ڈاکٹرسید ندیم حسین۔ صدر ادبی تنظیم
دریچہ ناروے
(اوسلو ، ناروے میں ڈاکٹر عارف محمود کسانہ کی کتاب افکار تازہ کی تقریبِ
رونمائی میں پڑھی گئی تحریر )
میں دریچہ اوسلو کی طرف سے آپ احباب کو آج کی اس تقریب میں آمد پر خوش
آمدید کہتا ھوں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر عارف محمودکسا نہ کتاب
افکار تازہ کی ناروے میں رونمائی کا اعزاز دریچہ اوسلو کو حاصل ہورہا ہے۔
اس سے پہلے افکار تازہ کی رونمائی دنیا کے دوسرے ممالک مثلا آسٹریا، سویڈن
، جاپان، چین،ڈنمارک، اورہالینڈ وغیرہ میں ہو چکی ہے اس سے کتاب اور مصنف
کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب مصنف کی شخصیت
کی آئینہ دار ھوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک ہیں۔ پیشے کے
لحاظ سے وہ طبی تحقیق سء وابستہ ہیں اور ساتھ ہی اخبارات میں کالم لکھتے
ھیں۔ ماہانہ درس قرآن دیتے ہیں۔ بہت اچھے مقرر ہیں۔ افکار تازہ ان کی شخصیت
کے ان تمام پہلوؤں کا احا طہ کرتی ہے۔ میری رائے میں اس کتاب کی خاص بات اس
کا تنوع ھے۔ یعنی مضامین کی وسعت۔ اس میں قاری کو اقلیتوں کے حقوق کا ذکر
ملے گا۔ عورتوں کے اسلام میں مقام کا تذکرہ ہے۔ ملکی سیاست پہ تبصرے بھی
ہیں۔ کشمیر کے بارے درد بھری باتیں ہیں۔ علامہ اقبال کا پیغام ہے۔ سائنس کی
باتیں ہیں۔ اور آج کل کے سب سے گرم موضوع اسلام اور سیکولرازم پر بحث ہے۔
الغرض افکار تازہ کے گلدستے میں قاری کو سیاست ، معاشرت ، مذہب اور سائنس
کے پھول ملیں گے۔ جن کی خوشبو الگ الگ ہے لیکن مصنف کے نزدیک منبع ایک ہی
ہے یعنی قرآن حکیم۔ ڈاکٹر صاحب کو ئی باریش مولوی نہیں۔ نہ ہی اسلام کے
بارے میں ان کا ففہم روایتی اسلام سے متا ثر ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
مصنف نے اپنی کتاب کا نام افکار تازہ رکھا ہے۔ جب ہم روایتی اسلام کو
دیکھیں تو ان کا قرآنی پیغام واقعی ایک تازہ فکر لگتا ہے۔ مثال کے طور پہ
اقلیتوں کے بارے میں لکھتے ہوئے انھوں نے متعدد آیات کا حوا لہ دے کہ ثابت
کیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اﷲ تعا لیٰ کا حکم ہے۔ یہ اْن پہ کوئی
احسان نہیں بلکہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔ پاکستان جیسے مذہبی انتہا پسندانہ
ماحول میں یہ بات کہنا جرات و ہمت کام ہے۔ پھر عورتوں کے تحفظ کے بارے میں
لکھتے ہیں۔’’ یہ کیسا معائدہ(یعنی نکاحٰ)ہے۔ کہ جو فریقین باہمی رضامندی سے
کرتے ہیں لیکن جونہی معائدے پہ دستخط ہوتے ہیں۔ ایک حاکم بن جاتا ہے اور
دوسرا محکوم حالانکہ معائدے میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ ‘‘
یہی سادہ سی بات ہمارے مذہبی حلقوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ تحفظ حقوق
نسواں بل کی مخا لفت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلہ کو
نہایت آسان زبان میں سمجھا دیا ہے۔ بشرطیکہ کوئی سمجھنے والاہو۔ کیونکہ کسی
چیز کا خوبصورت ہونا ہی کافی نہیں ہوتا اْسے دیکھنے کے لیئے دیدہ بینا کی
بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جہاد ، ختم نبوت ، خدا کا تصور ، اجتہاد اور قرآن
فہمی کے بارے میں آپکے خیالات روایتی اسلام سے ہٹ کر قرآن اور دور حاضر کے
