تیسرا خلیفہ...... چوتھا مسلمان سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ
(Muhammad Kaleem Ullah, )
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
تاریخ کے ترکش میں جھوٹ سے بجھے تیروں نے جن مقدس شخصیات کے کردار کو گھائل
کرنے کی کوشش کی ہے ان میں ایک مظلومِ مدینہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ
عنہ بھی ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ جیسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
دوہرے داماد ہونے کی وجہ سے’’ ذوالنورین‘‘ کہلاتے ہیں ، ایسے ہی دوہری
ہجرت(حبشہ اور مدینہ کی طرف ) کرنے کی وجہ سے ’’ذوالہجرتین‘‘بھی کہلاتے
ہیں۔بعینہ اسی طرح دوہرے مظلوم بھی ہیں۔ ایک تو آپ رضی اﷲ عنہ کو چالیس دن
کے طویل محاصرے کے بعد دن دیہاڑے، قید و بند میں بھوکا پیاسا اور نہتا کر
کے ظلماً شہید کر دیا گیا ، دوسرا تاریخ نے بھی آپ پر بہت چْرکے لگانے کی
کوشش کی ہے۔ لیکن جس نے اپنے لہو کی سرخی سے فسیکفیکہم اﷲکی سرخروئی حاصل
کر لی ہو اسے سبائیوں ، بلوائیوں اور تاریخ میں ان کے ہمسایوں کے ظلم و جور
کہاں مٹا سکتے ہیں؟ مٹانے والے خود مٹ گئے لیکن وہ آج بھی اپنے جسم و جان
کے ساتھ، کردار و عمل کے ساتھ زندہ و سلامت ہیں اور رہیں گے۔ آئیے ان کی
زندگی کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔
ولادت :
الاصابہ میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ آپ واقعہ فیل کے
چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
نام و نسب :
اسد الغابہ میں ہے کہ آپ کانام نامی عثمان ہے سلسلہ نسب اس طرح ہے : عثمان
بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف۔ گویا پانچویں پشت میں
آپ کا سلسلہ نسب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ والدہ کی طرف
سے سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن
عبدمناف۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی نانی محترمہ بیضاء ام الحکیم؛ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداﷲ کی سگی جڑواں بہن تھیں اور رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں۔ اس نسبت سے آپ رضی اﷲ عنہ رسول اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھانجے ہوئے۔
پاکیزہ بچپن:
کنز العمال میں خود سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا فرمان موجود ہے آپ فرماتے
ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں نہ کبھی زنا کیا ،
نہ شراب پی، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کبھی چوری کی ، نہ کبھی مسلمان ہونے بعد
دین سے پھرا، نہ دین بدلنے کی تمنا کی ، نہ ہی گانا بجایا۔
حلیہ مبارک:
طبقات ابن سعد میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ بہت خوب صورت تھے: گندمی
رنگ ، قد معتدل ، گھنی داڑھی ، مضبوط جسم ، بارعب اور شخصیت کو نمایاں کرنے
والا چہرہ تھا۔
تاریخ الخلفاء میں ہے :ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ جب
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کا نکاح اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم سے
فرمایا تو ان سے کہا کہ بیٹی!آپ کے شوہر نامدار(سیدنا عثمان ) تمہارے دادا
حضرت ابراہیم اور تمہارے باپ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم ) سے بہت ملتے جلتے ہیں۔
کنیت اور لقب:
امام ابن جریر طبری نے محمد بن عمر سے بسند لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ کی زمانہ جاہلیت میں کنیت ابو عمرو تھی اور سیدہ رقیہ بنت رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد جب لڑکا پیدا ہوا اس کا نام عبداﷲ تھا اس کے
بعد آپ رضی اﷲ عنہ کی کنیت ابو عبداﷲ ہو گئی۔ چونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاں نکاح
میں دیں اس لیے’’ ذوالنورین‘‘ کہا جاتا ہے۔ الاصابہ میں ہے کہ حضرت علی رضی
اﷲ عنہ سے حضرت عثمان کے بارے پوچھا گیا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : حضرت
عثمان ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں’’ ذوالنورین‘‘ کہا
جاتا ہے۔
قبولِ اسلام :
آپ کے قبول اسلام کے سلسلے میں محدثین و مورخین اس بات متفق ہیں کہ آپ قدیم
الاسلام ہیں۔ امام بخاری رحمہ اﷲ نے اپنی صحیح میں ،ابن حجررحمہ اﷲ نے
