صحابی رسول ۔۔خلیفۂ راشد۔۔۔ذوالنورین ۔۔۔شہید مدینہ ۔۔۔حضرت سیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
فضائل ۔۔۔۔سیرت۔۔۔۔ دورِخلافت۔۔۔۔شہادت |
|
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سرکارِدوعالم ﷺ
کے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم میں سے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا
ہے کہ پہلے ہم صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی تعریف اور ان کے مقام کے حوالے سے
کچھ عرض کریں۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی تعریف:
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم ان مقدس ہستیوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے حالتِ
ایمان میں حضور اکرم ا کی صحبت (اگرچہ ایک لمحہ کے لیے ہو) پائی اور ان کی
وفات بھی حالتِ ایمان پر ہوئی ہو۔ (مقدمہ ابن الصلاح، نخبۃ الفکر، اسد
الغابہ)
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کا مقام:
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم جس مقدس گروہ کا نام ہے وہ امت کے عام افراد کی طرح
نہیں، بلکہ وہ رسول ا اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہونے کی وجہ سے ایک
خاص مقام اور عام امت سے امتیاز رکھتے ہیں۔ یہ مقام اور امتیاز ان کو قرآن
و سنت کی نصوص و تصریحات کا عطا کیا ہوا ہے اور اسی لیے اس پر امت کا اجماع
ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سچے، عادل اور نمونہ ہدایت ہیں۔ اس
اجماعی عقیدے کو تاریخ کی راویات کے انبار میں گم نہیں کیا جاسکتا۔ محققین
کا قول ہے کہ اگر کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں بھی ان کے اس مقام اور شان کے
خلاف نظر آتی ہوتو اسے بھی قرآن و سنت کی نصوص واضحہ اور اجماع کے مقابلہ
میں متروک تصور کیا جائے گا۔ ویسے بھی صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے مقام کو
تاریخ کی روشنی میں جانچنا ایسا ہے جیسے ہیرے کا وزن لکڑی کے ٹال والے سے
کروایا جائے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم
تاریخی نہیں قرآنی شخصیات ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا
ہے کہ بنی آدم میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد فضیلت میں
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم ہی کا درجہ ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم اگرچہ معصوم نہیں ہیں مگر ان سے جو بھی کام
ان کے اپنے شایان شان نہیں تھے اور ان سے صادر ہوگئے تھے، وہ اﷲ تعالیٰ نے
معاف فرماکر انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما دیا ہے۔ قرآن و سنت میں
موجود صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے فضائل کا تقاضا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی
اﷲ عنھم کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ بلکہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ
عنھم کا ذکر صرف خیرہی کے ساتھ کیا جائے۔ اس لیے کہ ان پر تنقید نبی علیہ
السلام کے تزکیۂ نفوس پر اعتراض ہے جس کا کوئی مسلمان بقائمی ہوش و حواس
تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اب آئیے! تیسرے خلیفۂ راشد شہید مدینہ جامع القرآن حضرت سیدنا عثمان بن
عفان رضی اﷲ عنہ کی سیرتِ طیبہ کے اوراق پلٹتے ہیں، کہ ان نفوسِ قدسیہ کا
تذکرہ اہلِ ایمان کے ایمانی جذبات میں مزید تازگی پیدا کرتا ہے۔
ولادت:
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی پیدائش عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔آپ
رسول ا کی ولادت (عام الفیل) کے چھہ سال بعد 76ء میں پیدا ہوئے۔
