راؤ انوار کی معطلی کے
احکامات جاری کروانا اور خواجہ اظہار الحسن کو فوری طور پر رہا کروایا جانا
اہم ترین کڑیاں ہیں جنھیں اگر جوڑا جائے تو بخوبی یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ
معاملات کس رخ پر جا رہے ہیں۔ ماضی میں جب راؤ انوار کو معطل کر کے بحال کر
دیا گیا تھا اس وقت راؤ انوار کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا موقف اور طرز عمل
کچھ اور تھا جبکہ آج صورت حال بہت مختلف ہے۔ راؤ انوار پر کرپشن سمیت ،
ماورائے عدالت قتل یا جعلی پولیس مقابلوں کے بھی بہت سے الزامات موجود ہیں
لیکن تمام تر الزامات کے باوجود راؤ انوار کا لب و لہجہ اور اعتماد دیکھ کر
یہ قیاس کیا جاتا سکتا ہے کہ ان کی پشت پر اب کون لو گ ہیں ۔ راؤ انوار
کہتے ہیں کہ خواجہ اظہار الحسن کے خلاف تین ایسی ایف آئی آر موجود ہیں کہ
جن کی بنیاد پر انھیں گرفتار کرنا کوئی غیر قانونی کام نہیں ۔ لیکن یہ ایف
آئی آر تقریباً ایک سال پرانی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان ایف آئی آروں
کا کوئی چالان مبینہ طور پر کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ نتیجہ
اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت راؤ انوار نے یہ قدم
اٹھایا جس سے براہ راست یا بلواسطہ طور پر ایم کیو ایم ہی کو فائدہ ہوا۔
|