خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری و رہائی پر عوامی رائے
(Hafeez Khattak, Karachi)
سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کی گرفتاری
و رہائی کے ساتھ ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کا نام منفی کر کے ڈاکٹر
فاروق ستار کا نام اور کام بڑھادیا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی شہر قائد میں عید
قربان تو گذر گئیں تاہم وزیر اعلی سندھ کے تمام دعوے زبانی ہی رہ گئے۔ شہر
میں اب بھی جا بجا گندگی کے ڈھیرلگے ہوئے ہیں جنہیں اٹھانے والے اب تک عید
کی چھٹیاں منا رہے ہیں۔اس حوالے سے عوامی رائے کیلئے سروے کیا گیا۔
عزیز آباد ہی کے رہائشی عبدالباسط کا کہنا تھا کہ قائد تحریک الطاف حسین کی
جب بھی سالگرہ آتی تھی ہمارا عزیزآباد سج دھج جاتا تھا ، ہر طرف ان کی
تصاویر ہوا کرتی تھیں ان کی ذکر ہوتا تھا اس کے ساتھ ان کو سالگرہ کی
مبارکبادیں دی جاتی تھیں ،لیکن اب مکا چوک ہی کو دیکھ لیں اب تو اس کا نام
تبدیل کر کے شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے وہ
چوراہا یا پورا عزیز آباد اب کہیں سے بھی وہ عزیز آباد لگتا ہی نہیں ۔
سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری اور رہائی سے
متعلق عوام کے جذبات قابل غور تھے ، نادر خان نے اس حوالے سے کہا کہ یہ سب
ایک سوچی ہوئی کہانی ہے جسے آپ پری پلین کہہ لیں اس منصوبے پر عمل ہورہاہے۔
راؤ انوار کو کیا ضرورت تھی ایم کیو ایم کے رہنما کو گرفتار کرنے کی اور اس
کے ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار کو ان کے گھر جاکر میڈیا کے سامنے سارا کھیل
کھیلنے کی ، پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ وزیر اعلی سندھ نے کس انداز میں
فوری کاروائی کرکے انہیں نہ صرف رہا کروایا بلکہ گرفتار کرنے والے کو بھی
معطل کرادیا ۔
غوری صاحب کا کہنا تھا کہ حد اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ملک کا وزیر اعظم
میاں نواز شریف خود اس معاملے میں دلچسپی لیتا ہے اور فوری طور پر وزیر
اعلی کو فون کر کے پوری رپورٹ طلب کرتا ہے۔ اس وزیر اعظم کو اور کچھ نظر
نہیں آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ انہوں ایم کیو ایم کی حمایت کی آنے والے دنوں
میں ضرورت ہے ۔ اس لئے وہ اس طرح کے اقدامات کررہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کی رہائی اور واپسی کیلئے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن عدنان نے کہا کہ
یہاں تو وزیر اعظم نے یکدم پھرتی کا مظاہرہ کیا لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے
اسی شہر میں آکر قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملاقات کی
اور ان سے وعدہ کیاتھا کہ وہ امریکہ جاکر صدر اوبامہ سے قوم کی بیٹی کی
رہائی کیلئے بات کریں گے لیکن انہوں نے آج تک اپنا وعدہ پورانہیں کیا اور
آج جب قانون کا ہی ایک سپاہی ایک سیاسی رہنما کو گرفتار کرتا ہے تو وہ فوری
طور پر حرکت میں آجاتے ہیں ۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے حالیہ کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے اعظم صاحب نے کہا
کہ وہ اب تک جو کردار ادا کررہے ہیں وہ درست ہیں و ہ ایک سیاسی شخصیت ہیں
اور ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو معلوم ہے کہ انہیں اس ملک میں سیاست کس
انداز میں کرنی ہے۔ عوام کو یہ نظر نہیں آتا ہے جب ان کا قائد لندن سے بیٹھ
کر اسپیکر پر پاکستان کے خلاف باتیں کررہا تھا تب اس ڈاکٹر فاروق ستار میں
اور نہ ہی کسی اور میں اتنی جرائت ہوئی کہ وہ فوری طور پر انہیں ایسا کہنے
اور کرنے سے منع کرتے لیکن کسی میں اتنی جرائت نہیں۔ ان کے ساتھ ہی کھڑے
طالب نے کہا کہ راؤ انوار کی معطلی غلط قدم ہے وہ ایک ذمہ دار پولیس کا
افسر ہے اور اس نے کوئی بھی اقدام خلاف قانون نہیں اٹھایا اور یہ قدم بھی
اگر انہوں نے اٹھایا ہے تو اس کا وہ ہر طرح سے قانونی جواز دے رہا ہے ۔
تاہم وزیر اعلی ، اسپیکر سندھ اسمبلی اور وزیر اعظم سبھی ایک کھیل ، عوام
کے سامنے اور عوام کیساتھ کھیل رہے ہیں ۔ عوام فی الحال تو ان منصوبوں کو
نہیں سمجھ پارہے لیکن ایک وقت ایسا آئیگا جب سب کچھ کھلی کتاب کی طرح سامنے
آجائیگا۔ علی حید ر صاحب نے کہا کہ ایم کیو ایم کی پوری ٹیم الطاف حسین کی
مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی ، ڈاکٹر فاروق ستار پہلے بھی
اداکاری کرتے تھی اور اسی طرح کی اداکاری وہ آج بھی کررہے ہیں۔ نظام الدین