الاصابہ میں ، امام سیوطی رحمہ اﷲ نے تاریخ الخلفاء میں اور امام طبری رحمہ
اﷲ نے اپنی تاریخ میں یہی لکھا ہے۔ بلکہ علامہ سیوطی رحمہ اﷲ نے بحوالہ ابن
عساکر ابو ثور فہمی رضی اﷲ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ نے ایامِ محاصرہ کے دوران مجھ سے کہا : میں اسلام قبول کرنے والوں میں
چوتھے نمبر پر ہوں۔
معاشی وسماجی حیثیت:
آپ کے سیرت نگاروں نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ کو اﷲ نے مال
و دولت سے خوب نوازا تھا اور آپ اس کو راہ خدا میں بڑی فیاضی سے خرچ
فرماتے۔ مشکل حالات میں آپ نے مسلمانوں کے لیے ان کی روزمرہ کی ضروریات کو
پورا کیا، خصوصاً ٹھنڈے میٹھے پانی کے کنویں وقف کیے ، غزوات میں اسلحہ ،
سواریاں اور فوجی راشن کا بندوبست ، زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کرنا
آپ کی امتیازی شان ہے۔چنانچہ ابن عماد حنبلی نے شذرات الذہب میں لکھا ہے کہ
سیدنا عثمان سابقین اولین میں ہیں ، قدیم الاسلام ہیں ، دو مرتبہ ہجرت
فرمائی ہے ، بیت اﷲ و بیت المقدس دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا
کی ہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی ہے ، جہادی
لشکروں کی بھرپور امداد کی ہے اسلحے اور راشن سے لدے ہوئے تین سو اونٹ ،
ہزاروں دینار فی سبیل اﷲ وقف کیے ہیں۔ اسی وجہ سے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ان کے حق میں فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کو اس کا کوئی عمل نقصان
نہیں پہنچا سکتا۔
بارگاہ ایزدی میں :
مختصر تاریخ دمشق میں ہے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ
سورۃ الزمر آیت نمبر 9 اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک ایسا شخص جو
رات کی تنہائیوں میں اﷲ کے حضور سجدے کرتا ہے اور قیام کرتا ہے آخرت کے دن
کا خوف اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے۔ کیا علم والے اور بغیر
علم والے برابر ہو سکتے ہیں ؟؟حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہافرماتے ہیں کہ اس
آیت میں جس شخص کا تذکرہ ہے اس سے مراد حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہیں۔جبکہ
علامہ علی بن احمد واحدی رحمہ اﷲ نے تفسیر بغوی میں اسے حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ کا فرمان بتایا ہے۔
بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ محمد بن حاطب کہتے ہیں کہ وہ حضرت
علی کرم اﷲ وجہہ کے ساتھ بصرہ آئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ چھڑی کے ساتھ زمین
کو کرید تے ہوئے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا ذکر خیرفرما رہے تھے اور آپ کی
زبان پر یہ آیت کریمہ جاری تھی۔ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنہا
مبعدون۔ وہ لوگ جن کے لیے نیکیاں سبقت کر چکی وہی لوگ جہنم سے دور رکھے
جائیں گے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے حضرت عثمان اور آپ کے
ساتھی مراد ہیں۔
بارگاہ نبوی میں :
صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اکابر صحابہ باری باری حاضر ہو رہے تھے۔
انہی میں سے ایک شخص نے دروازے پر دستک دی اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا :اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔ میں نے
دروازہ کھولا دیکھا تو سامنے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ تھے۔
ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہو گا اور میرا
رفیق عثمان بن عفان ہو گا۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نیحضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا : میں اس شخص(سیدنا عثمان
رضی اﷲ عنہ )کا حیا کرتا ہوں جس کا فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
مستدرک حاکم میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن چند
مہاجرین ابن حشفہ کے گھر تشریف فرما تھے۔ جس میں ابو بکر ، عمر ، عثمان،
علی ، طلحہ ، زبیر ، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہم
تھے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنی
حیثیت کے برابر والے شخص کے ساتھ ہو جائے۔سارے صحابہ اٹھے، آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم بھی اٹھے اور آپ نے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو اپنے گلے لگایا اور