نام و نسب:
عثمان رضی اﷲ عنہ بن عفان بن ابی العاص بن امیہّ بن عبد شمس اموی
قریشی۔(ابن عساکر بحوالہ حضرت عثمان ذی النورین صفحہ ۲۵)
القاب:
(۱)آپ کا ایک لقب ذی النور ین ہے۔ ذی النور ین کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح
میں نبی علیہ السلام کی یکے بعد دیگرے دو شہزادیاں آئیں۔ پہلے آپ کے نکاح
میں حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا تھیں جب ان کا انتقال ہوگیا تو آپ ا نے حضرت ام
کلثومرضی اﷲ عنہ کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا بھی
چھ سال بعد وفات پاگئیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری چالیس (اور ایک روایت کے مطابق سو)
بیٹیاں بھی ہوتیں اور وہ یکے بعد دیگرے انتقال کرتی رہتیں تو بھی میں اپنی
بیٹیوں کو یکے بعد دیگر عثمان کے نکاح میں دیتا رہتا۔ آپ رضی اﷲ عنہ اس شرف
کی وجہ سے ذی النورین کہلاتے ہیں۔
آپ رضی اﷲ عنہ کی شادی رسول ا کی دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگرے ہوئی اور
اولاد آدم میں کسی شخص کو بھی یہ اعزاز میسر نہیں کہ دوبیٹیاں کسی نبی کی
اس کے عقد میں آئی ہوں۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کو ملائے اعلیٰ
(یعنی فرشتوں کے مجمع) میں ذوالنورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آپ نے دو دفعہ ہجرت کی ایک حبشہ کی
طرف دوسری مدینہ کی طرف اس لیے آپ ذی النورین کہلائے۔
(۲) ایک لقب آپ کا غنی بھی ہے وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان غنیرضی اﷲ عنہ عرب
میں سب سے زیادہ دولت مند تھے اسکے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے فیاض طبع بھی
بنایا تھا چنانچہ آپ نے اپنی فیاضی اور اپنے مال و دولت سے اس وقت اسلام کو
فائدہ پہنچایا جب اس امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔(حضرت
عثمان ذی النورین)
حلیہ مبارک:
آپ کا قد درمیانہ تھا۔ چہرے پر چیچک کے ہلکے داغ تھے۔ رنگ گندمی ہونے کے
باوجود آپ رضی اﷲ عنہ حسن و جمال کا پیکر تھے۔ داڑھی گھنی اور لمبی تھی۔ اس
کو زرد خضاب سے رنگین رکھتے تھے، جوڑ بڑے بڑے اور مضبوط تھے، ہڈی چوڑی تھی۔
سر پر بال گھنے اور گھونگر یالے تھے۔ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا۔ جلد
مبارک نرم تھی، دانت بہت خوبصورت تھے۔ (ابن عساکر)
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل:
(۱) اﷲ تعالیٰ نے آپ کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے۔
لَقَدْ رَضِی اَللّٰہُ عن المُؤ مِنین اِذْیُباَ یِعُونکَ تَحْتَ
الثَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْ بِہُم فَاَنْزَل السَّکِیْنَۃَ
عَلَیْہِمْ وَاثَا بَہُمْ فَتْحاً قَریباً(سورۃ فتح آیت ۱۸)
ترجمہ: ’’بالحقیق اﷲ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوا جبکہ وہ آپ ا سے درخت کے
نیچے (حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا بدلہ لینے تک جہاد کرنے کی) بیعت کررہے تھے
سو اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا اﷲ کو معلوم تھا اور اﷲ تعالیٰ نے ان پر
اطمینان نازل فرمادیا اور ان کو لگے ہاتھ ایک فتح دے دی‘‘۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی۔ جب یہ
افواہ اڑی کہ قاصد رسول ا حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو کفار مکہ نے شہید کردیا
ہے۔ اس پر حضور ا نے 1400 صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سے بیعت لی۔ کہ جب تک
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا بدلہ نہیں لیں گے واپس نہیں جائیں گے اور آپ ا نے