عین مطابق ہیں۔ کتاب کی ایک اور خاص بات مصنف کی نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے
والہانہ عقیدت ہے۔ مضامین ’’میرا پیغمبرؐ عظیم تر ہے ‘‘ اور ’’حضور ﷺاہل
یورپ کے لیئے بھی رحمت ‘‘ حضور نبی کریم ﷺکی شان اقدس میں خوبصورت خراج
عقیدت ہے۔ ان مضامین میں مصنف نے غیر مسلم مفکرین کے حوالے سے حضور نبی
کریم ؐ کی شان بیان کی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے قاری دیکھتا ہے کہ مصنف ایک اور
ہستی سے بھی والہانہ عشق میں مبتلا ہے۔ اور وہ ہیں حکیم الامت علامہ اقبال۔
حکیم الامت اور مصنف دونوں کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ لیکن اس محبت کی وجہ سیا
لکوٹ نہیں بلکہ مصنف کی قرآن سے وابستگی اور اقبال کی قرآن فہمی ھے۔ وہ خود
لکھتے ھیں۔ (صفحہ نمبر 227) ’’علامہ اقبال کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ
انھوں نے مسلم قوم کو ایک بار پھر قرآن کی طرف رجوع کرنے کا درس دیا۔ اور
قرآن کو زندہ کتاب کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اسی کی روشنی میں مسلمان
قوم کی وضاحت کی‘‘۔ کتاب کے بہت کم مضامین ایسے ہیں جن میں مصنف نے علامہ
اقبال کے کسی شعر کا حوالہ نہ دیا ہو۔ مختصراََ عرض ہے کہ افکار تازہ کا
مصنف ایک سچا عاشق رسول ؐ و قرآن ، حاکمیت الہٰی کا داعی ، بلا تفریق رنگ و
نسل و جنس انسانیت اور انسانی قدروں کا پر چارک ، کشمیروپاکستان کا وکیل
اور قائدو اقبال کا فکری شاگرد ھے۔ وہ ایک درد مند دل رکھتا ہے۔ کبھی کالم
لکھتا ہے۔ کبھی کتابیں لکھتا ہے۔ کبھی قرآن کا درس دیتا ہے۔ صرف اس لیئے کہ
خدایا آرزو میری یہی ھے
میرا نور بصیرت عام کر دے
لیکن اقبال ہی کے الفاظ میں ھمارے معاشرے کا یہ عالم ھے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ھے قوموں کی زندگی میں
ایک ہزار سال سے فکری جمود کی شکار اور طرز کہن پہ اڑی ہوئی قوم کو افکار
تازہ پہ قائل کرنا آسان نہیں۔ قرآ ن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’بے شک اﷲ
کے نزدیک جانداروں میں بدترین مخلوق وہ ہے جو گونگے اور بہرے بنے رہتے ہیں
اور عقل و فکر سے کام نہیں لیتے‘‘(سورۃ انفال آیت ۲۲) ۔افکار تازہ اسی غور
و فکر کی دعوت ہے۔ کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر صاحب خودصفحہ نمبر20پر لکھتے
ہیں کہ
’’ کسی بھی لکھنے والے کو حرمت قلم کا امین ہونا چاہیے تاکہ وہ پوری
دیانتداری سے اپنی بات قارئین تک پہنچا سکے۔ الحمد ﷲ یہ اہمیت ہمیشہ میرے
پیش نظر رہی اور بفضل تعالیٰ اس ذمہ داری کو بطریق احسن نبھایا ہے۔ اپنے
قلم کو نہ تو غلو اور خوشامد کی آلائشوں آلودہ کیا اور نہ ہی حق اور سچ بات
لکھنے میں کوئی خوف اور تردد ہوا۔ حکیم الامت کی پیروی میں ساز سخن کو
بہانہ بناتے ہوئے اپنی سوچ اور افکار کو لفظوں میں پرو یا اور سپرد قلم
کیاہے۔ یہ ایک لگن ہے، جنون ہے، ایک جذبہ ہے اور ایک جدوجہد ہے جو خلوص سے
جاری ہے اور اس مشن کا کچھ حصہ اس کتاب کی صورت میں اب آپ کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔
ہماری دعا ہے کہ عارف کسانہ کا یہ جذبہ ، یہ جنون ،اور یہ لگن اور اپنے نصب
العین سے عشق تا ابد قائم رہے اور اﷲ تعالیٰ اُن کے قلم کو اور زیادہ طاقت
دے۔ آمین۔ |