صاحب نے کہا کہ راؤ انوار پہلے بھی ایم کیو ایم کے خلاف تھے اور اس کا یہ
قدم جس کو اسپیکر تک نے غلط کہا یہ بھی ایم کیو ایم کے خلاف تھا وزیر اعلی
سندھ کا راؤ کو معطل کرنے کا قدام قابل تعریف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم
کیو ایم نے اس ملک کیلئے بڑی قربانیاں دیں ہیں کراچی شہر کو ترقی کی راہ پر
تیزی کے ساتھ روان رکھنے میں ایم کیو ایم کاکردار سب کے سامنے ہے۔ حکومت
سندھ سمیت مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر ملک کی
تعمیر و ترقی میں اس کو بھی کردار اداکرنے کی موقع فراہم کرے۔ شہر یوں کے
ووٹوں سے بننے والے میئر کراچی وسیم اختر کو جیل سے باہر نکالیں اور انہیں
شہر قائد کو مزید آگے بڑھانے میں اپنا کردار اداکرنے کا موقع فراہم کریں ۔
ان کا کہنا تھا کہ سابقہ دور میں بھی ایم کیو ایم نے شہر قائد میں ترقیاتی
کام کروائے اب بھی ایم کیو ایم ہی اس شہر کو مزید آگے لے جائیگی گی۔
صفائی کے حوالے سے افضل صاحب کا کہنا تھا کہ عید کے دن سے لیکر آج تک اسی
علاقے میں قربانی کے جانوروں کے باقیات موجود ہیں اس کے ساتھ گھروں سے
نکلنے والا دیگر کچرہ بھی جگہ جگہ موجود ہے۔ لگتا ہے کہ چھٹیاں ختم ہوجانے
کے باوجود ابھی تک حکومت سندھ اور محکمہ صفائی والے ابھی تک اپنے گھروں سے
باہر نہیں نکلے۔ شہید ملت گرلز کالج کے عقب میں رہنے والے رہائشی عتیق صاحب
نے کہا کہ صفائی کے صورتحال تو صرف ایک جگہ کا کسی بھی طرح سے وزیر اعلی
سندھ کو دورہ کروادیں ان کو سب پتہ چل جائیگا کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ان کے
احکامات کے بعد ان پر زبانی عملدرآمد کیسے ہوتا ہے۔ انہیں کالج کے سامنے سے
ہوتے گلشن اقبال کی جانب جانے والے راستے پر لے جائیں اور پل کے قریب جمع
ہونے والا کچرہ دیکھا دیں ، اس کی مقدار تو اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب شہری
پیدل اس کے پاس سے نہیں گذر سکتے۔گاڑیاں بھی اس کے قریب سے جلد گذرنے کی
کوشش کرتی ہیں۔ اس پل کے قریب اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر بزرگ آصف صاحب نے
کہا کہ ان ہی کچرے کے ڈھیروں سے تو وبائی امراض پھیلتے ہیں ، ہماری گھروں
تک میں ان کی بدبو آتی ہے پتہ نہیں کب وزیر اعلی ایکشن لیں گے۔
ڈاکٹر سجاد لکھویرا نے کہا کہ صفائی نہ ہونے سے بیماریاں پھیلتی ہیں جو بسا
اوقات وبا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ صرف پوش
علاقوں کی صفائی پر توجہ نہ دیں بلکہ پورے شہر میں ہی صفائی کا اہتمام کریں
۔ شعبہ طب ہی سے وابستہ حیدر صاحب نے کہا کہ عید کے بعد جانوروں کی تعداد
بھی بڑ ھ جاتی ہے۔ آوارہ کتے ہر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں پر قربانی کے
جانوروں کا فضلہ ہوتا ہے ، ان کی ہڈیاں ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ گھروں سے
پھینکا گیا دیگر کچرہ بھی موجود ہوتاہے۔ یہ کتے بچوں کو کاٹنے سے بھی دریغ
نہیں کرتے ، ایسے جانوروں سے بچاؤ کیلئے ان کے خاتمے کیلئے حکومت سندھ کو
ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔
عید قربان کے بعد صفائی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کے ایم سی نے ایک
1339کے نمبر کا اجرا کیا اور عوام سے اپیل کی وہ جہاں بھی قربانی کا فضلہ
دیکھیں ، کچرہ دیکھیں تووہ اس نمبر پر اطلاع دیں ، شکایت کے فوری بعد
کاروائی کی جائیگی۔گلشن اقبال کے علی خان صاحب نے اس نمبر کا حوالہ دیتے
ہوئے کہا کہ انہوں نے متعدد جگہوں کی نشاندہی کی ،ان کی شکایت کی لیکن ابھی
تک ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ شکایت کرنے والے سے وہ
تفصیلات طلب کرتے ، پورانام بتائیں ، رہائشی پتہ ، یونین کونسل سمیت کوئی
مشہور جگہ بھی اس کے بعد وہ ایک کمپلین نمبر دیتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
انہوں نے متعدد کمپلین نمبر حاصل کئے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ طاہر علی نے
کہا کہ حکومت کے وہ ادارے جو اس طرح کے نمبر دے دیتے ہیں وہ دراصل ان کی
ایک کامیاب چال ہوتی ہے اس سے مخص وقت کا ضیاء ہوتا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا
۔ عوام اول تو اس طرح کے نمبروں پر کمپلین کراتی ہیں نہیں اور اگر کراتے
ہیں تو اس پر کاروائی تک نہیں ہوتی اس لئے عوام اس جانب نہیں جاتی بلکہ اب
تو یہ بھی ہونے لگ گیا ہے کہ عوام نے صفائی کرنے والوں کے ساتھ مل کر خود
ہی کچرے کو اٹھوایا اور اسے کچرہ کنڈیوں تک پہنچایا۔
|
|