اپنے ایک ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بیعت پر تمام
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو رضا کا پروانہ عطا فرمایا۔
اس کے علاوہ خلفائے راشدین، سابقون الاوّلون، کاتبین وحی، مہاجرین صحابہ
کرام رضی اﷲ عنھم، مجاہدین صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم، اہل بدر صحابہ کرام رضی
اﷲ عنھم کے حوالے سے جتنی آیات ہیں، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ان سب کا بھی
مصداق ہیں کیونکہ آپرضی اﷲ عنہ خلیفہ راشد ثالث اور سابقون الاولون صحابہ
کرام رضی اﷲ عنھم میں سے تھے۔ دوبار دین کی خاطر ہجرت فرمائی اور ہر جہاد
میں بھی پیش پیش رہے۔
(۲) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عثمان( رضی اﷲ عنہ) میری امت میں
سب سے زیادہ حیا دار اور سخی ہے‘‘۔(ابو نعیم)
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں حضور اکرم ا نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی
حیا اور سخاوت کی تعریف فرمائی ہے۔
(۳) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن عفان دنیا و آخرت میں
میرے دوست ہیں۔(ابویعلیٰ)
(۴) ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مہاجرین صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے
درمیان میں تشریف رکھتے تھے آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے برابر اور دوست و
ساتھی کی طرف اٹھ کر چلے پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ کی طرف تشریف لے گئے، ان سے بغل گیر ہوئے اور فرمایا تم دنیا و آخرت
میں میرے دوست ہو۔ (ابن ماجہ)
(۵) حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق جنت میں عثمان( رضی اﷲ
عنہ) ہے۔(ترمذی شریف)
(۶) حضرت ابو سعیدرضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کو دیکھا کہ اول شب سے طلوع فجر تک حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے لیے ہاتھ
اٹھا اٹھا کر دعا کرتے رہے اور فرماتے تھے:
اے اﷲ! میں عثمان( رضی اﷲ عنہ )سے راضی ہوں تو بھی عثمان( رضی اﷲ عنہ) سے
راضی رہ۔(البدیہ والنہایہ جلد7 صفحہ 212)
اس کے علاوہ بھی آپ رضی اﷲ عنہ کی شان میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔
(۷) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ فرماتی ہیں: امت میں سب سے زیادہ صلہ رحمی
کرنے والے اور اﷲ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے سیدنا حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ ہیں۔
(۸) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اس امت میں ابو بکررضی اﷲ عنہ کے بعد
عمر فارو ق رضی اﷲ عنہ سب سے افضل ہیں، پھر عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ پھر
میں۔
(۹)حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہم سب سے افضل
تھے۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی سخاوت:
اﷲ تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو خوب مال عطا فرمایا تھا اور وہ اس
مال میں سے بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے، اس لیے اﷲ کے رسول ا نے آپ کو غنی
کا لقب عطا فرمایا۔ انکی سخاوت کے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے چند ایک یہ
ہیں:
(۱) جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کا پانی انھیں موافق نہیں آیا
اور لوگوں کو پیٹ کی تکلیف رہنے لگی۔ شہر کے باہر میٹھے پانی کا صرف ایک
کنواں تھا جس کو ’’بئر رومہ‘‘ کہتے تھے اس کا مالک ایک یہودی تھا۔ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ کنواں خرید لیا جائے تاکہ سب مسلمان اس کا