فرمایا: اے عثمان!تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔
در السحابہ میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شفاعت
ایسے ستر ہزار لوگوں کے حق میں قبول کی جائے گی جن پر جہنم واجب ہو چکی
ہوگی۔
درالسحابہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نے جنت میں سونے موتی اور یاقوت کا ایک
محل دیکھا میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ خوبصورت محل کس کا ہے ؟ فرشتوں نے
جواب دیا کہ آپ کے بعد آنے والے ایسے خلیفہ کا ہے جس کو ظلماً شہید کیا
جائے گا یعنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کا ہے۔
جامع ترمذی میں ہے کہ 9 ہجری میں جب غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا تو سیدنا
عثمان رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں اس قدر مال لائے کہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا: آج کے بعد عثمان کا کوئی
عمل اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے آپ کے ہمراہ سیدنا ابوبکر ،سیدنا عمر
اور سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہم بھی تھے۔ اسی دوران زلزلہ آیا جس سے احد پہاڑ
لرزنے لگا۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا
اور فرمایا: ٹھہر جا!تجھ پر ایک نبی ،ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔
جامع ترمذی میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے زمانے میں ایک جنازہ لایا گیا اور آپ سے درخواست کی گئی کہ آپ اس
کا جنازہ پڑھائیں۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر جنازہ پڑھانے سے
انکار کر دیا کہ انہ کان یبغض عثمان فابغضہ اﷲ۔یہ شخص عثمان سے بغض رکھتا
تھا ،اﷲ بھی اس سے دشمنی کرتا ہے۔
نوٹ : کتب حدیث میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی منقبت اور فضائل پر بے شمار
احادیث موجود ہیں۔
غزوات میں شرکت:
سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ جیسے سخاوت کے پیکر تھے ایسے ہی شجاعت کے پیکر
تھے ، آپ نے زمانہ نبوی میں تقریباً تمام غزوات میں بنفس نفیس شرکت کی۔
البتہ غزوہ بدرکے موقع پر آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ بنت رسول اﷲ شدید
علیل تھیں ، آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ آپ وہیں رہیں
لیکن جب غنیمت تقسیم ہونی کی باری آئی تو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا حصہ بھی مقرر فرمایا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے غزوہ
تبوک کے موقع پر سیدنا علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
معرکے میں شرکت سے روک دیا اور فرمایا کہ تم عورتوں اور بچوں کی نگہداشت
کرو۔
صلح حدیبیہ اوربیعت ِرضوان :
6 ہجری میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ
کے ہمراہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور کعب? اﷲ کا طواف کیا اس کے بعد کسی نے
سر کے بال منڈوائے اور کسی نے کتروائے۔
آپ نے یہ خواب صحابہ کو سنایا سب نہایت خوش ہوئے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم اسی سال ذو القعدہ کے مہینے میں عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کا سفر
شروع کیا ، صحیح روایات کی بنیاد پر آپ کے ہمراہ جماعت صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم کی تعداد 1400 اور 1500 کے درمیان ہے۔ مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے
احرام باندھا ، پھر آگے حدیبیہ تک پہنچے ، کفار مکہ نے مزاحمت کی کہ ہم مکہ
نہیں آنے دیں گے۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے مشورے سے اپنا
سفیر سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو بنا کر بھیجا کہ آپ جا کر مکہ والوں کو
سمجھائیں کہ ہم لڑنے کی نیت سے نہیں آئے بلکہ کعبہ کا طواف کر کے واپس چلے
جائیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ مکہ پہنچے اور ان کو یہ بات سمجھانے کی
بھرپور کوشش کی لیکن کفار مکہ نے ضدکی وجہ سے اسے قبول کرنے سے صاف صاف
انکار کر دیا۔جب سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مکہ جانے لگے تو کسی صحابی نے