پانی استعمال کریں لیکن سوال یہ تھا اس کی قیمت کہاں سے آئے؟ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ جو شخص بیر رومہ کو خریدے گا اس کے
لیے جنت ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے ہمت کی اور کنواں خریدنے کے لیے
یہودی سے بات چیت کرنے گئے۔ یہودی نے کہا میں کنواں الگ نہیں کرسکتا کیوں
کہ میری کھیتی باڑی اور کھانے پینے کا سب دارو مدار اس پر ہے۔ تمھاری خاطر
اس کا آدھا پانی قیمت سے دے سکتا ہوں۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے بارہ
ہزار درہم میں آدھا پانی خرید کر وقف عام کردیا۔ ایک دن یہودی پانی لیتا
اور ایک دن مسلمان لیتے۔ مسلمانوں کی باری آتی تو وہ دو دن کا پانی نکال لے
جاتے۔ اگلے روز یہودی کے پاس کوئی نہ جاتا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر
بیٹھا رہتا اس سے یہودی مجبور ہوگیا اور ان نے آٹھ ہزار درہم مزید لیکر
سارا کنواں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ فروخت کردیا۔
(۲) مسجد نبوی کی توسیع کے لیے نبی اکرم ا نے ایک موقع پر فرمایا: وہ کون
ہے جو فلاں مویشی خانہ کو خریدلے اور ہماری مسجد کے لیے وقف کردے تاکہ اﷲ
اس کو بخش دے، تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے بیس یا پچیس ہزار درہم میں یہ
زمین کا ٹکڑا خرید کر مسجد نبوی کے لیے وقف کردیا۔
(۳) شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمۃاﷲ علیہ نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں سالمؒ بن
عبداﷲ بن عمرؓ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ تبوک کے سفر میں جتنی بھوک پیاس
اور سواری کی تکلیف درپیش آئی اتنی کسی دوسرے غزوے میں نہیں آئی۔ دران سفر
ایک مرتبہ کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو معلوم
ہوا تو آپرضی اﷲ عنہ نے مناسب سامان اونٹوں پر حضور ا کی خدمت میں روانہ
کیا۔ اونٹوں کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ انکی وجہ سے دور سے تاریکی نظر آرہی
تھی، جس کو دیکھ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمھارے
واسطے بہتری آگئی ہے، اونٹ بٹھائے گئے اور جو کچھ ان پر لدا تھا اتارا گیا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا
’’میں عثمان رضی اﷲ عنہ سے را ضی ہوں اے اﷲ! تو بھی عثمان رضی اﷲ عنہ سے
راضی ہوجا‘‘ یہ فقرہ حضور نے تین مرتبہ فرمایا پھر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم
رضی اﷲ عنھم رضی اﷲ عنہ سے کہا تم بھی عثمان رضی اﷲ عنہ کے حق میں دعا کرو۔
(ازالۃ الخفاء)
(۴) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں دو بار مسجد نبوی
(صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مزید توسیع کی، اپنی خلافت کے دوسرے سال 26ھ میں اور
پھر 29ھ میں دوسری مرتبہ تراشیدہ پتھروں سے اس کی تعمیر کی، ستون پتھر کے
بنوا لیے اور چھت میں ساگوان لگوایا۔ اسی طرح آپرضی اﷲ عنہ نے مسجد الحرام
کی بھی توسیع و مرمت کروائی۔
(۵) حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہر جمعہ کو ایک اونٹ ذبح کرا کر اس کا گوشت راہ
خدا میں غربا کو تقسیم کرتے تھے۔
(۶) آپ حج کے موقع پر ۸ ذیقعد کو منیٰ میں اپنی طرف سے تمام حجاج کے کھانے
کی دعوت فرماتے تھے۔
(۷) آپ رمضان شریف میں اپنی طرف سے متعدد مقامات مثلاً حرم کعبہ، مدینہ
منورہ، کوفہ، بغداد وغیرہ میں کھانے کا انتظام فرماتے تھے۔
یہ تو چند ایک واقعات تھے۔ تفصیلات کے لیے بڑی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔
خلافت:
جب حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنھم حملے میں شدیدزخمی ہوگئے اوران کے انتقال