یہ بات کہہ دی کہ عثمان کی قسمت اچھی ہے وہ مکہ جا کر کعبہ کا طواف کریں گے
مگر ہمیں کفار اجازت دیں یا نہ دیں۔ یہ بات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک
پہنچی تو آپ نے فرمایا: عثمان کے متعلق ہمیں یہ وہم بھی نہیں کہ وہ ہمارے
بغیر کعبہ کا طواف کر لیں گے۔
ادھر دوسری طرف جب سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ مکہ پہنچے تو سردار مکہ ابو
سفیان نے کہا : عثمان اگر تم چاہو تو میں تمہیں طواف کی اجازت دے سکتا ہوں
لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ تمہارے نبی کو طواف کی اجازت نہیں دیں گے۔ سیدنا
عثمان رضی اﷲ عنہ نے ابو سفیان کو جواب دیا : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
بغیر میں ہرگز طواف نہیں کروں گا۔
آپ کے اس جواب پر ابو سفیان نے سیدنا عثمان اور آپ کے ہمراہ دس صحابہ کرام
کو قید کر دیا۔ کسی نے یہ غلط خبر اڑا دی کہ کفار مکہ نے سیدنا عثمان اور
ان کے ہمراہ دس صحابہ کرام کو شہید کر دیا ہے۔ اس خبر سے رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کو شدید صدمہ پہنچا ، آپ اٹھے اور میدان حدیبیہ میں ایک درخت کے
نیچے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بلایا اور سیدنا
عثمان رضی اﷲ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے موت کی بیعت کی۔ جب آپ بیعت لے رہے
تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا
ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں۔لیکن بعد میں پتہ چلا
کہ شہادت عثمان والی خبر سچی نہ تھی۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ
کفار کے کچھ لوگوں کو قید کر لو ، مسلمانوں نے کفار کے چند لوگوں کو قید
کرلیا۔ تب کافروں نے مجبور ہو کر سیدنا عثمان اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا
اور اس کے بدلے اپنے لوگوں کو رہا کروایا۔
مکارمِ اخلاق:
قَسَّامِ اَزَل نے آپ کے خمیر میں اخلاقِ عالیہ ، صفات حمیدہ ، عادات شریفہ
اور خصائل کریمہ کوٹ کوٹ کر بھر دیے تھے۔ چنانچہ تاریخ الخلفاء میں بحوالہ
ابن عساکر حضرت ابوہریرہ کی روایت موجود ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : میرے صحابہ میں سے عثمان خلق کے اعتبار سے مجھ سے زیادہ
مشابہ ہے۔
صحیح بخاری باب ہجرۃ الحبشہ میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا اپنا فرمان
موجود ہے : میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہوا ، اور آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت بھی ہوا۔ اﷲ کی قسم !نہ تو میں نے آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کی نہ ہی خیانت کی ، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ
کو وفات دی ، اس کے بعد حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنایا گیا خدا کی قسم !نہ تو
میں نے ان کی حکم عدولی کی اور نہ ہی ان کی خیانت کی ، پھر حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ کو خلیفہ بنایا گیا ، اﷲ کی قسم !نہ میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی نہ
کسی تعمیل حکم سے جی چْرایا اور نہ ہی ان سے فریب کیا۔
مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ باحیاء عثمان ہیں۔ اس کے
ساتھ دوسری روایت کو ملایا جائے جس میں ہے کہ حیا ایمان کا شعبہ ہے۔ اس
شعبہ ایمانی میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
انکساری و تواضع کا یہ عالم ہے کہ تین براعظموں کے فاتح ہیں لیکن جب ایک
غلام نے آپ کی دعوت کی تو آپ رضی اﷲ عنہ اسے خوشی خوشی قبول فرما لیا
چنانچہ صحیح بخاری باب اجابۃ الحاکم الدعوۃ میں روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی
اﷲ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ کے ایک غلام کی دعوت کو قبول فرمایا۔
زہد و تقویٰ کی بلندی ملاحظہ فرمائیے تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابن عساکر
ابو ثور تمیمی رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے
کبھی گانا نہیں سنا اور نہ ہی کبھی لہو لعب کی تمنا کی۔حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا کی روایت تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابن عساکر بسند صحیح موجود ہے کہ
سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہما نے زمانہ جاہلیت میں بھی