کاوقت قریب آنے لگاتولوگوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت سے پہلے آپ سے
درخواست کی کہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ پہلے تو آپ تیار نہ ہوئے
مگر لوگوں کے زور دینے پر آپ نے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنادی،جس کے ارکان
میں حضرت عبدالرحمن بن عو ف رضی اﷲ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ، حضرت
علی رضی اﷲ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ، حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ
اور حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ (حضرت نبی ا نے ان تمام حضرات کے جنتی ہونے کی
بشارت دی ہے)شام تھے اور فرمایا کہ ان میں کسی ایک شخص کو منتخب کرکے امیر
بنالو۔اس کے بعدحضرت مقدادرضی اﷲ عنہ بن اسود کو حکم دیا کہ جب مجھے دفن
کرکے فارغ ہوجائیں تو ان چھ آدمیوں کو ایک مکان میں جمع کرنا تاکہ یہ اپنے
آپ میں سے کسی کو امیر منتخب کرلیں۔اپنے بیٹے عبداﷲ بن عمر(رضی اﷲ عنہما
)کے بارے میں بطورخاص وصیت فرمائی کہ دوسروں کی طرح انھیں بھی رائے دینے کے
لیے بلا لینا لیکن امارت سے ان کو کوئی سرو کارنہ ہوگا، فیصلہ کثرت رائے سے
ہوگا۔ چنانچہ ان حضرات نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کو یہ اختیار
دیا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ مقرر کردیں، انھوں نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے
ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔حضرت عثمان
رضی اﷲ عنہ کی خلافت کی ابتدا یکم محرم 24ھ مطابق 7 نومبر 644ء سے ہوئی۔جس
آزادنہ طریقہ سے بلا جبر و اکراہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا انتخاب خلافت
ہوا اس کی مثال دنیائے اسلام میں نہ اس سے قبل اور نہ بعد میں ملتی ہے۔ آپ
کو عوام نے کھلے طور پر بھی منتخب کیا۔ اور نامزد کمیٹی کے فیصلہ کی تائید
کی۔ بیعت خلافت سے کسی شخص نے بھی ان کار نہیں کیا بلکہ بیعت کے بعد حضرت
عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے افضل ترین شخص کی
بیعت کی اور ہم نے (افضل کے انتخاب میں) کوتاہی نہیں کی‘‘۔
دور عثمانی ؓ کے نمایاں کارنامے
(۱) اسلام میں اول وقف عام مسلمانوں کے لیے بیر رومہ خرید کرکیا۔
(۲) بیت المال سے مؤذنین کے لیے وظائف کا تقرر فرمایا۔
(۳) پولیس کا محکمہ قائم فرمایا۔
(۴) تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر متفق کیا، اسی وجہ سے آپرضی اﷲ عنہ
’’جامع القران‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔
(۵) جگہ جگہ ضرورت کے تحت سڑکیں اور پل تعمیر کرائے۔
(۶) مفتوحہ علاقوں اور ملکوں میں مساجد اور دینی مدارس قائم کیے۔
(۷) ملک شام میں سمندری جہازوں کے بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔ جہاں لبنان
کے جنگلات سے لکڑی لائی جاتی تھی۔
(۸) مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند تعمیر کرایا۔
(۹) جگہ جگہ پانی کی نہریں نکلوائیں۔ مدینہ اور دوسرے شہروں میں نئے کنویں
کھدوائے۔ غرض تعمیرات عامہ کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی سرکاری عمارتیں،
سڑکیں وغیرہ تعمیر کرائیں۔ آپرضی اﷲ عنہ نے رفاہ عامہ کے بہت کام کرائے۔
(۱۰) عرب میں اسلام سے پہلے سونے اور چاندی کے ایرانی اور رومی سکے رائج
تھے۔ آنحضرت ا اور خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے وقت میں
یہی سکے چلتے تھے۔ جب ایران فتح ہوگیا تو 18ھ میں حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے
حکم سے ایرانی سکوں کے نمونوں پر مختلف وزن کے درہم ڈھالے گئے اور نقش میں
تبدیلی کردی گئی کسی پر لاالہ الا اللّٰہ اور کسی پر محمدرسول اللّٰہ اور
کسی پر صرف عمرؓ تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے عہد میں جو درہم و دینار
ڈھالے گئے ان کا نقش ’’اللّٰہ اکبر‘‘ تھا۔
خلیفۂ راشد کے خلاف زیرزمین سازش
کوفہ کی ایک جماعت جس میں اشتر نخعی، ابن ذی الحبکہ، جندب، صعصعہ بن
الکوار، کمیل اور عمیر بن ضابی وغیرہ خاص طور پر شامل تھے۔ ان کا خیال تھا
کہ ملک کی امارت اور سیاست پر صرف قریش کا حق نہیں۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی
ملک فتح کیے ہیں۔ اس لیے وہ بھی اس کے مستحق ہیں۔ اسی طرح بصرہ میں بھی ایک
سازشی جماعت تھی۔ مفسدین کا سب سے بڑا مرکز مصر تھا جہاں ایک یہودی النسل
عبد اﷲ بن سبا نے الگ فرقہ بنایا ہوا تھا۔ یہ سب گروہ حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ کو معزول کرنے اور بنوامیہّ کے خاتمے پر متفق تھے۔ عبداﷲ بن سبانے ان
سب جماعتوں کو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی مخالفت پر متحد کردیا۔ اس صورت حال
کو دیکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے یہ اقدام کیا کہ انھوں نے تمام
گورنروں کو مدینہ منورہ میں طلب کیا اور مجلس شوریٰ بلائی گئی جس میں حضرت
عثمان رضی اﷲ عنہ نے مختصر تقریر کے بعد سب کی رائے طلب کی۔ ملک کے مختلف
حصوں میں حالات کی تحقیق کے لیے وفود روانہ کیے۔ تمام ملک میں ہں گامی
اعلان جاری کیا کہ جس کسی کو گورنر سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر خلیفہ سے
بیان کرے۔ حج سے چند دن پہلے بصرہ، کوفہ اور مصر کے فتنہ پر دازوں نے آپس
میں طے کرکے اپنے اپنے شہر سے حاجیوں کے روپ میں مدینہ منورہ کا رخ کیا۔
شہر سے باہر قیام کرکے اپنے چند سرکردہ افراد کو باری باری حضرت طلحہ رضی
اﷲ عنہ، حضرت زیبررضی اﷲ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیجا۔ (تاریخ طبری۔ البدایہ والنہایہ)
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے مفسدین کے اجتماع کی خبر سنی تو حضرت علی رضی اﷲ
عنہ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو راضی کرکے واپس بھیج دیں۔ میں ان کے جائز
مطالبات تسلیم کرلوں گا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے سمجھانے پر وہ واپس
چلے گئے، لیکن پھر بعد میں مسلّح ہوکر مدینہ میں داخل ہوگئے ان کی تعداد
500 کے قریب تھی۔ اکثر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم اور ازواج مطہراترضی اﷲ عنہ
حج پر گئے ہوئے تھے۔ جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم موجود تھے انہیں بھی خلیفۂ
وقت کی طرف سے مقابلے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ سخت ممانعت تھی ۔باغی انتقام
انتقام کے نعرے لگارہے تھے۔ انھوں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے خلافت
سے دست برداری کا بھی مطالبہ کردیا۔آپرضی اﷲ عنہ نے مفسدین سے فرمایا :
’’جب تک مجھ میں جان باقی ہے میں اس خلعت (خلافت) کو جو اﷲ تعالیٰ نے مجھے
پہنائی ہے خود اپنے ہاتھوں سے نہیں اتاروں گا اور حضور ا کی وصیت کے مطابق
میں اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک صبر کروں گا‘‘۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے خلافت سے کنارہ کشی کا مطالبہ مسترد کردیا تاکہ
دستور اسلامی کی حفاظت ہوسکے، تو مفسدین نے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا جو
چالیس روز سے زائد تک جاری رہا، اس عرصہ میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اور ان
کے اہل خانہ کا کھانا پینا بند کردیا اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ
عنہا ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ وغیرہ کو بھی یہ چیزیں نہ لے جانے دیں۔ باغیوں
نے حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ، حضرت سعد بن
ابی وقاص رضی اﷲ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ کے علاوہ حضرت طلحہ رضی
اﷲ عنہ، حضرت زبیررضی اﷲ عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ جیسے اکابر صحابہ
کرام رضی اﷲ عنھم کی بھی ایک نہ سنی اورجب خلیفہ راشدکے ان ساتھیوں نے جو
اس وقت قصر خلافت میں ایک بڑی تعداد میں موجود تھے، مفسدین سے جنگ کرنے کی
اجازت طلب کی تو فرمایا:
’’میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو
امت محمدی کی خونریزی کرے‘‘۔
پھر فرمایا ’’اگر ایک شخص کا بھی ارادہ ہو تو میں اس کو اﷲ تعالیٰ کا واسطہ
دیتا ہوں کہ وہ میرے لیے اپنا خون نہ بہائے‘‘۔
گورنر شام حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی شام چلے آنے کی درخواست بھی مسترد
کردی کہ میں دیارِ رسول کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔
جمعرات کو آپ رضی اﷲ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ا اور حضرت ابو
بکررضی اﷲ عنہ و حضرت عمررضی اﷲ عنہ تشریف فرما ہیں اور ان سے فرمارہے ہیں:
عثمان! جلدی کرو ہم تمھارے منتظر ہیں۔ (البدایہ والنہایہ)
خلیفۂ راشد کی شہادت کا جاں سوزواقعہ:
باغیوں کو خطرہ تھا کہ حج کے ایام ختم ہونے والے ہیں، حجاج کی واپسی کے بعد
ان کے لیے اپنے مقصد کی تکمیل ممکن نہ رہے گی، چنانچہ بالآخر انھوں نے آپ
رضی اﷲ عنہ کے گھر پر حملہ کردیا۔ حضرت زیاد، حضرت مغیرہ اور حضرت نیار
اسلمی رضی اﷲ عنھم شہید ہوگئے، حضرت عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ عنہ، محمد بن حاطب
رضی اﷲ عنہ مروان اور حضرت سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ جو دروازے پر متعین تھے،
مدافعت میں شدید زخمی ہوئے۔ چار باغی دیوار سے اندر کود گئے۔ اور آپ رضی اﷲ
عنہ پر پے درپے وار شروع کردیے۔ آپ کی بیوی نائلہؒ نے آگے ہاتھ کیا جس سے
ان کی بھی تین انگلیاں کٹ گئیں، بالآخر بروز جمعہ بوقتِ عصر روزے کی حالت
میں تلاوت قرآن کے دوران ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ھ کو انتہائی مظلومانہ طریقے سے
خلیفہ ثالث جامع القرآن کامل الحیاء والعرفان حضرت سیدناعثمان غنی
ذوالنورین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تقریباً 84 سال کی عمر میں شہادت
ہوگئی۔شہادت کے وقت قرآن مجید کھلا ہوا تھا اور آپ رضی اﷲ عنہ سورۃ بقرہ کی
تلاوت فرمارہے تھے، آپ رضی اﷲ عنہ کے جسم اطہر سے فواروں کی طرح نکلنے والے
خون کے پہلے قطرے کو قرآن مجید نے اپنے اندر جذب کیا اور اس آیت پر آپ کا
لہو مبارک گرا: ’’فسیکفیکہم اﷲ‘‘ (اور اﷲ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے کافی
ہوجائے گا) شہادت سے پہلے آپ رضی اﷲ عنہ کی زبان سے یہ آخری کلمہ
نکلا:’’بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ‘‘(اﷲ کے نام کی برکت سے،میں نے اﷲ
تعالیٰ پربھروساکیا)۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی خبر سن کر بڑے
افسوس سے فرمایا:’’ اے لوگو! اب تم پر ہمیشہ تباہی رہے گی‘‘۔
ان کی یہ بات محض ان کے ظن وتخمین کی پیداوارنہ تھی بل کہ مخبرصادق صلی اﷲ
علیہ وسلم نے خودبھی اس بات کی نشان دہی فرمائی تھی کہ ۳۵ھ میں اسلام کی
چکی گھومے گی اوریہ بھی فرمایاتھاکہ جب ایک بارمسلمانوں کے درمیان تلوارچل
پڑے گی تووہ پھرکبھی نیام میں نہ جاسکے گی۔
حضرت زبیررضی اﷲ عنہ یا حضرت جبیررضی اﷲ عنہ بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی
اور جنت البقیع کے باغ میں دفن کردیے گئے۔(رضی اللّٰہ عنہ وارضاہ) |
|