شراب نہیں پی۔
صلہ رحمی میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ہے الاصابہ میں سیدنا علی اور ام
المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہما کا فرمان موجود ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ
عنہ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے تھے۔
عبادات:
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو اہم العبادات نماز سے بہت رغبت تھی کیونکہ اس
میں کلام الہٰی کی تلاوت بھی ہوتی ہے اوربندگی کی انتہاء بھی۔ چنانچہ آپ
پنجگانہ فرائض کے علاوہ نوافل بھی کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے اور خصوصاً تہجد
کا معمول تھا آپ ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم ختم فرما لیا کرتے تھے۔حلیۃ
الاولیاء میں محمد بن سیرین رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ شہادت والی رات بھی آپ
نے اپنے معمول کے مطابق ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم تلاوت کیا۔
الاصابہ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کی دادی سے روایت ہے کہ سیدنا
عثمان رضی اﷲ عنہ روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس دن آپ کو
شہید کیا گیا آپ اس دن بھی روزے سے تھے۔
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کثرت سے صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ تاریخ طبری
میں آپ رضی اﷲ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت
میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس
سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔
آپ نے مسلسل دس حج ادا فرمائے ، آپ مناسک حج کے بہت بڑے عالم تھے ، امہات
المومنین کو بھی آپ نے حج کرایا ، موطا امام مالک میں ہے کہ آپ نے سیدنا
حسین رضی اﷲ عنہ کو بھی حج کرایا۔اس موقع پر آپ لوگوں سے عمال کی شکایات
دریافت فرماتے اور ان کا ازالہ فرماتے۔
البدایہ والنہایہ میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا اپنا بیان موجود ہے کہ میں
ہر جمعہ ایک غلام آزاد کرتا تھا اگر کسی جمعہ آزاد نہ کر پاتا تو اگلے جمعہ
کو دو غلام آزاد کرتا۔
خشیت الہٰی :
جامع الترمذی اور مسند احمدمیں روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ جب کسی
قبر کے قریب سے گزرتے تو بہت روتے۔ یہاں تک کہ آپ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر
بتر ہو جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ جنت ودوزخ کا ذکر آئے تو آپ اس قدر نہیں
روتے قبر کو دیکھ کر بہت روتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ رضی اﷲ عنہ نے
جواب میں فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :قبر؛ آخرت
کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے جو اس میں کامیاب ہوگیا اس کے لیے اگلی
منزلیں بھی آسان ہوں گی اور جو اس میں ناکام ہوگیا اس کے لیے اگلی منزلیں
بھی مشکل ہوں گی۔
شیخین کے دور خلافت میں :
حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما اپنے دور خلافت میں سیدنا عثمان رضی اﷲ
عنہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے اور اکثر اوقات آپ کے مشوروں کے مطابق
فیصلے فرمایا کرتے تھے۔اس حوالے سے کتب حدیث و تاریخ میں بکثرت واقعات
موجود ہیں۔
پہلا خطبہ:
تاریخ طبری میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے ایک
خطبہ ارشاد فرمایا:لوگو!مجھ پر خلافت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور میں نے
اسے قبول کیا۔ میں پہلے لوگوں کی پیروی میں امور خلافت انجام دوں گا ان سے
ہٹ کر نہیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کے بعد تم سب کے میرے اوپر تین بنیادی
حقوق ہیں۔ اجماعی امور میں پہلے پیشرؤوں کا اتباع کرنا۔ غیر اجماعی امور
میں اہل خیر کے طریقے کو اپنانااور یہ کہ میں تم میں سے کسی پر کسی طرح کی
کوئی زیادتی نہ کروں۔ اورتم خود بھی ایسے کام نہ کرنا جن سے تم سزا کے
مستحق بن جاؤ۔ دنیا کی بے ثباتی کو ہر وقت ملحوظ رکھو اور اس کے دھوکے سے
بچو۔
خلافت عثمانی کے نمایاں کارنامے:
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل
ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست ، سیاسی شعوراور حکمت عملیوں
کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ
روشن ہوا۔
آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے
فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ
طرابلس ، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔چونکہ اس وقت فوجی
سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ
گاہیں بنائیں۔ مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میں چوڑی
چراگاہ قائم کی ، مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر ، اسی طرح مقام ضربہ
پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں بنوائیں ، ہر چراہ گاہ کے قریب چشمے
بنوائے اور چراہ گاہ کے منتظمین کے لیے مکانات تعمیر کرائے۔ آپ کے زمانہ
خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔
اسلامی بحرے بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہ کے اصرار پر سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ
نے رکھی۔
ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ، رائے عامہ کا
تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے ،اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں
الگ الگ تقسیم فرمایا : سول ، فوجی ، عدالتی ، مالی اور مذہبی محکمے جدا
جدا تھے۔ امام طبری نے تاریخ میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی
وفات کے وقت شام کے گورنر Governer امیر معاویہ تھے ، بحریہ کے انچارج
Admiral عبداﷲ بن قیس انفزاری تھے اور عدالت عالیہ کے قاضی Justisce Chief
حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ عنہ تھے۔
احتسابی عمل کسی بھی کامیاب حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے اس عمل کے تحت کئی عمال اور سرکاری افسروں کو
معزول بھی فرمایا۔
لوگوں کو خود کفیل بنانے کے لیے انتظامات کیے۔ البدایہ والنہایہ میں ابن
سعد کی روایت ہے کہ محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ جب میرا
بیٹا ہلال پیدا ہوا تو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے میرے پاس پچاس درہم اور
کپڑے بھیجے اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہ تیرے بیتے کا وظیفہ اور
کپڑا ہے جب یہ ایک سال کا ہو جائیگا تو اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں
گے۔
امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اﷲ سے روایت ہے
لوگ حضرت عثمان کی عیب گوئی کرتے تھے مگر میں نے دیکھا کہ سیدنا عثمان
روزانہ لوگوں میں مال تقسیم فرماتے ، عطیات عطا فرماتے ،کھانے پینے کی
اشیاء تقسیم فرماتے ، یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا۔
اس کے علاوہ امن وخوشحالی کے عوام سے قرب و ربط ،مظلوم کی نصرت و حمایت ،
فوجی چھاونیوں اوراسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد
نبوی کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا ، خون وخرابہ سے دارالخلافت کو
بچائے رکھناوغیرہ۔
خلافت عثمانی کی فتوحات:
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور ِخلافت میں فتوحات کی دو قسمیں تھیں۔
نمبر 1: بعض وہ ممالک جو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں فتح ہو
چکے تھے وہاں کے لوگوں نے بغاوت کی تو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے دوبارہ ان
کو فتح کیا۔
نمبر 2:وہ نئے علاقے جو پہلے فتح نہیں ہوئے تھے۔
پہلی قسم کے تحت آذربائیجان ، آرمینیہ ، رَے اور اسکندریہ۔ طبری اور
البدایہ والنہایہ میں تفصیلاً ان علاقوں کا ذکر ملتا ہے۔
دوسری قسم کے تحت بعض بلاد روم اور رومی قلعے ،بلاد مغرب، طرابلس، انطاکیہ
، طرطوس ،شمشاط ، ملطیہ ،افریقہ ، سوڈان ، ماوراء النہر ،ایشائے کوچک ،
ایران ، ترکستان ، اندلس ، اصطخر، قنسرین ، قبرص ،فارس ، سجستان ، خراسان ،
مکران ، طبرستان ، قہسستان ، ابر شہر ، طوس ، بیورو ، حمران ، سرخس ، بیہق
، مرو، طالقان ، مروروذ ، فاریاب ، طخارستان، جوزجان ، بلخ ، ہرات ، باذغیس
،مروین۔ وغیرہ ان میں سے ہر علاقے فتح کی تفصیل کتب تاریخ میں تفصیل کے
ساتھ موجود ہے۔ البدایہ و النہایہ اور تاریخ طبری میں ان مقامات کو مکمل
تفصیل مذکور ہے۔گویا براعظم ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح
کیے۔ فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کیا اور روئے زمین کا بیشتر حصہ
اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا۔
افواج اسلام کو ہدایات :
تاریخ طبری میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے سرحدوں پر موجود اسلامی
افواج کو یہ ہدایات بھیجیں کہ
تم لوگ مسلمانوں کی حمایت اور ان کی طرف سے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے
ہو۔تمہارے لیے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جو قوانین مقرر فرمائے تھے وہ ہماری
مشاورت سے بنائے تھے۔ اس لیے مجھ تک یہ خبر نہیں پہنچنی چاہیے کہ تم نے ان
قوانین میں رد و بدل سے کام لیا ہے۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا
کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ
تم نے کیسے بن کے رہنا ہے ؟اور جو ذمہ داری مجھ پر میں بھی اس کی ادائیگی
کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔
سرکاری عملے کو ہدایات:
تاریخ طبری میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے ہدایات جاری کیں کہ اپنے
ذمہ داریوں میں کوتاہی سے کام نہیں لینا ، حق لو اور لوگوں کو حق دو ،
امانت اور راست بازی کا ہمیشہ خیال رکھو ، جس سے جو وعدہ کرو اسے پورا کرو
، ظلم نہ کرو کیونکہ مظلوم کا مدعی خود خدا ہوتا ہے۔
ایک خواب:
شہادت سے قبل آپ کو خواب آیا جس کا تذکرہ آپ نے حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ
عنہ سے بھی کیا اور اپنی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہ سے بھی کیا۔ البدایہ
والنہایہ میں
ہے کہ عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے
پاس آیا آپ کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا کہ رات میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کو خواب میں دیکھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں محصور
کر دیا گیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا کیا
تمہیں ان لوگوں نے پیاسا رکھا ہوا ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ایک ڈول لٹکایا جس میں پانی تھا میں نے پیٹ بھر کر وہ پانی پیا۔ اس
کی ٹھنڈک اب بھی اپنے سینے میں پاتا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اگر توچاہے تو دشمنوں پر تجھے فتح نصیب ہو اور اگر تو چاہے تو ہمارے ساتھ
افطار کر لے۔ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ افطار کرنا پسند کیا۔
عبداﷲ بن سلام کہتے ہیں کہ اسی دن سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو شہید کر دیا
گیا۔
طبقات ابن سعد اور مستدرک علی الصحیحین میں حضرت نائلہ رضی اﷲ عنہا سے
روایت ہے کہ ایک دن مجھ سے فرمایا : میں نے خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
اور ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا ہے وہ سب کہہ رہے تھے کہ آج شام تم
ہمارے ساتھ روزہ افطار کرو۔
سیدنا عثمان کے گھر کا محاصرہ:
باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ
چالیس دن تک رہا ان دنوں میں آپ مسجد بھی نہیں جا سکے۔ اس دوران بہت سارے
جانثاروں نے آپ سے اجازت طلب کی۔ تاریخ دمشق میں ہے کہ سیدنا حسن ، حضرت
عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما تلوار لٹکائے آپ سے اجازت مانگنے آئے۔ طبقات ابن
سعد میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بھی تلوار لٹکائے حاضر ہوئے اور
اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا :اپنی تلواریں پھینک دو میں تمہارے ہاتھوں کسی کا
خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔
مسند احمد اور تاریخ دمشق میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ امیر المومنین !آپ
عوام کے امام ہیں آپ مشکل حالات میں ہیں اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ تین
باتوں میں سے کسی بات کو اختیار فرما لیں۔
نمبر1: آپ باہر نکلیں مقابلہ کریں آپ حق پر ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
نمبر2: آپ کے لیے پیچھے سے دروازہ کھول دیتے ہیں آپ یہاں سے مکہ مکرمہ
تشریف لے جائیں وہاں کوئی شخص آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی ہمت نہیں کر
سکے گا۔
نمبر3: آپ ملک شام امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے پاس چلے جائیں وہاں آپ کو
کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
آپ نے ان باتوں کے جواب میں فرمایا کہ
یہ نہیں ہو سکتا کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو کر امت کو
خون ریزی میں جھونک دوں ، مکہ مکرمہ بھی نہیں جا سکتا کیونکہ میں نے حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جو قریشی حرم مکہ میں خون بہائے یا خون
بہانے کا سبب بنے تو اس پر آدھی دنیا کے باشندوں کا عذاب ہوگا ، جہاں تک
شام جانے کا تعلق ہے تو یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ میں دار الہجرت اور حضور
کا پڑوس نہیں چھوڑ سکتا۔
محاصرے کے دوران آپ کا کھانا وغیرہ بند کر دیا باہر سے کوئی شخص اندر کوئی
چیز نہیں بھیج سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پانی پہنچانے کی
کوشش کی لیکن دشمنوں نے مشکیزے میں تیر مارا اور سارا پانی ضائع ہو گیا۔
اسی طرح ام المومنین سیدہ ام حبیبہ نے بھی کوشش کی ،سِیَر اعلام النبلاء
میں ہے کہ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہما نے بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔
حسنین کریمین کا حفاظتی دستہ:
تاریخ الخلفاء میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی حفاظت کے لیے جناب
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے اپنے دو صاحبزادے سیدنا حسن اور سیدنا
حسین رضی اﷲ عنہما کو مامور فرمایا۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اﷲ عنہما
کے بچے بھی حسنین کریمین کے ساتھ پہرے پر تھے۔ جب آپ کی شہادت ہوگئی تو
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو خوب ڈانٹا کہ
تمہارے ہوتے ہوئے دشمن کیسے کامیاب ہو گیا ؟
گھر کا دروازہ جلانا:
تاریخ طبری میں حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ باغیوں نے آپ
کے گھر کا دروازہ بھی جلا دیا حالانکہ یہ وہ گھر تھا جہاں حاجت مند لوگ آتے
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ان کو نوازتے تھے۔
شہادت:
آخر کار 18 ذوالحج بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اﷲ
عنہ کو شہید کر دیا گیا۔آپ نے کل 82سال کی عمر پائی۔
بوقت شہادت دعا:
ریاض النضرہ میں حضرت عبداﷲ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان خون میں لت
پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اﷲ کے حضور یہ دعا جاری تھی۔ اللھم اجمع
امۃ محمد۔ اے اﷲ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔
تکفین و تدفین :
آپ رضی اﷲ عنہ کے شہید ہونے کی اطلاع جب مدینہ طیبہ میں پھیلی ، جو جہاں
تھا وہیں ٹھہر گیا ، کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ظالم باغی اس حد تک جا
سکتے ہیں۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔مسند احمد میں روایت ہے کہ چند باہمت نوجوان
آئے اور انہوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور آپ کو شہادت والے خون آلود کپڑوں
میں دفن کر دیا گیا۔
جنازہ میں ملائکہ کی حاضری:
معرفۃ الصحابہ میں سہم سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا جنازہ
لے کر ہم جا رہے تھے تو لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا کہ کہیں باغی
لوگ آپ کی لاش مبارک کی بے حرمتی نہ کر دیں ، اچانک فرشتوں کی آواز آئی کہ
گھبراؤ نہیں ڈٹے رہو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
سیدنا عثمان کا وصیت نامہ :
البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر رحمہ اﷲ نے لکھا ہے : علاء بن فضل اپنے
والد سے روایت کرتے ہیں کہ باغیوں نے جب حضرت عثمان کو شہید کر دیا تو ان
کے وہاں سے فرار ہونے کے بعد ایک صندوق کو کھولا گیا وہاں پر ایک چھوٹے سے
ورق پر حضرت عثمان کی وصیت درج تھی : اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،
وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں ، جنت اور دوزخ حق ہیں۔ اور روزقیامت اﷲ
تعالی لوگوں کو قبروں سے اٹھائے گا۔ اور اﷲ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
میں اسی عقیدے پر زندہ رہا ، اسی پر مرا اور قیامت کے دن اسی پر اٹھایا
جاؤں گا۔
چوں محافظِ مصحفِ خدا است غنی
دین است غنی و دین پناہ است غنی
سر داد نہ داد دست در دست یہود
حقا کہ فدائے لاالہ است غنی |
|